میر تقی میر کی غزل پتا پتا بوٹابوٹا کے اشعار کی تشریح
اردو ٹیکسٹ بک انٹرسال اولUrdu Tet Book Inter Part1
شعر1
پتا|پتا| بوٹا| بوٹا| حال| ہمارا| جانے| ہے
جانے| نہ| جانے| گل| ہی| نہ| جانے| باغ| تو| سارا|جانے| ہے
اہم الفاظ کے معنی:
- پتا: درخت کا پتہ (یہاں استعارہ ہے کائنات کے ایک ایک ذرے کے لیے)
- بوٹا: پودا، درخت
- حال: دل کی کیفیت، دکھ اور پریشانی
گل: پھول (یہاں محبوب کے لیے استعارہ ہے
مفہوم:میری حالتِ زار سے پوری فطرت، درخت کے پتے اور ہر پودا واقف ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جس کے لیے میں تڑپ رہا ہوں، وہی میرے غم سے بے خبر ہے۔ حالانکہ ساری دنیا میرے دکھ اور محبت کو جانتی ہے، مگر محبوب کی بے خبری اور لاپرواہی میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔
تشریح:
یہ شعر اردو کے کلاسیکی شاعر میر تقی میر کی سادگی، گہرے جذبات اور درد بھرے اسلوب کی بہترین مثال ہے۔میر کا شمار اردو کے صف اول کے شاعروں میں ہوتا ہے۔ان کے بعد آنے والے سبھی بڑے شعرا نے میر کی برتری تسلیم کی ہے۔اس شعر میں شاعر نے اپنی جذباتی کیفیات اور عشق کی بے بسی کو فطرت کے ذریعے بیان کیا ہے۔
شاعر کہتے ہیں کہ ان کے دل کی حالت اور جذبات سے فطرت کا ہر جز واقف ہے۔ شعر میں "پتا پتا" اور "بوٹا بوٹا" یعنی درخت کے پتے اور ہر پودا استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پوری کائنات، فطرت، اور اردگرد کی ہر چیز ان کے درد و غم کو محسوس کر رہی ہے۔ یہ ایک مبالغہ آمیز بیان ہے، جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شاعر کا غم اتنا شدید ہے کہ وہ ہر شے میں ظاہر ہو رہا ہے۔ شاعر گلہ کرتے ہیں کہ دنیا تو ان کی محبت اور درد سے آگاہ ہے، لیکن جس محبوب کے لیے وہ یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں، وہی ان کے غم سے لاعلم ہے۔ "گل" یعنی "پھول" کو یہاں محبوب کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جبکہ "باغ" پوری دنیا کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ شعر محبوب کی لاپرواہی اور دنیا کی ہمدردی کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ عاشق کے لیے سب سے بڑا دکھ یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا اس کے درد کو محسوس کرے، مگر جس کے لیے وہ تڑپ رہا ہے، وہی اس کی حالت سے غافل رہے۔
یہ شعر عشق کی اس کیفیت کو بیان کرتا ہے جہاں دنیا تو عاشق کے غم سے آگاہ ہے، مگر محبوب کی بے خبری اور بے اعتنائی اسے سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے۔ میر تقی میر کی شاعری کی ایک بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ سادہ الفاظ میں گہرے جذبات اور انسانی فطرت کے نازک پہلوؤں کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا یہ شعر نہ صرف محبت میں بے بسی کی کہانی سناتا ہے بلکہ ایک وسیع تر معنوی پہلو بھی رکھتا ہے، جس میں انسان کی فریاد اور کائنات کی ہم آہنگی کو بیان کیا گیا ہے
شعر میں پائی جانے والی صنعتیں اور ادبی وشعری اصطلاحات:
1. صنعتِ تکرار: "پتا پتا، بوٹا بوٹا" میں الفاظ کی تکرار سے شعر میں روانی اور شدت پیدا کی گئی ہے۔
2. صنعتِ تضاد: "جانے نہ جانے" اور "باغ تو سارا جانے ہے" کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے، جو شعر کے مفہوم کو مزید گہرائی عطا کرتا ہے۔
3. صنعتِ استعارہ: "گل" (پھول) کو محبوب اور "باغ" کو دنیا کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
4. مبالغہ (Hyperbole): "پتا پتا، بوٹا بوٹا" کا ہر ذرہ حالِ دل سے واقف ہے، یہ مبالغہ آرائی کا خوبصورت استعمال ہے۔
شعر2
لگنے| نہ دے| بس ہو| تو| اس کے| گوہرِ گوش| کو |بالے تک
اس کو| فلک| چشمِ مہ و خور| کی |پتلی کا| تارہ جانے| ہے
اہم الفاظ کے معنی:
- بس ہونا: اختیار میں ہونا
- گوہر گوش: کان کا موتی (یہاں محبوب کے حسن و نزاکت کا استعارہ ہے)۔
- بالے: زیور، جھمکے
- فلک: آسمان۔
- چشمِ مہ و خور: چاند اور سورج کی آنکھ۔
- پتلی: آنکھ کا مرکزی حصہ، جہاں روشنی پڑتی ہے۔
- تارہ: ستارہ، جو روشنی اور خوبصورتی کی علامت ہے۔
مفہوم:شاعر کہتا ہے کہ اگر اس کا اختیار ہو تو وہ محبوب کے کانوں میں پڑے ہوئے قیمتی زیور (بالے) تک کو اس کے نازک وجود کو چھونے نہ دے۔ محبوب اتنا لطیف اور قیمتی ہے کہ ہر چیز کا لمس اس کے حسن پر اثر ڈال سکتا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ آسمان بھی اس محبوب کو چاند اور سورج کی آنکھ کی پتلی میں سجا ہوا ایک درخشاں ستارہ سمجھتا ہے، یعنی وہ کائنات کی سب سے حسین اور چمکدار چیزوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔
تشریح:
میر تقی میر کا یہ شعر ان کے مخصوص عشقیہ رنگ کا عمدہ نمونہ ہے، جس میں حسنِ محبوب کی نازکی، لطافت اور انفرادیت کو انتہائی مبالغہ آمیز مگر دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔شاعر نے محبوب کی نزاکت کا ایسا تصور پیش کیا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے کانوں میں پہنے گئے زیورات بھی اسے نہ چھو سکیں۔ "گوہرِ گوش" کا مطلب "کان کا موتی" یا "بالے" (جھمکے) ہے، جو کہ محبوب کی زینت ہوتے ہیں، لیکن شاعر اس حد تک نازک خیالی کا قائل ہے کہ وہ یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ یہ زیورات محبوب کی لطیف جلد کو چھوئیں۔ یہ مبالغہ آرائی محبوب کی غیر معمولی نزاکت اور انمول حسن کو ظاہر کرتی ہے۔وہ کہتا ہے کہ محبوب کا حسن ایسا درخشاں ہے کہ آسمان بھی اسے چاند اور سورج کی آنکھ کی پتلی میں سجا ہوا ایک ستارہ سمجھتا ہے۔ یہاں "چشمِ مہ و خور" کا مطلب چاند اور سورج کی آنکھ ہے، اور "پتلی کا تارہ" کا مطلب ہے کہ محبوب اتنا روشن ہے کہ وہ چاند اور سورج جیسی عظیم اور روشنی دینے والی چیزوں کی نظر میں بھی قیمتی اور قابلِ تعریف ہے۔
یہ شعر میر کی شاعری میں موجود نازک خیالی، حسن پرستی اور مبالغہ آرائی کی عمدہ مثال ہے۔ شاعر نے یہاں تشبیہ اور مبالغہ جیسی ادبی صنعتوں کا استعمال کیا ہے، جو شعر کی حسن آفرینی کو بڑھاتی ہیں۔
ادبی صنعتیں اور شعری اصطلاحات:
1. تشبیہ:
o محبوب کو چاند اور سورج کی آنکھ کی پتلی میں چمکنے والے ستارے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
2. مبالغہ:
o شاعر نے محبوب کی نزاکت کو اتنا لطیف قرار دیا ہے کہ وہ زیورات کے لمس کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
3. حسنِ تعلیل:
o شاعر نے محبوب کے حسن کو چاند اور سورج کی چمک کے ساتھ جوڑ کر ایک خاص سبب بیان کیا ہے، یعنی وہ آسمانی روشنیوں سے بھی زیادہ درخشاں ہے۔
یہ شعر میر کی تخیلاتی بلندی، نازک خیالی اور مبالغہ آمیز مگر دلکش اندازِ بیان کی شاندار مثال ہے۔
شعر3
عاشق| سا| تو| سادہ| کوئی| اور| نہ ہوگا| دنیا| میں
جی کے| زیاں کو| عشق| میں| اس کے| اپنا وارا| جانے| ہے
اہم الفاظ کے معنی:
- سادہ: بھولا بھالا، ناسمجھ، معصوم۔
- زیاں: نقصان، بربادی۔
- وارا جانا: قربان جانا، آسانی سے قبول کر لینا۔
مفہوم:شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں عاشق جیسا سادہ لوح اور بے وقوف کوئی نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنے جان و مال اور زندگی کی بربادی کو بھی عشق میں قبول کر لیتا ہے اور اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے۔
تشریح:
میر تقی میر نے اس شعر میں عاشق کی سادگی، بے خودی، اور عشق کی دیوانگی کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ عشق کی راہ میں عاشق اپنی زندگی کی بربادی کو بھی خوشی سے قبول کر لیتا ہے، اور یہی اس کی معصومیت اور سادگی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔شاعر عاشق کی معصومیت پر زور دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں عاشق جیسا سادہ لوح کوئی نہیں، جو اپنے نقصان اور تکالیف کو بھی محبت کی راہ میں خوشی سے سہتا ہے۔ عاشق اپنی محبت میں اتنا مگن ہوتا ہے کہ اسے اپنی حالت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اور یہی چیز دنیا کو اس کی نادانی لگتی ہے۔
یہاں شاعر عاشق کی بے لوث محبت اور اس کی بے خودی کو بیان کرتے ہیں۔ عاشق اپنی جان اور زندگی کے نقصان کو بھی ایک عام بات سمجھتا ہے اور اسے اپنی قسمت کا حصہ مان کر قبول کر لیتا ہے۔ "وارا جانا" کا مطلب ہے قربان جانا، یعنی عاشق اپنی بربادی کو بھی خوشی سے قبول کرتا ہے کیونکہ اس کے لیے عشق سب سے بڑی حقیقت ہے۔
یہ شعر میر تقی میر کی عشقیہ شاعری کی ایک شاندار مثال ہے، جس میں انہوں نے عاشق کی نادانی، سادگی، اور دیوانگی کو انتہائی خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔ عاشق کے نزدیک اس کی محبت اور محبوب کے لیے سب کچھ قربان کرنا ایک عام سی بات ہے، حالانکہ دنیا اسے بیوقوفی سمجھتی ہے۔ میر کی شاعری کا یہی خاصہ ہے کہ وہ سادہ الفاظ میں گہری باتیں بیان کرتے ہیں، جو قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔
ادبی صنعتیں اور شعری اصطلاحات:
1. صنعتِ مبالغہ:
o شاعر نے عاشق کی سادگی کو مبالغے کے ساتھ بیان کیا ہے، یعنی دنیا میں کوئی اور اتنا سادہ نہیں جتنا عاشق ہوتا ہے۔
2. صنعتِ تضاد:
o "جی کے زیاں" (جان کا نقصان) اور "وارا جانا" (قربان جانا) ایک دوسرے سے متضاد ہیں، جو عشق کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔
شعر4
چارہ گری| بیماریِ دل| کی| رسمِ شہرِ حسن| نہیں
ورنہ| دلبرِ ناداں| بھی اس درد| کا| چارہ |جانے| ہے
اہم الفاظ کے معنی:
- چارہ گری: علاج، مدد۔
- بیماریِ دل: دل کا درد، عشق کا غم۔
- رسم: رواج، طریقہ، عادت۔
- شہرِ حسن: محبوبوں کی دنیا، حسن کی دنیا۔
- دلبرِ ناداں: نادان محبوب، جو عاشق کے حال سے بے خبر ہو۔
- چارہ جاننا: علاج کا علم رکھنا، حل جاننا۔
مفہوم:شاعر کہتا ہے کہ محبت کی دنیا میں دل کے درد کا علاج کرنے کا کوئی رواج نہیں، ورنہ میرا محبوب، چاہے وہ کتنا ہی نادان کیوں نہ ہو، میرے دل کے زخموں کا علاج کر سکتا تھا۔ مگر حسن والوں کی فطرت میں عاشق کے درد کا مداوا کرنا شامل نہیں ہوتا۔
تشریح:
یہ شعر میر تقی میر کی عشقیہ شاعری کا ایک شاندار نمونہ ہے، جس میں عشق کی بے بسی اور محبوب کی بے اعتنائی کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبت کرنے والوں کے دل میں جو غم اور درد ہوتا ہے، اس کا علاج کسی کے پاس نہیں کیونکہ یہ محبت کی دنیا کا اصول نہیں ہے کہ عاشق کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ شاعر محبت کی دنیا کا المیہ بیان کر رہے ہیں کہ عاشق کے دل کے زخموں کا علاج کرنا حسن کی دنیا میں رائج نہیں ہے۔ محبوب ہمیشہ عاشق کی تکالیف سے بے نیاز رہتا ہے، اور اس کی محبت کا جواب دینا یا اس کے دکھوں کو کم کرنا اس کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ شاعرکا خیال ہے کہ اگر محبت میں دل کے درد کا علاج کیا جاتا، تو پھر میرا محبوب، جو نادان ہے، وہ بھی میرے غم کا علاج جانتا۔ یعنی محبوب لاعلم یا بے خبر نہیں ہے، بلکہ وہ جان بوجھ کر عاشق کے درد کا علاج نہیں کرتا کیونکہ یہ حسن کی دنیا کا دستور ہی نہیں۔
یہ شعر عشق کی بے بسی اور محبوب کی لاپرواہی کا خوبصورت اظہار ہے۔ شاعر اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں کہ حسن کی دنیا میں عاشقوں کے درد کا مداوا کرنا رائج نہیں، ورنہ ہر محبوب جانتا ہے کہ اس کے عاشق کی تکلیف کا سبب کیا ہے اور اسے کس طرح دور کیا جا سکتا ہے۔ میر تقی میر کی شاعری کی یہی خوبی ہے کہ وہ سادہ الفاظ میں گہرے جذبات اور پیچیدہ انسانی نفسیات کو بیان کر دیتے ہیں، جو قاری کے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ادبی صنعتیں اور شعری اصطلاحات:
1. صنعتِ تضاد:
o "چارہ گری" (علاج) اور "بیماریِ دل" (دل کی بیماری) دو متضاد الفاظ ہیں، جو شعر میں حسن پیدا کرتے ہیں۔
o
2. صنعتِ استفہام:
o شعر میں ایک پوشیدہ سوال ہے: اگر محبوب علاج جانتا ہے تو پھر علاج کیوں نہیں کیا جاتا؟ یہ استفہامیہ انداز شعر کی تاثیر کو بڑھاتا ہے۔
شعر5
مہرو وفا| و| لطف و عنایت| ایک سے| واقف| ان میں| نہیں
اور تو| سب کچھ| طنز و کنایہ| رمز و اشارہ| جانے |ہے
اہم الفاظ کے معنی:
- مہرو وفا: محبت اور وفاداری۔
- لطف و عنایت: مہربانی اور نوازش۔
- طنز و کنایہ: طعنہ اور اشارہ، چھپی ہوئی باتیں۔
- رمز و اشارہ: خفیہ اشارے، پوشیدہ باتیں۔
- واقف: جاننے والا، واقف کار۔
مفہوم:شاعر محبوب کی بے وفائی اور لاپرواہی کا شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ محبت، وفاداری، مہربانی اور عنایت جیسے جذبات سے بالکل ناواقف ہے۔ اس کے برعکس، اسے طعنے دینا، کنایوں میں بات کرنا، اور پوشیدہ اشارے دینا خوب آتے ہیں۔ یعنی وہ محبت کرنے کے بجائے صرف دل آزاری کے فن میں مہارت رکھتا ہے۔
تشریح:
میر اپنے اس شعر میں محبوب کے رویے کی شکایت کرتے ہیں اور اس کی بے اعتنائی اور سرد مہری کو نمایاں کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ محبوب کی فطرت میں محبت، وفاداری، مہربانی اور نوازش جیسی خصوصیات بالکل نہیں پائی جاتیں۔ وہ ان جذبات سے واقف نہیں، گویا یہ اس کے مزاج کا حصہ ہی نہیں۔ عاشق کی خواہش ہوتی ہے کہ محبوب مہربان ہو، اس سے وفا کرے اور اس پر لطف و کرم کی بارش کرے، لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی ممکن نہیں،میر ایک طنزیہ انداز اپناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محبوب کو اگر کچھ آتا ہے تو وہ صرف طنز کرنا، طعنے دینا، کنایوں میں بات کرنا، اور پوشیدہ اشاروں میں دل آزاری کرنا ہے۔ وہ عشق کے حقیقی تقاضوں کو نہیں سمجھتا، بلکہ اپنی بے اعتنائی اور سخت رویے کے ذریعے عاشق کو مزید تڑپاتا ہے۔یہ شعر عاشق کی بے بسی اور محبوب کی بے اعتنائی کا بہترین اظہار ہے۔ میر تقی میر نے سادہ الفاظ میں محبت کی تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے کہ بعض محبوب وفاداری اور مہربانی کے جذبات سے ناواقف ہوتے ہیں، لیکن طنز اور دل آزاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ شعر میر کی عشقیہ شاعری کی ایک منفرد مثال ہے، جس میں محبت کی خوشیوں کے بجائے اس کے درد اور تکلیف کا ذکر کیا گیا ہے، جو ان کے مخصوص اندازِ سخن کا ایک نمایاں پہلو ہے۔
ادبی صنعتیں اور شعری اصطلاحات:
1. صنعتِ تضاد:
o "مہرو وفا" (محبت اور وفاداری) اور "طنز و کنایہ" (طعنہ اور اشارہ) ایک دوسرے کی ضد ہیں، جو شعر میں حسن پیدا کرتے ہیں۔
آخری شعر
تشنہء خوں| ہے اپنا کتنا| میر بھی ناداں| تلخی کش
دم دارآبِ| تیغ کو اس کی| آبِ گوارا| جانے |ہے
اہم الفاظ کے معنی:
- تشنۂ خوں: خون کا پیاسا، موت کا متلاشی۔
- تلخی کش: سختیوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنے والا۔
- دم دار: تیز دھار، کاٹ دار۔
- آبِ تیغ: تلوار کی دھار، کاٹ۔
- آبِ گوارا: میٹھا اور خوش ذائقہ پانی۔
مفہوم:میر تقی میر خود کو نادان کہتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وہ اتنے تلخی برداشت کرنے والے (غم سہنے والے) اور خون کے پیاسے (یعنی مرنے کے مشتاق) ہو چکے ہیں کہ انہیں تلوار کی دھار بھی پانی کی طرح خوشگوار محسوس ہوتی ہے۔ یعنی وہ اتنے صدمات سہہ چکے ہیں کہ موت بھی انہیں راحت بخش محسوس ہوتی ہے۔
تشریح:
یہ شعر میر تقی میر کی مایوسی، رنج و غم اور زندگی کی تلخیوں کو برداشت کرتے کرتے پیدا ہونے والی بے نیازی کو ظاہر کرتا ہے۔ میر کے نزدیک دنیا میں جینے کا کوئی لطف باقی نہیں رہا، اس لیے وہ اب اپنی جان سے بے پروا ہو چکے ہیں۔
یہاں شاعر اپنی حالتِ زار کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ کس قدر خون کے پیاسے (یعنی موت کے متلاشی) ہو گئے ہیں۔ ان کی زندگی اتنی تلخیوں اور غموں سے بھری ہوئی ہے کہ وہ ہر تکلیف کو سہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ شاعر خود کو نادان قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ مسلسل دکھ سہتے جا رہے ہیں اور پھر بھی صبر کیے ہوئے ہیں۔شاعر اپنے زخموں اور اذیتوں کو ایک اور زاویے سے بیان کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ انہیں تلوار کی تیز دھار بھی میٹھے پانی کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ یہ درحقیقت ان کی مایوسی اور بے بسی کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ عام انسان تلوار کی دھار سے خوف کھاتا ہے، مگر شاعر کو اب اس سے کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ مرنے کے لیے تیار ہیں۔
زیر تشریح شعر میر تقی میر کی درد بھری شاعری کی بہترین مثال ہے، جس میں وہ زندگی کے دکھوں اور تکلیفوں کی انتہا کو بیان کر رہے ہیں۔ شاعر کے نزدیک غم اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ اب زندگی سے ان کا کوئی لگاؤ نہیں رہا، اور موت ہی انہیں واحد راحت محسوس ہوتی ہے۔ یہی کیفیت ان کی شاعری میں ایک منفرد انداز پیدا کرتی ہے اور قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔
ادبی صنعتیں اور شعری اصطلاحات:
1. صنعتِ تضاد:
o "آب تیغ" (تلوارکی دھار) اور "آبِ گوارا" (میٹھا پانی) کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے، کیونکہ تلوار کا پانی یعنی دھار، موت کا سبب بنتی ہے، جب کہ آبِ گوارا زندگی بخشتا ہے۔
2. صنعتِ استعارات:
o "آبِ تیغ" کا مطلب تلوار کی دھار ہے، لیکن شاعر نے اسے "آبِ گوارا" (میٹھے پانی) سے تعبیر کیا ہے، جو ایک خوبصورت استعارہ ہے۔
3. صنعتِ ایہام:
o "آب" کا مطلب چمک یا تیزی بھی ہو سکتا ہے اور پانی بھی، اس لیے "آبِ تیغ" کے دو معانی نکلتے ہیں: ایک تلوار کی دھار اور دوسرا پانی، جو شعر میں ایک خوبصورت ایہام پیدا کرتا ہے۔
تحریر:پروفیسر اشفاق شاہین،پنجاب کالج(شعبہ اردو)
Meer Taqi Meer ki Ghazal 'Pata Pata Boota Boota' ki Mukammal Tashreehمیر تقی میر کی غزل "پتا پتا بوٹا بوٹا" کی مکمل تشریح
'Pata Pata Boota Boota' ki Tashreeh"پتا پتا بوٹا بوٹا" کی تشریح – امتحانی نقطہ نظر سے اہم نکات
Meer Taqi Meer ki Shairi: 'Pata Pata Boota Boota' ka Matlab aur Ma'ni
میر تقی میر کی شاعری: "پتا پتا بوٹا بوٹا" کا مطلب اور معنی
گیارہویں جماعت اردو: "پتا پتا بوٹا بوٹا" غزل کی امتحانی تشریح
Class 11Urdu: 'Pata Pata Boota Boota' Ghazal ki Imtihani Tashreeh
Meer Taqi Meer ki Shairi aur 'Pata Pata Boota Boota' ki Sada aur Aasan Tashreeh
میر تقی میر کی شاعری اور "پتا پتا بوٹا بوٹا" کی سادہ اور آسان تشریح