WLI DKNI kI |
ولی دکنی
اردو غزل کا باوا آدم
ولی کی شاعری کی خصوصیات
اگر چہ ولی دکنی سے قبل بھی اگر چہ
بیشتر شعرا نے کلام کہا ہے۔ لیکن ولی اپنی شعری خصوصیات کے باوصف اردو غزل کے پہلے
بنیاد کار کہلاتے ہیں۔ولی انہوں نے ایسی اردو زبان میں کلام لکھا جو آنے والے سخن
وروں کے لیے راستے کا نشان بن گئیں۔ولی دکنی کی غزل گوئ اس لحاظ سے بھی اہم ہے
کہان کی غزلیات میں موجود تغزل ہی ان کی بڑی خوبی ہے۔ ولی دکنی کی غزلیات کی
خصوصیات درج ذیل ہیں۔
حسن پرستی
ولی دکنی کی شاعری ایک حسن پرست شاعر
کا ورزنامچہ ہے۔ وہ اپنے کلام میں اپنے محبوب کے حسن و جمال کی تعریف کرتے ہیں۔
محبوب کا پیکر دیکھ کر ان کی دل پر جو کیفیات گزرتی ہیں انہیں اشعار کی صورت دے
دیتے ہیں۔تاہم اس حسن پرستی میں جنسی پہلو خال خال ہی نظر آتا ہے۔وہ معشوق کے
دیدار سے لطف اندوز ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ان کے ہاں وہ سوقیانہ پن نہیں ملتا جس
کا رواج انشا اللہ خاں انشا اور مرزا سودا کےے زمانے میں در آیا تھا۔ولی جسمانی
لذت پرستی سے دور ہیں اور ایک سچے عاشق کی طرح محبوب کے احترام کو لازم سمجھتے
ہیں۔
ولی کے کلام میں خارجیت کا رنگ
ولی اورنگ آبادی باہر کی دنیا سے لطف
اندوز ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔یوں ان کی غزل گھٹن کی فضا کا شکار نہیں ہونے
پاتی۔وہ ایسے بھنورے کی طرح ہیں جو عشق و مستی میں پھول کے گرد منڈلاتا ہے اور حسن
کے قصیدے کہتا ہے ۔اس میں غم و اندوہ نہیں ہے۔ شاید یہ اس دور کا تقاضہ بھی تھا
کیوں اس وقت دکن کی ریاستیں آزادی پر یقین رکھتی تھیں۔اور گھٹن کا ماحول نہیں تھا
جیسا کہ میر غالب اور ایسے ہیں بڑے شعرا نے دیکھا۔میر اور غالب کے دور میں
ہندوستاں میں شورش تھی۔بادشاہتیں تہہ وبالا ہو چکی تھیں اور فسادات کا برپا تھے۔
عام آدمی سے لے کر شعرا تک مالی تنگ دستی نے بری طرح جکڑا ہوا تھا۔ ۔ایسے میں
داخلیت کا در آنا اور شاعری میں قنوطیت پیدا ہو جانا قدرتی امر ہے۔ولی دکنی کی
حالات زندگی مختلف تھے ان کے دور یہ حالات نہیں تھے۔ ۔چنانچہ ولی دکنی کے اشعارمیں
کھلی فضا کا احساس ہوتا ہے۔جب حالات موافق ہوں تو نظارے اور حسن کی ادائیں بھی
پسند آتی ہیں۔اسی فضا نے ولی دکنی کی تصانیف میں خارجیت کا رنگ پیدا کردیا۔
ولی دکنی کا تصور محبوب
ولی دکنی کی غزلیات کے مطالعہ سے یہ
بات سامنے ٓآتی ہے کہ ان کا محبوب اردو غزل کا روایتی محبوب نہیں ہے۔وہ بے وفا
اور کج ادا بھی نہیں ہے۔وہ محبت اور شرم و حیا کا پیکر ہے۔ولی اپنے محبوب کو بے
وفا نہیں کہتے نہ ہی وہ روایتی سخن وروں کی طرح اس کی بے وفائی کےقصے چھیڑتے ہیں۔
بلکہ وہ اس کے حسن کے پرستار ہیں اور اشعار میں پیارے بھرے ناموں سے اس کا ذکر
کرتے ہیں ۔وہ کبھی اسے لالن ،کبھی پیتم اور کبھی ساجن کہ کہہ کر بلاتے ہیں۔
ولی دکنی کے کلام میں تشبیہات
تشبیہ اور استعارہ شعرو سخن میں ابلاغ
پیاد کرنے کے ساتھ ساتھ کلام کی خوب صورتی اور اثر آفرینی میں بھی اہم کردا ادا
کرتے ہیں۔ولی کے کلام میں جابجا خوب صورت تشبیہات دیکھنے کو ملتی ہیں۔محبوب کو گھر
میں آنے کو وہ سینے میں راز کے آنے سے تشبیہ دیتے ہیں۔کبھی محبوب کی روشن جبیں
کو وطن کی صبح کہتے ہیں۔وہ داغ دل کو دیدہ سمندرکی مانند قرار دیتے ہیں۔ولی نے جن
عمدہ اور منفرد فارسی تشبیہات سے اپنے کلام کو مرصع کیا ہے اس کی ماضی میں مثال
نہیں ملتی۔
ولی کی زباں ، سادگی اور سلاست
ولی دور اندیش شاعر تھے۔ انہوں کے
گزشتہ شعرا کے کلام سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس وقت کی شاعری میں استعمال ہونے
والی زبان غزل کا ساتھ دینے اور مفاہیہم ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔چنانچہ
انوں نے اظہار کے لیے اپنا الگ راستہ چنا۔ان کی زبان میں فارسی کی تراکیب تفہیم
میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتیں ۔ولی نے اظہار کے لیے سادہ الفاظ چنے اور رواں دواں
بحور سے ترنم کا وہ راستہ چنا جو عوامی مزاج کے مطابق تھا۔اسی سبب ان کے کلام کو
آفاقی مقبولیت اور قبولیت حاصل ہوئی۔
ولی دکنی کی شاعری میں سوز و گداز
عاشقی کھیل نہیں ہے۔محبوب کے وصل کے
لیے کڑی آزمائشوں شے گزرنا پڑتا ہے۔راہ عشق پر خار ہے یہاں محبوب کی بے وفائی کے
علاوہ رمانے کا ظلم و ستم بھی سہنا پڑتا ہے اور اکثر قسمت کا لکھا بھی جھیلنا پڑتا
ہے۔ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ ولی کی شاعری اس اہم رنگ سے خالی ہو۔ان کے ہاں بھی
دکھ درد اور حالات کی سختی کا بیاں ہے لیکن وہ میر تقی میر کی طرح گہرا نہیں ہے۔
ولی کی سراپا نگاری
چوں کہ ولی دکنی ایک حسن پرست شاعر ہے
اور اپنے کلام میں وہ جابجا معشوق کی قصیدہ گوئی کرتا دکھائی دیتا ہے۔چنانچہ اس کی
شاعری میں اس کے محبوب کا ایک واضح پیکر ابھر کر سامنے ااتا ہے۔ایک ایسے حسین کا
سراپا جو کائنات میں خوب صورتی کے لحاظ سے تو بے مثال ہے ہی،اپنے کردار کے حوالے
سے بھی لاجواب ہے۔