Ticker

6/recent/ticker-posts

Hafiz Taib ki nazm Kis ka nizam rah numa hai ufaq ufaq ki tashreeh کس کا نظام راہ نما ہے افق افق حمد کی تشریح

 

Hafiz Taib ki nazm Kis ka nizam raahuma ki tashreeh  کس کا نظام راہ نما ہے افق افق حمد کی تشریح

حفیظ تائب کی حمد کس کا نظام راہ نما ہے افق افق کی تشریح

شعر نمبر1


کس کا۔۔ نظام۔۔ راہ نما۔۔۔ ہے۔۔ اُفق اُفق
کس کا۔۔ دوام ۔۔گونج۔۔ رہا ہے۔۔ اُفق اُفق

اہم الفاظ کے معنی:

  • نظام: ترتیب، بندوبست
  • راہ نما: راستہ دکھانے والا، رہبر
  • افق: آسمان و زمین کے درمیان کا کنارہ
  • دوام: پائیداری، ہمیشگی
  • گونج: بازگشت، آواز کا دور تک پھیلنا

 

مفہوم :اس شعر میں شاعر قدرت کے پھیلے ہوئے نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ یہ پورے افق پر پھیلا ہوا منظم نظام کس کا ہے؟ کون ہے جس کی قدرت کی آواز اور موجودگی ہر سمت گونج رہی ہے؟ شاعر اس سوال کے ذریعے اللہ کی عظمت کا اظہار کرتا ہے۔

تشریح

یہ شعر حفیظ تائب کی ایک خوبصورت حمد کا حصہ ہے، جس میں وہ کائنات کی وسعتوں میں اللہ کی نشانیاں تلاش کرتے ہیں۔ شاعر تعجب اور حیرت کے انداز میں سوال کرتا ہے کہ یہ سارا نظام، جو ہر سمت میں موجود ہے، کس کا ہے؟ یہ جو افق افق پر ایک ترتیب، ایک تنظیم نظر آتی ہے، وہ کس کی ہے؟ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

پھر شاعر کہتا ہے کہ صرف نظام ہی نہیں بلکہ ہر طرف اس ذات کا دوام، اس کی موجودگی اور قدرت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہ گونج صرف سننے کی نہیں، بلکہ محسوس کرنے کی چیز ہے جو کائنات کے ذرے ذرے میں پائی جاتی ہے۔

یہ شعر دراصل اللہ کی وحدانیت، قدرت اور ابدی موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاعر کسی مخصوص مذہبی فلسفے کے بجائے قدرتی مناظر اور کائناتی مظاہر کے ذریعے توحید کی دلیل پیش کرتا ہے۔

 شعربھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ اللہ کی قدرت ہر جگہ ظاہر ہے، چاہے وہ چھوٹے ذرے ہوں یا وسیع صحرا۔ اسی طرح حفیظ تائب نے بھی افق افق پر اللہ کی موجودگی اور گونج کو بیان کیا ہے۔

 

دوسراشعر

شانِ جلال۔۔ کس کی ۔۔عیاں ہے۔۔۔ جبل۔۔ جبل
رنگِ جمال۔۔۔ کس کا۔۔۔ جما ہے۔۔۔ اُفق ۔۔اُفق

اہم الفاظ کے معانی:

  • شان: عظمت، بزرگی، وقار
  • عیاں: ظاہر، نمایاں
  • جبل: پہاڑ
  • رنگِ جمال: خوبصورتی کا رنگ، حسن کی جھلک
  • افق: آسمان و زمین کے سنگم کی حد
  • جما: چھا جانا، ٹھہر جانا، نمایاں ہونا

 

مفہوم :شاعر حیرت اور عقیدت کے ساتھ سوال کرتا ہے کہ ہر پہاڑ میں جو عظمت اور جلال نمایاں ہے، وہ کس کی شان ہے؟ اور جو حسن اور جمال آسمان کی وسعتوں پر چھایا ہوا ہے، وہ کس کا ہے؟ دراصل یہ کائنات اللہ کی قدرت، حسن اور شان کا مظہر ہے۔

 

تشریح

اس شعر میں حفیظ تائب نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات کو دیکھ کر اُس کی قدرت اور جمال کی تعریف کی ہے۔ وہ سوالیہ انداز میں کہتے ہیں کہ:

پہاڑوں کی بلندی، سختی اور جلال کو دیکھو — اس میں جو شان اور عظمت چھپی ہوئی ہے، وہ آخر کس کی ہے؟ کون ہے جو اتنی پُرشوکت اور پرجلال چیزیں تخلیق کر سکتا ہے؟

پھر شاعر آسمان کی وسعتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے — وہ آسمان جو سورج، چاند، ستاروں اور بادلوں سے سجا ہوا ہے — اس میں جو حسن اور جمال بکھرا ہوا ہے، وہ کس کا ہے؟ وہ رنگ، وہ روشنی، وہ نرمی — سب کس کے جمال کا اظہار ہے؟

شاعر کا مقصد دراصل یہ ہے کہ وہ کائنات کے مختلف مظاہر کے ذریعے قاری کو اللہ کی طرف متوجہ کرے، کہ یہ سب اسی خالقِ کائنات کی نشانیاں ہیں۔

 

 

تیسراشعر:


کس کے۔۔۔ لیے۔۔۔ نجوم بکف۔۔۔ ہے۔۔۔ روش روش
بابِ شہود۔۔۔ کس کا۔۔۔ کُھلا ہے۔۔۔ اُفق۔۔ اُفق

اہم الفاظ کے معنی:

  • نجوم: ستارے
  • بکف: ہاتھ میں لیے ہوئے، حاضر
  • روش روش: ہر جگہ، ہر راہ
  • بابِ شہود: مشاہدے کا دروازہ، حقیقت کو جاننے اور دیکھنے کا ذریعہ
  • افق افق: ہر سمت، ہر آسمانی کنارے

مفہوم :شاعر کہتا ہے کہ یہ ستارے جو ہر سمت جگمگا رہے ہیں، آخر کس کی قدرت کے تابع ہیں؟ اور یہ جو ہر افق پر حقیقت اور جلوہ نظر آ رہا ہے، یہ مشاہدے کے در کھولنے والا کون ہے؟ شاعر دراصل اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا اظہار کر رہا ہے کہ ساری کائنات اسی کی گواہی دے رہی ہے۔

تشریح

یہ شعر حفیظ تائب کی خدا شناسی اور کائناتی مشاہدے کی شاعری کا عمدہ نمونہ ہے۔
شاعر ستاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ستارے جنہیں ہم ہر جگہ روشن پاتے ہیں، جیسے وہ کسی کے حکم پر ہاتھ باندھے حاضر کھڑے ہیں — یہ سب کس کے لیے ہے؟

یہ سوال بظاہر قاری سے کیا جا رہا ہے، لیکن اس کا جواب پوشیدہ ہے: یہ سب اللہ کے حکم اور اس کی قدرت کا مظہر ہے۔ شاعر کائنات کے راز افشاں ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ "بابِ شہود" سے مراد وہ دروازہ ہے جو حقیقت و معرفت کی طرف کھلتا ہے، اور وہ ہر افق پر کھلا ہوا نظر آ رہا ہے — یہ بھی دراصل خالقِ حقیقی کا احسان اور اس کی قدرت کی علامت ہے۔

یہ شعر قاری کے اندر ایک روحانی تحریک پیدا کرتا ہے کہ وہ کائنات کو محض مادی آنکھ سے نہ دیکھے، بلکہ اس میں موجود الوہیت کو پہچانے۔

 

 

چوتھا شعر

کس کے۔۔۔۔ لیے۔۔۔ سرودِ صبا۔۔۔ ہے ۔۔چمن۔۔۔۔ چمن
کس کے۔۔۔ لیے۔۔۔ نمودِ ضیا۔۔۔ ہے۔۔ اُفق۔۔۔ اُفق

اہم الفاظ کے معانی:

لفظ

معنی

سرودِ صبا

ہوا کی نغمہ سرائی، خوشبو دار ہوا کی موسیقی

چمن چمن

ہر باغ، ہر گلستان

نمودِ ضیا

روشنی کا ظہور، نور کی جھلک

افق افق

ہر سمت، ہر کنارہ

مفہوم :شاعر کہتا ہے کہ پوری کائنات میں جو بہار کی ہوا چلتی ہے، وہ کس کے لیے نغمہ بن کر گاتی ہے؟ اور ہر سمت جو روشنی چمک رہی ہے، وہ کس کے نور کا جلوہ ہے؟ یہ سب نشانیاں ایک ہی ذاتِ باری تعالیٰ کی موجودگی اور عظمت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

 تشریح

یہ شعر حفیظ تائب کی حمدیہ شاعری سے لیا گیا ہے، جس میں وہ کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور جمال کو تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔

شاعر "سرودِ صبا" کا ذکر کرتا ہے جو ایک استعاراتی انداز میں ہوا کی موسیقی کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ ہوا جو چمن چمن خوشبو بکھیرتی ہے، ہر درخت، ہر پتے، ہر پھول کو چھو کر نغمہ بن جاتی ہے—یہ سب کس کے لیے ہے؟ اس سوال کے ذریعے شاعر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ ساری کائنات کسی عظیم ہستی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

شاعر "نمودِ ضیا" یعنی روشنی کے ظہور کی بات کرتا ہے، جو ہر افق، ہر کنارے پر موجود ہے۔ وہ پوچھتا ہے کہ یہ چمک، یہ نور، جو ہر طرف بکھرا ہوا ہے، کس کے لیے ہے؟ اس کا جواب بظاہر سوالیہ ہے لیکن حقیقتاً اس سوال میں ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اعلان موجود ہے۔

 

پانچواں شعر

مکتوم۔۔۔ کس کی۔۔۔ موجِ کرم ۔۔۔۔ہے۔۔ صدف۔۔ صدف
مرقوم۔۔۔ کس کا۔۔۔۔ حرفِ وفا۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔ اُفق اُفق

اہم الفاظ کے معانی:

لفظ

معنی

مکتوم

چھپا ہوا، پوشیدہ

موجِ کرم

مہربانی کی لہر، بخشش و عطا کی روانی

صدف

موتی پیدا کرنے والا خول، یہاں ہر دل یا مقام

مرقوم

لکھا ہوا

حرفِ وفا

محبت و خلوص کا پیغام

افق افق

ہر سمت، ہر کنارے

 

 

مفہوم :شاعر پوچھتا ہے کہ ہر صدف (دل، وجود یا مخلوق) میں جو مہربانی کی چھپی ہوئی لہر ہے، وہ کس کی عطا ہے؟ اور جو وفا کا پیغام کائنات کے کونے کونے میں نقش ہے، وہ کس کی تحریر ہے؟ ان سوالوں میں اللہ تعالیٰ کی موجودگی اور اس کے رحم و کرم کا بیان ہے۔

تشریح

حفیظ تائب کے اس شعر میں حمدیہ رنگ میں خدا تعالیٰ کی صفات کا بیان موجود ہے۔ شاعر سوالیہ انداز اختیار کرتا ہے، جس سے کلام میں تجسس اور فکر پیدا ہوتی ہے۔

"مکتوم کس کی موجِ کرم ہے صدف صدف" سے مراد ہے کہ ہر سیب (جو موتی کو اپنے اندر چھپائے ہوتا ہے، اور یہاں بطور استعارہ ہر دل، ہر مخلوق، ہر گوشہ مراد لیا جا سکتا ہے) میں جو عطا و کرم کی لہر چھپی ہے، وہ کس کی مہربانی ہے؟ شاعر اصل میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہر مخلوق کے باطن میں جو نرمی، شفقت، اور فیض موجود ہے، وہ اللہ کے کرم کا نتیجہ ہے۔

 شاعر پوچھتا ہے کہ افق افق یعنی ہر سمت میں جو وفا کی تحریر لکھی ہوئی نظر آتی ہے، وہ کس نے لکھی؟ یہ وفا کی علامتیں جیسے روشنی، امن، خوبصورتی، ان سب کا خالق کون ہے؟ ظاہر ہے، جواب ہے: اللہ تعالیٰ۔

یہ شعر بھی اسی بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہر شے کے پیچھے اللہ کی تحریر، حکمت اور قدرت کارفرما ہے۔

 

چھٹے شعر کی تشریح

کس کی۔۔۔۔ طلب میں۔۔۔۔ اہل محبت۔۔۔۔ ہیں داغ۔ داغ
کس کی۔۔۔ ادا سے۔۔۔۔ حشر بپا۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔ اُفق۔۔ اُفق

اہم الفاظ کے معنی:

لفظ

معنی

طلب

خواہش، جستجو

اہلِ محبت

محبت کرنے والے لوگ

داغ داغ

زخمی، درد و رنج سے بھرپور

ادا

انداز، چال

حشر بپا

قیامت برپا، ہنگامہ خیز کیفیت

افق افق

ہر طرف، چار سو

 

مفہوم:اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبت کرنے والے ہر طرف محبوبِ حقیقی (اللہ تعالیٰ) کی جستجو میں سرگرداں اور درد سے بھرے ہوئے ہیں۔ اسی کی شان اور جلوہ گری ایسی ہے کہ ہر سمت (افق افق) میں قیامت خیز کیفیت طاری ہے۔ یہ شعر عشقِ الٰہی کے اثرات اور جاذبیت کو بیان کرتا ہے۔

تشریح

اس شعر میں حفیظ تائب نے بڑی سادگی سے عشقِ الٰہی کی شدت کو بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی محبت رکھتے ہیں، ان کے دل اللہ کی طلب میں زخمی اور درد سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں سکون نہیں بلکہ ایک بے قراری اور تڑپ ہے جو انھیں مسلسل حرکت میں رکھتی ہے۔

یہ درد دراصل اس سچے عشق کا نتیجہ ہے جو محبوبِ حقیقی کی طرف انسان کو کھینچتا ہے۔ یہ جذبہ صرف دکھ نہیں دیتا بلکہ روحانی ارتقاء کا ذریعہ بنتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوبِ حقیقی کے جلوے، اس کی شان، اس کا اندازِ جلوہ گری، اتنے پرجوش اور جاذب ہیں کہ ہر طرف قیامت کا سا عالم بپا ہے۔ آسمان، زمین، کائنات — ہر شے اس کے جمال کے زیرِ اثر ہے۔

شاعر علامتی انداز میں اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، جمال اور جلال کا اثر ہر طرف ہے اور یہ احساس ہر دل میں ایک حشر بپا کر دیتا ہے۔

 

آخری شعر

سوزاں۔۔۔ ہے۔۔۔ کس کی۔۔۔ یاد میں ۔۔۔تائب ۔۔۔نَفس۔۔۔ نَفس
فرقت ۔۔۔میں کس۔۔۔ کی، شعلہ۔۔۔ نوا ہے۔۔۔ اُفق ۔۔۔اُفق

اہم الفاظ کے معنی:

سوزاں - دہکتا ہوا، جلتا ہوا

نفس - زندگی، سانس

فرقت - جدائی، دوری

شعلہ نوا - دہکتی بات یا صدا، آگ کی مانند زبان یا آواز

افق - کنارے، آسمان اور زمین کا ملاپ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مفہوم :اس شعر میں شاعر نے خدا کی یاد میں ایک عاشق کی کیفیت بیان کی ہے۔ وہ ہر سانس میں رب کی یاد میں جلتا ہے اور اس کی جدائی کا غم فضا میں دہکتے ہوئے الفاظ کی صورت میں سنائی دیتا ہے۔ یہ کیفیت محض اندرونی نہیں بلکہ کائنات میں ہر سو اس کی شدت کا اظہار ہے۔

تشریح

حفیظ تائب کا یہ شعر خدا کی محبت میں سرشار ایک عارف، ایک عاشقِ الٰہی کے جذبات کو بیان کرتا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ ہر سانس میں ایک سوز، ایک تڑپ موجود ہے، جو خدا کی یاد کی شدت کی علامت ہے۔

"سوزاں ہے کس کی یاد میں نفس نفس" — یہ مصرع ایک روحانی اضطراب کا آئینہ دار ہے، جہاں انسان کا ہر لمحہ، ہر سانس رب کی محبت میں جل رہا ہے۔

دوسرا مصرع "فرقت میں کسی کی، شعلہ نوا ہے افق افق" اُس تاثر کو وسعت دیتا ہے۔ یہاں شاعر بتاتا ہے کہ یہ جدائی صرف دل کی نہیں بلکہ کائنات کے افق افق پر اس کی گونج سنائی دیتی ہے، گویا ہر گوشہ شعلہ زباں ہو گیا ہو۔

یہ کیفیت محض ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک کائناتی تجربہ ہے۔ انسان کا اندر اور باہر، دونوں اس فراق کی شدت میں جھلس رہے ہیں۔

شعر میں صنعت تکرارلفظی کا استعمال بھی واضح ہے۔ "نفس نفس"، اور "افق افق" جیسے الفاظ نہ صرف موسیقیت لاتے ہیں بلکہ مفہوم کو گہرائی بھی دیتے ہیں۔

یہ شعر اشارہ کرتا ہے کہ جب دل رب کی یاد میں روشن ہوتا ہے تو کائنات کا ہر ذرہ اس کی روشنی کا گواہ بن جاتا ہے۔

پروفیسر اشفاق شاہین پجناب کالج گجرات شعبہ اردو

 

Hafiz Taib ki nazm Kis ka nizam rah numa hai ufaq ufaq ki tashreeh  کس کا نظام راہ نما ہے افق افق حمد کی تشریح



Hafiz Taib ki nazam Kis ka nizam raahuma ki tashreeh  کس کا نظام راہ نما ہے افق افق حمد کی تشریح

 

  Hafiz Taib ki Hamd: Kis Ka Nizam Rahnuma Hai حمد "کس کا نظام راہ نما ہے" کا تجزیہ