Ticker

6/recent/ticker-posts

Bechain Bahut Phirna Munir Niazi ki Ghazal ki Tashreeh | منیر نیازی کی غزل بے چین بہت پھرنا کی تشریح

Bechain Bahut Phirn | Munir Niazi ki Ghazal ki Tashreeh | منیر نیازی کی غزل بے چین بہت پھرنا کی تشریح

منیر نیازی کی غزل بے چین بہت پھرنا کی تشریح

انٹرمیڈیٹ پارٹ ون میں شامل منیر نیازی کی غزل بے چین بہت پھرنا کے اشعار کی امتحانی نکتہ نظر سےتشریح درج ذیل ہے


شعرنمبر1کی تشریح
بے چین| بہت پھرنا| گھبرائے ہوئے| رہنا
اک آگ سی |جذبوں کی| دہکائے| ہوئے رہنا

اہم الفاظ کے معنی:

  • بے چین: مضطرب، سکون سے محروم
  • پھرنا: اِدھر اُدھر گھومنا
  • گھبرائے ہوئے: پریشان حال، اضطراب میں
  • جذبے: احساسات، داخلی کیفیات
  • آگ سی دہکانا: تپش ,جوش پیدا کرنا

مفہوم: شاعر اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کر رہا ہے کہ وہ مسلسل بے چینی اور اضطراب میں گھومتا ہے۔ دل میں جذبوں کی ایک ایسی آگ دہک رہی ہے جو نہ بجھتی ہے اور نہ اسے آرام کرنے دیتی ہے۔ یہ کیفیت محبت یا کسی گہرے دکھ کا نتیجہ ہے جو مسلسل اسے بے قرار رکھتی ہے۔

 

تشریح :۔

منیر نیازی کے اس شعر میں عاشق کی داخلی اضطرابی کیفیت کو بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ ہر وقت بے چین اور پریشان گھومتا رہتا ہے جیسے کچھ کھو گیا ہو یا دل میں کوئی کمی ہو۔ اس کا اضطراب وقتی نہیں بلکہ ایک مستقل کیفیت ہے۔

شاعر کے دل میں ایک ایسی آگ دہک رہی ہے جو جذبوں کی ہے، یعنی محبت، غم یا کسی محرومی کا شدید احساس اسے اندر سے جلا رہا ہے۔ یہ آگ وقتی جذبات کا شعلہ نہیں بلکہ ایک مسلسل تپش ہے جو شاعر کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔

یہ کیفیت صرف محبت میں مبتلا افراد کو سمجھ آتی ہے جن کے لیے نہ سکون رات کا ہوتا ہے، نہ دن کا۔ ان کے جذبات ایک ایسی آگ کی مانند ہوتے ہیں جو اندر ہی اندر انہیں جلاتے رہتے ہیں۔

یہی کیفیت  کسی شاعر کے اس شعر میں بھی ملتی ہے:

دل لگایا تھا| دل دلگی| کے لیے

بن گیا روگ| زندگی| کے لیے

یہ شعر بھی اسی جذبۂ عشق کی تپش اور بے قراری کا مظہر ہے۔

منیر نیازی نے انسانی نفسیات، خصوصاً محبت کرنے والوں کی پیچیدہ اور شدید کیفیات کو بڑی سادگی مگر گہرائی سے بیان کیا ہے۔

 

شعرنمبر2
چھلکائے| ہوئے |چلنا خوشبو| لب لعلیں |کی
اک |باغ سا| ساتھ اپنے| مہکائے| ہوئے |رہنا

 

اہم الفاظ کے معنی:

  • چھلکائے ہوئے چلنا: خوشبو کا اردگرد پھیلانا، مسلسل مہکنا
  • لب لعلیں: یاقوت جیسے سرخ اور حسین ہونٹ
  • باغ سا: باغ کی مانند، خوبصورت و معطر ماحول
  • مہکائے ہوئے: خوشبو پھیلائے ہوئے

 

مفہوم :شاعر محبوب کی شخصیت کا دلکش اور پراثر انداز بیان کرتا ہے۔ اس کے ہونٹوں کی خوشبو فضا میں یوں پھیلتی ہے جیسے کوئی خوشبودار باغ ہمراہ ہو۔ محبوب کی موجودگی ماحول کو مہکا دیتی ہے اور اس کی شخصیت سراسر حسن و کشش سے معمور ہے۔

 

تشریح :۔

منیر نیازی کا یہ شعر حسنِ محبوب کی دلآویزی اور اس کے اثرات پر مبنی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب چلتا ہے تو اس کے ہونٹوں کی خوشبو یوں فضا میں بکھرتی ہے جیسے کوئی خوشبوؤں کا پیالہ چھلک رہا ہو۔ یہ خوشبو صرف ظاہری نہیں بلکہ ایک کیفیت ہے جو آس پاس کے ماحول کو مہکا دیتی ہے۔

محبوب کے لب لعلیں یعنی یاقوت جیسے سرخ اور چمکدار ہونٹ، نہ صرف دیدہ زیب ہیں بلکہ ان سے نکلنے والی خوشبو اتنی پرکشش ہے کہ پورا وجود خوشبو کا پیکر لگتا ہے۔

شاعر اس حسن و تاثیر کو باغ سے تشبیہ دیتا ہے۔ باغ جہاں رنگ، خوشبو، طراوت اور زندگی کا مجموعہ ہوتا ہے، ویسا ہی محبوب خود بن گیا ہے—جو جہاں جاتا ہے، وہاں زندگی، رنگینی اور مہک پھیلا دیتا ہے۔

یہاں شاعر حسن کو محض ظاہری جمال نہیں بلکہ ماحول پر اثر انداز ہونے والی ایک روحانی کیفیت قرار دیتا ہے۔ اس کیفیت میں محبوب کی موجودگی سراسر لطف و سرور کی علامت ہے۔

انشااللہ خاں انشا نے بھی محبوب کے حسن کو باغ جیسا کہاتھا

دیکھ کر| اپنی پھبن اس نے یہ| انشا سے کہا

باغ میں کب ہے| چمن جو ہے چمن آئینے میں

یہاں بھی محبوب کی آمد یا موجودگی ایک ایسی کیفیت ہے جو ماحول کو بدل دیتی ہے۔

منیر نیازی کے ہاں محبوب سراپا حسن ہے، مگر یہ حسن خاموش نہیں بلکہ متحرک ہے، جس کے قدموں کے ساتھ خوشبو رواں دواں رہتی ہے۔

 

تشبیہ: اک باغ سا" — محبوب کے وجود کو باغ سے تشبیہ دی گئی ہے۔

 

شعرنمبر3

اس حسن کا |شیوہ ہے جب| عشق نظر آئے

پردے میں چلے|جانا شرمائے| ہوئے رہنا

 

اہم الفاظ کے معنی:

  • حسن: خوبصورتی، محبوب کی دلکشی
  • شیوہ: عادت، طریقہ
  • عشق: سچی اور گہری محبت
  • پردے میں چلے جانا: خود کو چھپا لینا، نظروں سے اوجھل ہونا
  • شرمائے ہوئے: حیا میں ڈوبا ہوا، شرمندگی اور حجاب کا اظہار

 

مفہوم :شاعر کہتا ہے کہ حسن کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ جب عشق اس کے سامنے آ جائے تو وہ شرما کر خود کو چھپا لیتا ہے۔ گویا حسن کا اصل جمال اسی حجاب اور شرم میں ہے۔ محبوب عشق کا سامنا کرنے سے جھجکتا ہے اور اپنی نظروں میں حیا سمو لیتا ہے۔

 

تشریح :۔

منیر نیازی کا یہ شعر محبوب کے کردار میں پائی جانے والی شرم و حیا کو اُجاگر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ حسن کا فطری انداز یہ ہے کہ وہ اپنے جلوے کو عام نہیں کرتا۔ جب کوئی عاشق اس کے سامنے آتا ہے، تو وہ حسن خود کو پردے میں چھپا لیتا ہے۔

یہ شعر دراصل مشرقی روایت میں حسن اور عشق کے تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں محبوب بے پردہ نہیں، بلکہ اس کی معراج اسی میں ہے کہ وہ عشق کی موجودگی میں جھک جائے، شرما جائے، اور اپنی جھلک کو محدود کر دے۔

محبوب کی یہ ادا کہ وہ عشق کے سامنے آنے پر نظریں جھکا لیتا ہے، خود حسن کی معراج بن جاتی ہے۔ یہ شرم، یہ حجاب، حسن کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے۔

اس مضمون کو شاعر مصحفی نے کچھ یوں ادا کیا تھا:

دیکھ| کر| ہم کو |نہ پردے |میں |تو| چھپ| جایا کر

ہم تو| اپنے ہیں| میاں غیر سے |شرمایا |کر

یہ شعر بھی محبوب کی حیا اور پردے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ حقیقی حسن وہی ہے جو سادگی، شرم اور دلکشی کے ساتھ ہو۔ شاعر یہاں فقط خوبصورتی کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ ایک مہذب، باوقار اور روحانی حسن کی بات کر رہا ہے۔

منیر نیازی کا انداز بیان بہت لطیف ہے۔ وہ حسن کے ساتھ ایک تہذیبی اور اخلاقی خوبصورتی بھی جوڑتے ہیں، جو صرف جسمانی نہ ہو بلکہ جذباتی اور روحانی بھی ہو۔اس شعر میں صنعت تضاد پائی جاتی ہے۔

حسن کا جلوہ اور پردہ دونوں متضاد کیفیات ہیں، مگر شاعر نے ان کو ایک ساتھ بیان کیا ہے۔

شعرنمبر4
اک| شام |سی| کر| رکھنا| کاجل |کے |کرشمے |سے
اک |چاند| سا ؔآنکھوں |میں| چمکائے |ہوئے رہنا

 

اہم الفاظ کے معنی:

  • شام: دن کے اختتام کا وقت، یہاں مراد نرم و نازک پرکیف کیفیت
  • کاجل: آنکھوں کا سجاوٹی سرمہ
  • کرشمہ: جادو، تاثیر
  • چاند سا: چاند کی مانند، خوبصورت اور روشن
  • چمکائے ہوئے: چمک دار، روشن کیے ہوئے

مفہوم : شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی آنکھوں میں کاجل کی دلکشی سے ایسی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جیسے شام کا پرسکون منظر۔ ان آنکھوں کی چمک ایسی ہے جیسے کوئی چاند آنکھوں میں بس گیا ہو۔ یہ خوبصورتی دیکھنے والے پر سحر طاری کر دیتی ہے۔

 

تشریح :۔

منیر نیازی کا یہ شعر محبوب کی آنکھوں کے حسن اور اس کی دلکشی کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعر محبوب کی آنکھوں کو ایسے بیان کرتا ہے جیسے شام کی پرکیف گھڑی، جو اپنے اندر سکون، خاموشی اور دلکشی سموئے ہوتی ہے۔ یہ شام کا منظر کاجل کی وجہ سے آنکھوں میں بس گیا ہے۔ شاعر نے آنکھوں میں چمکتے ہوئے حسن کو چاند سے تشبیہ دی ہے، جو روشن بھی ہے، دلکش بھی، اور دور سے بھی اپنی چمک دکھا سکتا ہے۔ محبوب کی آنکھوں کی یہ چمک کسی سحر سے کم نہیں۔

یہ کیفیت صرف جسمانی حسن کی نہیں بلکہ جذباتی کشش کی بھی ہے۔ جیسے شام کا وقت انسان کو ٹھہر جانے پر مجبور کرتا ہے، ویسے ہی محبوب کی یہ آنکھیں دیکھنے والے کو جکڑ لیتی ہیں۔

منیر نیازی کا یہ شعر رومانی شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ وہ جمالیات کو ایسے الفاظ میں سمو دیتے ہیں جو منظر کشی بھی کرتے ہیں اور جذبات کو بھی بیان کرتے ہیں۔

اسی مضمون کو کسی شاعر  نے یوں ادا کیا تھا:

وہ چاند چہرہ |ستارہ آنکھیں

وہ مہرباں| سایہ دار زلفیں

یہ شعر بھی آنکھوں کی چمک کو دن اور شام جیسے مناظر سے جوڑتا ہے۔ اس طرح آنکھیں صرف جسمانی عضو نہیں بلکہ ایک پر اثر کیفیت کی علامت بن جاتی ہیں۔

آخری شعر

عادت ہی| بنالی ہے |تم نے تو| منیر اپنی

جس شہر |میں رہنا| اکتائے ہوئے |رہنا

اہم الفاظ کے معنی:

اکتانا:بیزار رہنا

عادت؛مستقل رویہ

مفہوم :شاعر کہتا ہے کہ اسے بے زاری اور اکتاہٹ اس قدر لاحق ہو چکی ہے کہ یہ اس کی فطرت بن گئی ہے۔ جہاں بھی جاتا ہے، جلد ہی اس جگہ سے دل اُچاٹ ہو جاتا ہے۔ اب یہ کیفیت اس کی پہچان بن چکی ہے۔

تشریح :۔

یہ شعر منیر نیازی کے منفرد مزاج اور ان کی داخلی کیفیت کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ شاعر اپنی طبیعت میں موجود ایک ایسی کیفیت کا اظہار کرتا ہے جو ہر حال میں بے چینی اور بے قراری کی صورت اختیار کیے رکھتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب وہ جہاں بھی جاتا ہے، کسی بھی ماحول یا جگہ میں زیادہ دیر تک خوش نہیں رہ پاتا۔

شاعر کے اندر کی بے چینی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسے ہر مقام، ہر شہر، اور ہر تعلق سے بیزاری محسوس ہوتی ہے۔ ایک مستقل ناپسندیدگی اور عدم اطمینان اس کی شخصیت کا جزو بن چکی ہے۔ منیر نیازی کی شاعری میں اکثر یہی تنہائی، اجنبیت، اور اندرونی اضطراب جھلکتا ہے۔

یہ اکتاہٹ دراصل کسی خاص مقام یا افراد کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی خود اپنی ذات کے اندر چھپی ایک کیفیت ہے۔ انسان جب اپنے دل میں سکون نہ پائے تو دنیا کا کوئی بھی حسن اُسے تسلی نہیں دے سکتا۔

شاعر کے اس رویے کو بعض نقاد "روایتی رومانویت کا ٹوٹنا" بھی کہتے ہیں جہاں شاعر خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی تلخیوں میں آ چکا ہے۔ اس شعر میں ایک داخلی خلش بھی محسوس ہوتی ہے، جیسے منیر اپنے آپ سے بھی ناراض ہیں۔

اسی کیفیت کو بیان کرتا ہوا ندا فاضلی کا  ایک شعر ملاحظہ ہو:

کچھ لوگ |یوں ہی شہر| میں ہم سے| بھی| خفا ہیں

ہر ایک سے| اپنی بھی |طبیعت| نہیں ملتی

یہ شعر بھی اسی طرح کی بے دلی اور داخلی بیزاری کی عکاسی کرتا ہے جیسا کہ منیر نیازی کے مذکورہ شعر میں ہے۔

پروفیسر اشفاق شاہین پنجاب کالج گجرات(شعبہ اردو)

 

Bechain Bahut Phirna Munir Niazi ki Ghazal ki Tashreeh | منیر نیازی کی غزل بے چین بہت پھرنا کی تشریح

 

Bechain Bahut Phirna – Munir Niazi ki Mashhoor Ghazal ki Tashreeh | منیر نیازی کی غزل بے چین بہت پھرنا کی تشریح