Ticker

6/recent/ticker-posts

دکن میں اردو غزل کی روایت قلی قطب شاہ کے حوالے سے

 

دکن میں اردو غزل کی روایت قلی قطب شاہ کے حوالے سے
دکن میں اردو غزل کی روایت قلی قطب شاہ کے حوالے سے


dakkan-deccan mein urdu ghazal ki rawayat aur quali qutab shah  


دکن میں اردو غزل کی روایت قلی قطب شاہ کے حوالے سے

قلی قطب شاہ کی غزل کی خصوصیات

دکن کو اردو زبان وادب کا نقطہ آغازکہا جاتا ہے۔دکن میں مسلمانوں کی آمد اورمختلف حملہ آوروں کے نتیجے میں قدیم دکنی زباں نے ایک نئی صورت اختیار کرنا شروع کی۔ اس نے بہمنی دور اور پھر قطب شاہی دور میں اپنی ابتدائی نشو نما کے مراحل طے کیے ۔اردو کی ابتدائی ترویج میں قطب شاہی عہد کو اس لیے بھی خاص مقام حاصل ہے کہ تہذیب ترقی پاکر ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ملک میں امن و امان تھا اور بادشاہ علم و ادب کی سرپرستی کرتے تھے۔اس دور کے فرماں روا محمد قلی قطب شاہ کو تو اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اس نےعوامی فلاح و بہبود کے کارناموں کے ساتھ ساتھ اردو شعرو سخن کی سرپرستی بھی کی۔وہ گول کنڈہ کا پانچواں بادشاہ تھا۔موضوعات کے حوالے سے اس کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔اس نے حمد و نعت منقبت،شاہی کھیل،مہندی،بقر عید بقر،میلاد،باری پیاریاں،قصائد اور غزل پر طبع ازمائیکی ہے۔

اس نے اپنی شاعری میں تین تخلص استعمال کیے ہیں۔جن میں قطب شاہ،ترکمان اور معانی شامل ہیں۔محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں اس کی غزل نگاری کو بھی خاص مقام حاصل ہے۔اس کی غزل میں دکن کی مٹی کی خوشبو پائی جاتی ہے۔اس کی غزل اردومیں اس وقت گرچہ نئی صنف تھی لیکن اس میں ایسے محاسن پائے جاتے ہیں جہوں نے آنے والے ادوار کی غزل پر گہرے اثرات مرتب کیے۔آئیے محمدقلی قطب شاہ کی غزل کی خصوصیات اک جائزہ درج ذیل ہے۔

 

محمد قلی قطب شاہ کی غزل زبان و بیان

محمد قلی قطب شاہ کی غزل کی اہم خوبی اس کی سادگی اور روانی ہے۔اس کی زباں قدیم دکنی شعرا کی طرح نامانوس نہیں ہے۔ اگر چہ غزل فارسی سے اردو ادب میں داخل ہوئی لیکن قدیم دور میں غزل یا اردو شاعری پر فارسی کا غلبہ دکھائی نہیں دیتا۔قلی قطب شاہ کی غزل اس دور کی عام بول چال اور لہجے میں گندھی ہوئی ہے۔ایک ایسی زبان جو آنے والے ادوار کے لیے اردو کے خدوخال واضح کر رہی تھی۔نمونہ کلام درج ذیل ہے

 

مکھترا دیکھ کر میں آج مست

تیرے مکھ کے تئیں ہواہوں بت پرست

میرے آکھر میں کھے سونا پھرے

خوش لکھے ہیں عشق سطراں رست رست

جانتے دارو حکیماں درد کا

نیہہ دوا ہوسے نہ ہر گز ان کے دست

ہریکس میں مستی ہریک میں دھات ہے

قطب منعامست ا زروزِالست

 

قلی قطب شاہ کی غزل میں شراب و سرمستی

 

محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں جہاں مذہبی رنگ نمایاں ہے وہیں شراب و کباب کی محافل، راگ رنگ اور مستی پر مبنی اشعار بھی بکثرت ملتے ہے۔یوں لگات ہے کہ وہ بیک وقت زاہد بھی ہے اور رند بھی۔اس کی بزم میں شراب اور رقص و سرود اس کے روزو شب کا جزو محسوس ہوتے ہے۔اپنے دیوان میں وہ جابجا شراب سے مست الست محبوب کے گیت گاتا  اور ساقی سے جام طلب کرتا دکھائی دیتا ہے۔چند اشعار دیکھیں

 

صباحی او مکھ دیکھ کر پینا شراب

فرح بخش ساعت میں لینا شراب

عشق ساز کے تار مظرب بجا

کہ قانون تاناں میں لینا شراب

 

مزید

رخ کیے مے خانہ رخ لے پیاکہ ہات

ڈگمگی چالاں سوں سب کس کوں بھلات

۔۔۔

ساقیا آ شراب ناب کیاں

چند کے پیالے میں آفتاب کہاں

ص150انتخاب قلی قطب شاہ

 

قلی قطب شاہ کا تصور محبوب

 

قلی قطب شاہ کی غزل اس کے محبوب کے حسن کا قصیدہ ہے۔اس کے ہاں ایک چلبلےسرو قد،،نرم و نازک اورخوب صورت آنکھوں ولے زندگی سے بھرپور محبوب کی تصویر ابھرتی ہے۔وہ اس کے ہونٹوں اسے کی آنکھوں،اس کے تل اس کی زلفوں کا مدح خواں ہے ۔وہ ایک ایسا عاشق ہے کہ جو محبوب کے عشق میں غم کی تصویر بننے کی بجائے طربیہ انداز اپنائے ہے۔وہ محبوب کے انگ انگ کی عریف کرتا ہے تاہم کبھی تعریف اخلاق سے متجاوز نہیں ہوپاتی۔وہ محبوب کا باہوش قصیدہ خواں ہے۔ محبوب کی تعریف میں ایک غزل کے چند اشعار

ترے ہونٹ خرما،نین تج بدام

ترے تل اہیں دانے ہور زلف دام

ص150

۔۔۔۔۔

ترے قد تھے تروتازہ ہے جم

اوچایا ہے نو چمن میں علم

ص139

 

محمد علی اثر نے اسے کثیر المحبوب شاعر قرار دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں

 

محمد قلی قطب نے بر ملا انداز میں اپنے محبوب کو سکی،سہیلی،دھن، سودھن،نار،ناری،سندری،نھنی،سانول،پیاری،چھبیلی،گوری،کنولی،لالن،موہن،مشتری،ہندی چھوری،پدمنی،رنگیلی وغیرہ ناموں سے یاد کیا ہے۔وہ ایک کثیر المحبوب شاعر ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ ان تمام ناموں میں کوئی ایک بھی نام ایسا نہیں ہے جس میں محبوب کو کج ادا ،بے وفا،بدزباں،فتنہ خو قسم کے لفاظ یا خصوصیات سے یاد کیا گیا ہو۔شاید اس کی شاعری میں بے وفائی ،محبوب کے ظالم ہونے کا تصور ہی نہیں ہے۔

 

محمد قلی قطب شاہ کی غزل میں اسلامی تشبیہات و تراکیب

 

قلی قطب شاہ نے اپنی غزل میں محبوب کی تعریف کے لیے جہاں اس کی آنکھوں کو بادام ،ہونٹوں کو خرما یا پھول کلوں اور بدن کو باغ  سے تشبیہ دی ہے وہیں اس نے تعریف و تو صیف کے لیے کام کے لیے اسلامی الفاظ و تراکیب کا بھی استعمال کیا ہے۔وہ کہتا ہے۔

۔

پتلیاں مصلی طاق بھوں اس بے نیاز کوں

احرام باند کر سو کھڑیاں ہیں نماز کوں

۔۔۔۔۔۔

منگیا جو توبی صبح استخارہ کروں

ہنگام توبہ توڑن آیا کیا چارہ کروں۔

۔۔۔

 

غزل کا طربیہ انداز

 

قلی قطب شاہ کی غزل کسی غم خانہ کی تصویر نہیں ہے۔وہ محبوب کی جدائی میں گریہ زاری نہیں کرتا ۔اس کے ہاں محبوب کے حسن کی نغنہ نگاری ہے۔وہ محبوب کے سحر میں مبتلا خوشی کے گیت گانے والا شاعر ہے۔اسی باعث اس کی غزل کی فضا میں گھٹن،امیدی اور زندگی سے بیزاری کا عنصر نہیں ملتا۔اس کے ہاں خوشی کے گیت ہیں،جام و سبو کی محفلیں ہیں اور پہلو میں اس کا خوب صورت محبوب ہے۔اس کی غزل میں ایک ایسے عاشق سے ملاقات ہوتی ہے جو کسی کے عشق میں دشت و صحرا کا راستہ ختیا ر کرنے کی بجائے زندگی سے لطف اٹھاتا ہے دوسروں کی غمی خوشی میں شریک ہوتا ہے اور معاشرتی رسوم و روج کا حصہ بنتا ہے۔محمد قلی قطب شاہ کی کے ناامیدی اور گھٹن سے ازاد کشادہ فضا  دیکھیے

عشق گھر میں کرے آپ آشیانہ

سچیں تجھ کو سہاتا ہے اے مے خانہ

چڑیا ہونٹا کی مسی کا اثر منج

اے مستی نئیں ہے کس خمار خانہ

 

قلی قطب شاہ کی غزل نہ صرف اس کے منفرد زاویہ نظر کی ترجمان ہے ۔بلکہ وہ اپنی شاعری کے باوصف وہ ان اہم شعرا میں شامل ہے جنہوں نے دکن میں اردو غزل پودا لگا اور اسے ایسی فضا میسر کی کہ جس میں پھل پھول کر وہ آنے والے ادوار میں ایک گھنا سائے دار درخت بن جائے۔ 

تحریر:پروفیسر اشفاق شاہین 


مزید پڑھیے

دکن میں اردو زبان کا آغاز و ارتقاء


ولی دکنی کی ادبی خدمات


ملاوجہی کی سب رس کا سلوب


کتابیات

محمد اکبر الدین صدیقی،انتخاب قلی قطب شاہ،مکتبہ جامع نئی دہلی،1972

ڈاکٹر محمد علی اثر،دکنی غزل کی نشو نما،الیاس ٹریڈرس،شاہ علی بنڈی روڈ.1 انڈیا،1986

ڈاکٹر محمد علی اثر،دکنی اور دکنیات،الیاس ٹریڈر،حیدرآبا،1982