فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات-فورٹ ولیم کالج کاقیام |
فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات-فورٹ ولیم کالج کا قیام
فورٹ ولیم کالج کا ہندوستان
میں قیام اورادبی خدمات اردو کے حوالے سےاہم کردار کی حامل ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کی
نثری داستانیں آج بھی ادب کے قارئین کے لیے دلچسپی کی حامل ہیں ۔اگر چہ کالج کا
مقصد ہندوستان میں ملازمت کے لیے آئے ہوئے انگریزوں کو زباں سکھانا تھا تا کہ وہ
مقامی لوگوں سے رابطہ رکھ سکیں نیز ان کے طرز معاشرت سے آگاہی حاصل کرپائیں۔اس
مقصد کے لیے انہوں نے کالج میں نثر نگاروں کی خدمات حاصل کیں۔جنہوں نے اردوزباں کو
قصوں کہانیوں کے بیش قیمت خزانے سے بھر دیا۔اردو میں ایسی ترقی کی مثال اس سے پہلے
نہیں ملتی۔
فورٹ ولیم کالج کا قیام
فورٹ ولیم کالج کی ابتدا کی
کہانی ڈاکٹرعبیدہ بیگم کے بقول یوں ہے
زبان اور نظام سلطنت اور ان
تمام پہلووں پر غور کرنے کے پس پشت کئی مقاصد تھے اس پر زور دینے کی مختلف وجوہات
تھیں۔1798 میں برٹش اقتدار کے بڑھتے قدم دیکھ کر ویزلی نے محسوس کر لیا تھا کہ
ایسٹ انڈیا کمپنی ایک ادارہ ہی نہیں بل کہ اس میں حکمرانی کی طاقت آتی جارہی ہے۔
جب لارڈ وزلی ہندوستان کے
گورنر کی حیثیت سے یہاں آئے تو انہون نے محسوس کیا کہ جو انگریز انگلستاں سے
ملازمت کے سلسلہ میں انڈیا آتے ہیں ۔وہ تبھی بہتر طور پر خدمات انجام دے سکتے ہیں
کہ انہیں مقامی زبانوں پر عبور حاصل ہو۔کیوں کہ نظام کو بہتر طور پا چلانے کے لیے
مقامی لوگوں سے رابطہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اس حوالہ سے نئے آنے والوں کی
کاردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت اردو ہندوستان میں ایک اہم زبان کی حیثیت
اختیار کرچکی تھی اور رابطہ کی اہم زبان کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔چناچہ یہ طے
پایا کہ ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو یہاں آنے والے انگزیزوں کو اردو سکھانے کی
خدمات انجام دے۔یہ ۱۷۹۸ کی بات ہے۔اگر چہ اس سے پہلے بھی یہاں تعینات افسروں کو یہ
حکم تھا کہ وہ اردو سے واقفیت حاصل کریں اور انہیں اردو سیکھنے کے لیے انہیں الاونس
بھی دیا جاتا تھا۔ اس کے باوجود قابل ذکر کارکردگی سامنے نہیں آئی تھی۔لارڈوزلی
نے حکومت کو کالج کے قیام کا مشورہ دیا تاکہ تعلیم کا باضابطہ آغاز ہو سکے۔اس تجویز
کی انگلستان کی بڑی بڑی شخصیات نے تائید و حمایت کی۔یوں کالج کے قیام کا کا عملی
آغاز ہوا۔اس وقت ہندوستان میں موجود ایک انگیز افیسر جان گل کرسٹ جو کہ مختلف
مقامی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے اپنی خدمات پیش کیں۔
فورٹ ولیم کالج کا آغاز
انگلستان حکومت کی منظوری
کے بعد سن1800 کو کالج کے قیام کا اعلان ہوا۔اس کے روح رواں ڈاکٹر گلکرسٹ تھے۔اگر
چہ کالج کی بنیاد اردو کی ترقی کی نیت سے نہیں رکھی گئی تھی مگر اس ادارے نے ایسی
خدمات انجام دیں جو تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی گئیں۔ڈاکٹر گلکرسٹ نے کالج کے
لیے نہ صرف ادیب ملازم رکھے بل کہ خود بھی کئی کتابیں تحریر کیں۔چوں کہ کالج کے مد
نظر دو ہی امور تھے ایک تو انگلستان سے آئے ہوئے انگریزوں کو اردو سکھانا اور دوسراان
کو ہندوستان کی تہذیب و معاشرت سے آگاہ کرنا چنانچہ فارسی اور ہندی کی ایسی
داستانوں کا ترجمہ کرنے کا آغاز ہوا جو کہ عوام میں پہلے سے مقبول تھیں یا اردو
جاننے والوں نے ان کا تذکرہ کسی طور سن رکھا تھا۔اور جو اپنے معیار کے حوالے سے
خاص مقام کی حامل تھیں۔کالج کے قوانین کے مطابق ادارے کے منتظم کو پرووسٹ کا نام
دیاگیا۔
لارڈ ویزلی نے فورٹ کالج کا نصاب تعلیم ترتیب دیا
لارڈ ویزلی نے کالج کے لیے
جو نصاب ترتیب دیا وہ اس ادارے کے مقاصد کا ترجمان تھا اور اس بات کی شہادت تھا کہ
یہ درسگاہ دورس اثرات کی حامل ہوگی۔یہ کالج ایک پرنسپل اور چھ اساتذہ کے ساتھ شرووع
ہوا۔یہاں عربی،ہندی،فارسی اور مقامی ادب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ویزلی نے لکھاتھا کہ
فورٹ ولیم کالج کے قیام سے
ہندو کالج اور کلکتہ مدرسہ جیسی تعلیم گاہیں نہ صرف دوبارہ زندہ ہوجائیں گی بلکہ
قانون اور تعلیم کے ساتھ ہندوستاں میں رواج پانے والی غلط رسوم کی بھی درستی عمل
میں آئے گی۔(weliesleys Minute College
For William in Bangal page.38
ڈاکٹر عبیدہ بیگم اپنی کتاب
میں لکھتی ہیں کہ مختلف شعبوں میں 24نومبر1800کو جب لیکچر کا آغاز ہوا اس وقت تک
اساتذہ کے عہدوں کا تعین بھی عمل میں آچکا تھا۔شعبہ ہندوستان کا اولین پروفیسر
ڈاکٹر جان بورٹھوک گلکرسٹ تھا ان کا تقرر 1800کا عمل میں آیا۔(فورٹ ولیم کالج کی
ادبی خدمات صفحہ56)
فورٹ ولیم کالج کی نثری داستانیں
کالج میں مختلف زبانوں کے
قصے کہانیوں کا ترجمہ کرنے کی غرض سے کئی ایک شعبے بنائے گئے۔اور ان کے لیے الگ
الگ ترجمہ نگاراور نثر نگار رکھے گئے۔یوں ہندوستاں میں موجود اعلی درجے کے
لکھاریوں کی بڑی تعداد فورٹ ولیم کالج سے منسلک ہوگئی۔فورٹ ولیم کالج میں
عربی،سنسکرت،مرہٹی،فارسی اور دیگر زباں کے الگ الگ شعبے بنائے گئئے۔تاہم ساتھ ساتھ
جدید تعلیم کا بھی اہتمام تھا۔کالج میں اساتذہ کے لیے ابتدائی طور پر ویزلی نے
اپنے دوست اور بورڈ آف کنٹرول کے چئیرمیں ہنری ڈنڈاس کو خط میں کہا کہ وہ کچھ
اساتذہ مقرر کرکے فورٹ ولیم کالج روانہ کردیں تاکہ ابتدائی طور پر کام کا آغاز
کیا جاسکے۔کالج میں نصاب کے لیے کتب تیار کرنے کا مرحلہ بہت مشکل تھا ۔کالج میں
ابتدئی طور پر درجن بھی منشی ملازم رکھے گئے بعد میں ان کی تعداد میں مزید اضافہ
کر دیا گیا۔فورٹ ولیم کالج کی اکثر کتب ہندی،فارسی اور سنسکرت سے اردو یں منتقل کی
گئی ہیں۔اس کالج کے قیام کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مختلف زبانوں کے ادیبوں کو
روزگار میسر آگیا۔ڈاکٹر گل کرسٹ مصنفین کی اس طرح حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ ان کا
چرچا دوردور تک پھیل گیا اور کئی ملکوں سے ادیب ملازمت کی خاطر فورٹ ولیم کالج کا
رخ کرنے لگے۔یوں یہ کالج ہندوستان میں علم و ادب کا ایک بڑامرکز بن گیا۔جن منشیوں
،ادیبوں یا ترجمہ نگاروں نے فورٹ ولیم کالج میں خدمات انجام دیں اور فورٹ ولیم کالج کے لیے نثری داستانیں لکھیں ان میں خاص طور پر
حیدر بخش حیدری،میر امن دہلوی اور میر شیر علی افسوس شام ہیں۔ ان کے علاوہ قابل
قدر مصنفین میں ڈاکڑ گلکرسٹ،میر بہادرعلی حسینی،بینی نارائن،خلیل خاں اشک،نہال چند
لاہوری،مطہر علی ،مرزا کاظم علی جواں،میر معین الدین،مرزافطرت مرزا جاں تپش،شیخ
حفیظ الدین،مولوی اکرام علی،مرزاعلی لطف شامل ہیں۔
فورٹ ولیم کالج کے مقاصد
اردو کی ترقی اور ہندوستانی معاشرت کی جلھکیاں محفوظ کرنا تو نہ تھے مگریہ نثر کی
ترقی کے حوالے سے ایک تحریک ثابت ہوا۔یہاں تخلیق کی گئی نثری داستانیں معیار قرار پائیں۔فورٹ
ولیم کالج کے مصنفین کا انداز تحریر،کہانی بیان کرنے اور زبان کی صفائی میں وہ تمام
خوبیاں رکھتے تھے جو ایک بڑے ادیب کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ان قصوں نے نہ صرف اردو
قصہ گوئی کی ایک زبان اور اسلوب متعین کردیا بک کہ ان کہانیوں میں اس دور کے طرز
معاشرت کی جھلکیاں بھی محفوظ ہوگئیں۔فورٹ ولیم کالج میں کیے جانے والے مخلتف
زبانوں کے تراجم اس دور میں ادبی رجحانات کا پتہ دیتے ہیں۔ان قصوں میں چوں کہ کوئی
نہ کوئی سبق موجود ہوتا تھا یوں معاشرے میں اچھی اقدار کے فروغ میں بھی ان تراجم
نے کردار اداکیا۔فورٹ ولیم کالج کی ابتدا سے قبل اردو میں نثر کا ذخیرہ نہ ہونے کے
برابر تھا۔ اردو میں اس سے پہلے شاعری پر خاص توجہ دی جاتی تھی اردو کی ابتدا سے
فورٹ ولیم کالج کے قیام تک شاعروں کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے۔بادشاہوں کے
درباروں میں بھی زیادہ تر شعرا کا تذکرہ ہی ملتا ہے۔یوں فورٹ ولیم کالج نے نثر کی
رجحان سازی کی اور ادب میں نثر کے مذاق کو فروغ دیا۔
فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات
فورٹ ولیم کالج کی خدمات سے
قبل اردو نثر نگاری تکلفات کی قید میں تھی۔مصنف تحریر کو خوب صورت بنانے اور
دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے مشکل اور نامانوس الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کرلاتا تھا یوں
کسی بھی عبارت میں زبان قصے کی تفہیم میں رکاوٹ بن جاتی تھی۔فورٹ ولیم کالج نے
آسان نثر کو رواج دیا۔ترجمہ نگاروں نے زباں کو عام فہم رکھنے کو ترجیح دی تاکہ
اردو سیکھنے والوں کو دقت کاسامنا نہ کرنا پڑے۔کالج میں تراجم سے پہلے اردو زباں
کا دائرہ بہت محدود تھا اسے عام طور پر وعظ و نصیحت کے لیے استعمال کیا
جاتاتھا۔فورٹ ولیم کاج کی نثر نے اردو کے خزانے میں مقامی زبانوں کے ایسے الفاظ کا
اضافہ کیا جو چاشنی کے حوالے سے اردو ہی کے محسوس ہوتے ہیں۔
فورٹ ولیم کالج کا ہرداستاں
نگار اپنے اسلوب کے لحاظ سے اپنی جدا شناخت کا حامل ہے۔ اوراس کاترجمہ اپنے آپ
میں ایک مکمل تخلیق کی حیثیت کا حامل ہے۔
فورٹ ولیم کالج کا قیام ادردو نثر کے لیے یادگار ثابت ہوا۔کالج نے نہ صرف
اردو نثر نگاری کو ایک نئی راہ دہ بل کہ اردو ادب کو لازوال داستانوں کے ذخیرہ سے
بھی مالامال کردیا۔جن میں آرائش محفل،باغ و بہار ،بیتال پچیسی قصہ گل بکائولی آج
بھی اردو ادب کے قاری کی دلچسپی کا باعث ہیں۔