مرزاغالب کی خطوط نگاری |
غالب کی خطوط نگاری پر نوٹ لکھیں
خطوط غالب کا تنقیدی جائزہ لیں
شاعری
کی طرح خطوط غالب کی اہمیت سے انکار
ممکن نہیں ہے۔ ۔اپنےاسلوب کی وجہ سے مرزا غالب کےخطوط نہ صرف ادب کے قارئین کی
توجہ کامرکز ہیں بلکہ مختلف مدارج کے تعلیمی نصاب میں بھی شامل ہیں۔ان خطوط سے
غالب کا ادبی مذاق بھی سامنے آتا ہےاوراس
دور کے رجحانات نیز سیاسی و انتظامی حالات کی جھلکیاں بھی دیکھنے کوملتی ہیں۔ مرزاغالب
کے خطوط نے
اردونثرنگاری پربھی گہرے اثرات مرتب کیے
خطوط غالب میں غالب کی شخصیت
خط
کو آدھی ملاقات کا بھی نام دیا جاتا ہے چنانچہ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ خط سےانسان
کی سیرت و کردار کا پتہ چلتاہے۔ مرزاغالب
کےخطوط سے ان کی ایک چلتی پھرتی تصویر ابھرتی
ہے۔ غالب کا ننھیال خاصہ امیر تھا۔
مرزاغالب کا پچپن بڑی عیش و عشرت میں بسر
ہوا تھا ۔انہیں شراب پینے اور جوا کی بھی عادت تھی۔ مرزاغالب نے زندگی میں تنگ دستی بھی دیکھی۔وہ بے باک اور
نڈر بھی تھے۔وہ دوستوں سے جس طرح بے تکلفی سے پیش آتے غالب کےخطوط اب سب باتوں کا بھی اس کا منہ
بولتا ثبوت ہیں۔ غالب کی کتاب اردوئےمعلی
غالب کےخطوط کی نمائندہ کتاب ہے۔اس
کتاب پر بات کرتے ہوئے مولاناحالی لکھتے ہیں
اردو
معلی میں وہ خط ہیں جو انہوں نے عام طور پر اپنے دوستوں شاگردوں کو لکھے ہیں۔
مرزاغالب
کےخطوط کی ادبی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
غالب کی خطوط نگاری میں ملکی حالات کی جھلکیاں
شاعروادیب
معاشرے کی آنکھ اور زبان ہوتے ہیں۔کوئی بھی ادیب اپنے اردگرد کے ماحول سے کٹ کر نہیں
رہ سکتا۔اوہ پھر مرزاغالب کی تو اس حوالے سے بھی سیاست پر نظر قرار دی
جاسکتی ہے کہ وہ بہادرشاہ ظفرکےدربار سے وابستہ رہے۔انگریزوں سے بھی ان کے تعلقات
تھے۔اس وقت دہلی سمیت پورے ہندوستان میں فسادات ہورہے تھے۔چنانچہ ان حقائق کی واضح
تصویر کشی غالب کےخطوط میں ملتی ہے۔وہ
میرمہدی مجروح کو ایک خط میں رقم
طراز ہیں کہ گوروں کی پاسبانی پر قناعت نہیں ہے بلکہ لاہوری دروازے کا جمعدار
راستے میں مونڈھا بچھا کر بیٹھتا ہے۔جو شخص آتا ہے اسے بید لگتے ہیں۔ان مرزاغالب
کےخطوط میں جابجا دلی کےدگرگوں حالات کی
جھلکیاں ملتی ہیں۔
خطوط غالب میں ان کی بدحالی کا بیاں
ان
کے خطوط
سے اس دور کے معاشرتی و سیاسی حالات کی آگاہی کے ساتھ ساتھ
مرزاغالب کےحالات زندگی کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔۔ہو ہرگوپال تفتہ کو
لکھتے ہیں کہ
میرا
مکان ذاتی نہیے ہے۔کرائے کی حویلی میں رہتا ہوں۔
اسی
خط میں وہ آگے چل کر بتاتے ہیں کہ مکان کی چھت اس قدر ٹپکتی ہے کہ مختلف برتن چھت
تلے رکھے ہوئے ہیں۔وہ اپنے کھر کو کشتی نوح بتاتے ہے۔جہاں انہیں پانی میں تین ماہ
گھرے رہنے کا اتفاق ہوا۔
سادگی اور بے تکلفی
مرزاغالب
کےخطوط کی ایک اہم خوبی ان کی تحریر کا
سادہ اور بے تکلف انداز ہے۔اک کی زبان موجودہ دور کی زبان ہے۔وہ خط یوں تحریر کرتے
ہیں جیسے کسی سے مکالمہ کر رہے ہوں۔اں کے اکثر غالب کےخطوط ان کے احباب اور شاگردوں کو تحریر کیے گئے ہیں۔واہ
عام طور پر خط کی ابتدا ہی یوں کرتے ہیں جیسے کوئی سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ غالب کی
خطوط نگاری میں مقامات پر مقفی عبارت بھی
دیکھنے کو ملتی ہے ۔وہ علاوالدین علائی سے
یوں مخاطب ہیں۔۔میری جان علائی ہمہ دان۔میر مہددی مجروح کو میرن کے ن سے مخاطب
کرتے ہیں۔ان کے اسی انداز نے اردو نثر کو تکلف کی اسیری سے نجات دلانے میں کردار
ادا کیا۔
خطوط میں شوخی تحریر
مرزاغالب
کی ظرافت اور خوش طبعی کے بارے میں مختلف
واقعات مشہور ہیں۔وہ اپنی روزمرہ زندگی میں جو ظریفانہ انداز رکھتے تھے وہی شوخی
ان کے خطوط میں بھی دکھائی دیتی ہے۔مولاناحالی نے کہا تھا ۔
ان کی تحریر کی شوخی نے ان کے خطوط کو ناول اور ڈرامہ سے بھی زیادہ
دل چسپ بنادہا ہے۔
حالی
مزید بیان کرتے ہیں کہ مرزاغالب کو حیوان ناطق کی بجائے حیوان ظریف کہنا چاہیے۔
منظر کشی
مرزاغالب
اپنی تحریرمیں منظرنگاری پر خاص توجہ دیتے
ہیں وہ کسی بات کی جزئیات کو ملاکر الفاظ میں ایک منظر تشکیل دے دیتے ہیں۔یوں خط
پڑھنے والا یوں محسوس کرتا ہے کہ سب کچھ وہ اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ ہرگوپال تفتہ
کو لکھے گئے خط میں گویا ہیں کہ
میں
ناتواں بہت ہوگیا ہوں،گویا کہ صاحب فراش ہوں۔کوئی نیا شخص تکلف کی ملاقات کے لیے
آجائے تو اٹھتا ہوں۔ورنہ پڑا رہتاں۔لیٹے لیٹے خط لکتا ہوں۔
مکتوبات غالب میں شاعری
؎مرزاغالب اردو کے بہت بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔ ادب سازی میں ان کی بڑی پہچان اں کی شاعری ہی ہے۔چنانچہ
نثرمیں بھی بعض مقامات پر وہ اشعار درج کردیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ خط لکھتے لکھتے
ساتھ ہی موضوع پر کوئی شعر ھی ہاگیاہو اور انہوں نے اسے درج کردیا ہو۔وہ مہدی مجروح کو لکھے گئے ایک خط میں انگریز حکومت کے انتظام
کا ذکر کرتے ہیں اور روزبروز بدلتے احکامات پر عبارت کے درمیان ہی شعر بھی کہہ دیتے
ہیں ۔ اس شہر میں ایک نیا حکم ہوتا ہے۔
خطوط
غالب کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ناقدین اس
امر پر اتفاق رکھتے ہیں کہ مرزاغالب کےخطوط
نے
اردو نثر میں سہل نگاری کو رواج دیا اورعبارت میں تصنع کی حوصلہ شکنی ہوئی۔