Masnavi Sahar-ul-bayan Khulasaمیر حسن کی مثنوی سحر البیان کا خلاصہ |
میر حسن کی مثنوی سحر البیان کا خلاصہ
مثنوی سحر البیان اردو کی معروف مثنویوں میں شمار ہوتی ہے۔میر
حسن منظر نگاری کردار سازی نے اسے اردو ادب میں یاد گار بنا دیا ہے۔سحر البیان کا
خلاصہ درج ذیل ہے۔
مثنوی سحر البیان کا خلاصہ
کسی ملک میں ایک بادشاہ رہتا تھا۔اس کے جاہ و جلال کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئےتھے۔دنیا کی ہر خوشی اسے حاصل تھی مگر اولاد کی کمی تھی۔جائیداد کا وارث نہ ہونے کے باعث اس نے دنیا سے کنارہ کشی کا ارادہ کیا اس کے وزیروں اور درباریوں نے مشورہ دیا کہ نجومیوں سے قسمت کا حال دریافت کیاجائے۔طلب کرنے پر نجومیوں نے بتایا کہ کہ بادشاہ کے ہاں ایک خوب صورت لڑکے کی پیدائش ہوگی ۔تاہم یہ ضروری ہوگا کہ اسے بارہ سال کی عمر تک کھلے آسماں یا چھت پر نہ لے جایاجائے۔اگر ایسا کیا گیا تو اس پر کی پری کا سایہ ہوجائے گا او اسے وطن سے دوربھٹکنا پڑے گا۔
نو ماہ کے بعد باد شاہ کے ہاں بہت خوب صورت بچے کی ولادت
ہوئی ۔ملک میں جشن منایا گیااور بادشاہ نے جی بھر کے سخاوت کی۔
جب بارہ سال کا عرصہ مکمل ہوا تو بادشاہ کے حکم پر شاہزادے
کی سواری کا انتظام کیا گیا اور شہر بھر کی سیر کرئی گئی۔شام کو واپسی ہوئی۔یہ
چودھویں کی رات تھی۔شہزادے نے اس خوب صورت موسم میں چھت پر سونے کی خواہش ظاہر
کی۔بادشاہ نے اس کی ضد دیکھ کر سوچا کہ پابندی کے دن تو گزر گئے اب احتیاط کی کوئی
بات نہیں اور نہ ہی کوئی خطرہ ہے۔اس کو یہ خیال ہی نہ گزرا کہ بارہویں سال کا آخری دن ابھی باقی ہے۔شاہزدے کا
بستر چھت پر لگایا گیا۔اور کنیزوں اور دربانوں کو حکم ہوا کہ رات کو شاہزادے کا
خیال رکھیں۔موسم خوش گوار تھا اور ٹھنڈی
ہوا چل رہی تھی ۔پہرے دار سوگئے۔ایسے میں ادھر سے پریوں کی شاہزادی جس کا نام ماہ
رخ تھا۔ اس کاگزر ہوا اور وہ شاہزادے بے نظیر کی خوب صورتی دیکھ کر دل دے بیٹھی
اوراسے اٹھا کر پرستان لے گئی۔
جب شاہزادے کی آنکھ
کھلی تو وہ اپنے آپ کو انجان جگہ دیکھ کر پریشان ہو گیا ۔پری ماہ رخ نے اسے ساری
بات بتائی ۔یہ ایک خوب صورت باغ تھا جہاں اس نے شاہزادے بدر منیر کو اپنے ماں باپ
سے الگ چھپارکھا تھا۔وہ کبھی ماں باپ کے پاس رہتی کبھی محبت کے لیے بے نظیر
شاہزادے کے پاس آجاتی۔اس نے شاہزادے کو ایک جادو کا اڑنے والا گھوڑا دیا تاکہ وہ اس
پر پرستاں کی سیر کرتا رہے اور اس کا دل نہ اکتائے۔اور یہ وعدہ بھی لیا کہ اگر وہ
کہیں اور گیا یا کسی اور سے دل لگایا تو
اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا ۔
بے نظیر روزانہ گھوڑے پر بیٹھ کر پرستان کی سیر کرتا۔ایک
بار اڑتے ہوئی اس کی نظر ایک خوب صورت باغ اور اس میں بنے سفید محل پو پڑٰی اس نے
اپنا گھوڑا وہاں اتاردیا ۔دیکھا تو شاہزادی اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی ہے۔بے نظیر
اس پر فدا ہوگیا۔اس کی موجودگی کا پتہ چلنے پر شاہزادی کی محفل میں کھلبلی مچ
گئی۔یہ شاہزادی بدر منیر تھی۔بے نظیر اور بدر منیر میں محبت ہوگئی۔شاہزادہ بے نظیر
اب اکثر وہاں آنے جانے لگا اور دونوں کی محبت پروان چڑھنے لگی۔اس کے آنے جانے کی
خبر ایک دیو کو ہوئی اور اس نے جاکر پری مارخ کو یہ بات بتا دی۔ جس سے وہ بہت غضب
ناک ہوئی او دیو کو حکم دے کر کہ شاہزادہ بے نظیر کو ایک کنویں میں قید کرادیا۔
جب شاہزادی بدر منیر ملنے کو نہ آیا تو اس کی حالت غیر ہوگئی
۔وہ جدائی کی آگ میں تپنے لگی اور دیوانوں کی سی حرکتیں کرنے لگی۔ایسے میں اس کی
سہیلی وزیر زادی نجم النساء اس کی ہمت بندھاتی۔وہ ایک مخلص دوست کی طرح ہر وقت اس
کے پاس رہتی تھی۔بدر منیر نے خواب میں دیکھا کہ بے نظیر کسی کنویں میں قید ہے تو
اس کی حالت اور بھی خراب ہوگئی۔نجم النساء سے شاہزادی کا حال دیکھا نہ گیا۔ وہ جو
گن کا بھیس بدل کر بدر منیر کے لیے شاہزادہ بے نظیر کی تلاش میں نکل پڑی۔
نجم االنساء جنگل ویرانے میں بدر منیر کو تلاش کرتی اور بین
بجاتی رہتی ۔ایک بار جنوں کے بادشاہ کا بیٹا فیروز شاہ ادھر سے گزر رہا تھا اس نے
ایسی خوب صورت بین سنی تو زمیں پر اتر آیا اور نجم النساء کو دل دے بیٹھا ۔اس نے
جب نجم النساء سے سارا واقعہ سنا تو اسے اپنے باپ جنوں کے بادشاہ کے پاس لے گیا
۔جنوں کے بادشاہ نے بنظیر کو ماہ رخ پری کی قید سے آزاد کرادیا۔اس کے بعد بے نظیر
نے بدر منیر کے والد کو خط لکھ کرا پنے بارے میں بتاتے ہوئے شہزادی سے شادی کی
خواہش کی یوں بےنظیر اور بدر منیر کی شادی ہوگئی ۔ نجم النسا؍ اور فیروز شاہ کی بھی
شادی ہوگئی۔اس کے بعد شاہزادے بے نظیرنے اپنے وطن کی راہ لی ۔ملک میں اس کی آمد
کا سن کر جشن کا اہتمام کیا گیا۔بینظر محل پہنچا یوں سبھی ایک دوسرے سے مل گئے۔
خلاصہ: پروفیسراشفاق شاہین
مرزا غالب کے خطوط کی ادبی خصوصیات
فورٹ ولیم کالج کا قیام اورادبی خدمات