دکن میں اردو زبان و ادب کا آغاز و ارتقا |
دکن میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء
تحریر:پروفیسر اشفاق شاہین
ہندوستان
میں اردو کی ابتدا کے سلسلہ میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ جو اپنے اپنے
وقت میں بہت مقبول رہے۔ ایک اہم نظریہ کے مطابق اردو کی ابتدا دکن ریاست سے
ہوئی۔
ہندوستان
اپنی قدرتی دولت کی وجہ سے شروع ہی سے بیرونی دنیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔قدیم
دور میں جہاں تجارتی قافلے دکن آتے رہے وہیں
لوٹ مار کی غرض سے قبضہ جمانے کے لیے مختلف حملہ آور بھی یہاں وارد ہوتے رہے۔یوں اس
سر زمیں کی تہذیب و معاشرت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
تجارت
کے لیے جب عربوں نے ہندوستان کا رک کیا تو دکن کو اپنا تجارتی مرکز بنایا۔دکن میں
آنے والے آنے بعض عربوں نے ہندوستان میں ہی کاروبار زندگی شروع کرلیا۔ اور یہیں
مقیم ہو گئے ۔ان کی زبان عربی تھی۔ جو کہ مقامی زبان میں گھل مل گئی۔ ۔عام بول
چال کے ذریعے عربی کے الفاظ دکن کی زبان میں شامل ہونا شروع ہوئے۔یوں ایک نئی زبان
وجود میں آنے کی ابتدا ہوئی۔اس نظریہ کے بڑے حامی اردوکے معروف محقق نصیر الدین
ہاشمی اپنی کتاب دکن میں اردو کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ
’’گلستان
ہند کے شمالی چمن میں مغربی دروازوں سے باغبانوں نے آکے اردو کا بیج بویا۔‘‘
یہ نئی
زبان ابھی ابتدائی مراحل میں تھی کہ علاؤ الدین خلجی نے دکن پر حملہ کیا اس طرح
دکن میں فارسی زبان در آئی ۔بعدازاں سلطان محمد تغلق نے دکن کا رخ کیا اورمشہور
شہر دولت آباد کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔یوں علم و ادب سے منسلک اہم شخصیات نےدہلی سے کوچ
کرکےدولت آباد میں بادشاہ محمد تغلق کے دربار کا رخ کیا۔ اس طرح دہلی اور اس کے
گردونواح کی زبان بھی دکن پہنچ گئی اور یہاں قدیم دکنی،عربی،فارسی اور دہلی کی
زبانوں کے اشتراک سے ایک نئی زبان تشکیل پانے لگی۔اگر چہ محمد تغلق کا دولت آباد
میں قیام طویل نہیں رہا لیکن اس کے ساتھ جو علماء اور ادباء آئے
انہوں نے یہیں سکونت اختیار کر لی اور زبان کی ارتقا میں شامل ہوگئے۔
بہمنی دور میں اردو
سلطان
تغلق کا دورشورشوں کا زمانہ تھا۔ دکنمیں انتشار
پھیلا ہواتھا۔ یوں1347 میں علاوالدین حسن گنگو بہمنی نے دکن میں حکومت قائم
کر لی اوربہمنی دور کا آغاز ہوا جو کہ 200 سال تک یعنی 1347 سےکلیم اللہ شاہ بہمنی
کے دور حکوممت 1538 تک قائم رہا ۔ بہمنی حکومت کا بانی حسن گنگو بہت معتدل
اور دور اندیش حکمران تھا ۔وہ جدید سوچ کا حامل تھا۔ اس نے برہمنوں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا اور
دکنی زبان کو دفتری اور ملکی سطح پر رواج دیا۔اس نے علما کی بھی سرپرستی کی۔
دکن میں بہمنی دور کے چند اہم مصنف اور شعرا
دکن میں اردو کی ترویج میں ایک بڑا ہاتھ صوفیائے
کرام کا ہے جنہوں نے ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ کی ۔یہی وجہ ہے کہ دکن میں جو
بنیادی فن پارے قدیم اردو میں وجود میں آئے ان میں سے زیادہ تر کی نوعیت دینی
مذہبی ہے۔ شیخ عین الدین گنج عالم جو تغلق کے دور میں دکن وارد ہوئے تھے انہوں نے
دکنی زبان میں انہوں نے کچھ مختصر کتابیں تحریر کیں۔ یہ ابتدائی رسائل دکنی زبان
یا قدیم اردو کا بنیادی اثاثہ قرار دیے جاتے ہیں۔ آئیں دکن میں اردو کے ارتقا کے
حوالے سے بہمنی دور کے چند اہم شعرا پر نظر ڈالتے ہیں ۔
خواجہ بندہ نواز گیسو دراز
اپنے وقت
کے عالم دین خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے تین رسالے دکنی زبان میں تحریر کیے۔ ان
کی مشہور کتاب معراج العاشقین دکنی زبان کی پہلی باقاعدہ تصنیف مانی جاتی ہے۔اردو
کے تمام محقق دکن میں اردو زبان کی ابتدا کے سلسلہ میں خواجہ بندہ نواز گیسودراز
کی تصنیف معراج العاشقین کی اہمیت کے معترف ہیں۔ ہدایت نامہ ،شکار نامہ اور تلاوت
الوجود کتابیں بھی انہی سے منسوب ہیں۔معراج العاشقین کی عبارت کا نمونہ درج ذیل
ہے۔ دکن کی اس اردو تحریر میں اور دور حاضر کی اردو زبان میں کوئی خاص فرق نظر
نہیں آتا۔
’’عدل طریقت کی پیروئی ہے۔جس میں عدل ہے او مومن
ہے۔حیاحقیقت کا حال ہے۔جس میں مردم آزاری نیں او انساں ہے۔شجاعت معرفت کی چال
ہے۔جس میں اپنی ہور خدا کی پیچانت ہے ۔او بندہ ہے ۔عنایت ہی بوج تمام پر ہے۔‘‘
(معراج
العاشقین ص70)
فخر الدین نظامی
قدیم
دکن کا ایک اہم شاعر فخر الدین نظامی شاہی دربار سے وابستہ تھا ۔اس کی مثنوی کدم
راو پدم راو اردو ادب کی قدیم ترین مثنوی کہلاتی ہے۔
یہ
شعری کتاب ایک راجہ قدم راو اور اس کے ایک وزیر جس کانام پدم راو کی کہانی ہے۔کدم
راو پدم راو 1421 سے 1435 کے لگ بھگ تحریر ہوئی۔اس مثنوی میں دکن میں اردو کا
آغاز و ارتقا کے ابتدائی مدارج دیکھے جاسکتے ہیں۔جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں
کہ اسی دکنی زبان نے رفتہ رفتہ اردو کی شکل اختیار کی ہو گی۔ مثنوی کمراو پدم راو
کے ایجو کیشنل پبلشنگ ہاوس دہی سے شاعر ہونے والے نسخہ سے نمونہ کلام درج ذیل ہے
سو
بولیا تجھے جو نہ تھا بولناں
اتار
اک سنجری رہیا کھولناں
نہ
تیسی کروں جیب جس تھیں ڈروں
جو سیوٹ اسی جیب پہلے کروں
(جیب بمعنی زباں)
(مثنوی
کدم راو پدم راو،ص85)
اشرف بیابانی
بہنی
دور کے ایک اور قابل ذکر شاعراشرف بیابانی کی مثنوی نوسرہار اپنے دور کا معروف و
مقبول فن پارہ ہے۔یہ مثنوی واقعہ کربلا پر تحریر کی گئی۔اس مثنوی کا آغاز خدا کی
حمدوثنا سے ہوتا ہے۔اس کے بعد نعتیہ کلام دیا گیا ہے۔نوسرہار میں خلفائے راشدین کے
اوصاف بھی بیان ہوئے ہیں۔اس کے بعد شاعر حضرت امام حسین کی تعریف بیان کرتا ہے۔اس
مثنوی کی زبان اگرچہ عسر حاضر کی اردو زبان جیسی نہیں ہے لیکن اس کے مطالعہ سے یہ
بات آسانی سے محسوس کی جاسکتی کہ یہ دورقدیم کی اردو زبان ہی ہوگی۔اشرف بیابانی کی
مثنوی نوسر ہار سے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
کہیا
اس کوں اٹھ جا اب توں
کریا
جو کچھ کام کہوں
سو وہ
کہا سن اے یار
عبداللہ
کی جو تھی نار
نوسرہار
ص4
۔۔
تجھ بن
تاریک جہان
ٹوٹ
پڑیا جوں ہفت آسمان
یہ دکھ
مجھ کیوں گھارا جائے
چھاتی
اوپر روندھا جائے
برکم
تھا کہ ہوئی نردھار
کیتا
رووں تجھ پکار
ص60نوسر
ہار
۔۔۔
ایس
اٹھی آندھی باو
چندر
سورج روپ چھپاو
ہوا
یوں تاریک جہان
کر نہ
سکے کوئی بیان
انبر
گرجا لرزی بھویں
جانوں
قیامت قائم ہوئی
شہید
ہوا سید شاہ
حاضر
آئے سب ارواح
ص61
افسر
امروہوی انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام چھپنے والے نوسر ہار کے نسخہ کے مقدمے میں
لکھتے ہیں۔
’’مثنوی
نوسرہار اعلی پائے کی تصنیف نہ سہی لیکن اس کی یہ اہمیت کیا کیاکم ہے کہ وہ
قریبا پانچ سو سال پہلی لکھی جانے والی کتاب ہے۔‘‘
میراں جی شمس العشاق
شاہ
میران کا شماربہمنی دور کے اولیائےکرام میں ہوتا ہے۔انہوں انے اپنی زندگی خلق خدا
کی ہدایت کے لیے وقف کیے رکھی ۔ان کی منظر عام پر آنے والی تصانیف میں خوش نامہ
اور بشارت الذکرقابل ذکر ہیں۔ان کے ہاں دکنی اردو کا نمونہ ماحظہ فرمائیں
صفت
کروں میں اللہ کیری جے پوری پورن پور
قادر
قدرت انگیسا رول نیرے نا دور
قطب شاہی دور میں اردو کا ارتقا
قطب
شاہی سلطنت کی بنیاد قلی قطب شاہ نے رکھی۔اس نے گول کنڈہ کو اپنا در الخلافہ
بنایا۔ اس نے نہ صرف میں ملک کو ترقی دی اور جگہ جگہ باغاتات اور نہریں بنوائیں
بلکہ قدیم دکنی زبان اردو کی سر پرستی بھی کی ۔قطب شاہی خندان نے دوسو سال تک دکن
میں حکومت کی۔ اس دو کے اہم شعرا نے دکن میں اردو کو ایک نیا زاویہ بخشا اور اس کے
خدوخال نکھارنے میں معاون ثابت ہوئے۔ان شعرا میں ملاوجہی،قلی قطب
شاہ،غواصی،قطبی،شاہ راجو،کبیر،فائز،خواص فیروز سمیت کئی ایک شامل ہیں۔قطب شاہی دور
کے چند اہم شعرا اور ان کا نمونہ کلام
ملا وجہی
وجہی
قدیم دکنی دور کا ایک اہم شاعر اور نثر نگار ہے۔اس کی کتاب سب رس اور قطب مشتری نے
اسے خاص شہرت دی۔قطب مشتری 1018 میں تحریر ہوئی۔یہ مثنوی کی صورت میں ہے۔قطب مشتری
اصل میں دکن کے سلطان محمد قلی قطب شاہ کی معشوق تھی۔اس کتاب کی زبان نامانوس ہے
اور زیادہ تر الفاظ ایسے ہیں جو عصر حاضت کے لغات میں نہیں ملتے۔قطب مشری کی عبارت
سے نمونہ درج ذیل ہے۔
کتا
ہوں سنو کان دھر لوگ ہو
کہاوت
منے بات جو آئی ہو
اگر
شعر کوئی کہہ نواکر جو لیا ے
تو
خوباں کوں سن رشک البتہ آئے
ص18
سلطان محمد قلی قطب شاہ
محمد
قلی قطب شاہ ایک ہردل عزیز باد شاہ تھا جس نے دکن میں اپنے دور حکومت میں بہت سے فلاحی
کام کیے۔اس کا دور دکن میں معاشرتی اور علمی ترقی کا زریں دور ہے۔وہ ادب کا سرپرسے
ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی لکھاری تھا۔اس نے مختلف اصناف سخن میں طبع ازمائی کی۔اکی
مثمویوں میں عنوانات کی رنگارنگی نظر آتی ہے۔اس کی غزل پیا باج پیالہ پیا جائے
ناں آج بھی ادب کے عام طالب علم کے حافظہ میں ہے۔سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کلام
سے چند اشعار
آج شہ
چلیا شرق نگر تھے شتاب
ڈھال
فلک کی اچادشہ عالی جناب
بانخنجر
کرن کی زریں فرنگ ہاتھ لے
صبح کے
وقت ائیا پک دو پیالی شراب
غواصی
دکنی
دور کا ایک اور اہم شاعر غواصی ہے۔اس کی مثنویاں سیف الملوک اور بدیع الجمال اور
طوطی نامہ قدیم دکن میں اردو ادب کے حوالے سے قابل ذکر مانی جاتی ہیں۔غواصی کو بادشاہ
کا قرب حاصل تھا۔دکن دور کے اس اہم شاعر کی پیدائش اور وفات کے بارے میں مختلف قیاس
آرائیاں ملتی ہیں۔غواصی کی کتاب طوطی نامہ جو کہ 1049 میں شائع ہوئی اس کی عبارت سے
اقتباس درج ذیل ہے۔
گگن بن
تے جھڑجوں گل آفتاب
لیا
آپسیں بھیں میں مغرب کی داب
کنول
چاند کا نرملا بے بدل
چمن تے
جو مغرب کے آیا نکل
شگفتا
ہو تھ چلبلی او نگار
لٹکتی
چلی چھب سوں رونویں کے ٹھار
عادل شاہی دور میں اردو کاارتقاء
اس
خاندان کا بانی یوسف عادل شاہ ہے۔اس خان دان کے نو بادشاہوں نے دوسو سال تک حکومت
کی اور ملک کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی سرپرستی بھی کی۔یوسف عادل شاہ
خود بھی شاعر تھا اور فارسی میں شعر کہتا تھا۔دکن میں عادل شاہی دور کے اہم شعرا
اور نثرنگاروں میں شاہ برہان الدین جانم،ابراہیم شاہ عادل ،ثانی،شوقی،شاہی،دولت،نصرتی،امین،ظہور،شاہ
ملک،ہاشمی،ایاغی،معظم وغیرہ شامل ہیں۔
برہان الدین جانم
برہان
الدین جانم بیجا پوری قدیم دکن کے عاہلم دن اور شاعرمیراں جی شاہ شمس کی اولاد
تھے۔بیجاپور میں پیدا ہوئے۔ان کی کئی تصنیفات ہیں زیادہ تر کتب شاعری پر مشتمل ہیں
جن میں اخلاقی و مذہبی مضامین بیان ہوئے ہیں۔ان کی کتابیں دکن میں اردو کی ان کتب
میں شامل ہیں جو محفوظ حالت میں ہیں۔ان کی مشہور کتب میں ارشاد نامہ اور وصیت
الہادی ہیں ۔
تو ان
پوچھے اپنی بات
منجہ
یہ دستی مشکل بات
یو تو
قول الحانی ہے
یو
کلام تو ربانی ہے
ص147.ارشاد
نامہ
ملا نصرتی
ملا
نصرتی عادل شاہی دور میں دکن کے خاص شعرا میں سے
ہیں۔ان کے والد کی دربار میں رسائی تھی۔ علی عادل شاہ ثانی کے حفاظتی دستے
میں شام ہونے کی وجہ سے ہر وقت بادشاہ کا
ساتھ تھا ۔مالی طور پر خوش حال ہونے کے باعث انہوں نے نصرتی کی تعلیم تربیت پر
خصوصی توجہ کی۔جب عادل شاہ پر ان کی خوبیاں آشکار ہوئیں تو اس نے انہیں اپنے
درباریوں میں شامل کرلیا۔ان کی پہلی مثنوی گلشن عشق،دوسری مثنوی علی نامہ اور
تیسری تاریخ سکندری تھی۔1068ء میں لکھی جانے والی مثنوی گلشن عشق سے ایک اقتباس جو
ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نصرتی کے دور میں دکن میں اردو زبان کے خدوخال کیسے ابھر رہے
تھے اور اس کی خام حالت کیسی تھی ۔
ننھے
سن میں ہے یازدہ سال کی
سپورن
ہے نو مہ کی وہ بالکی
منور
محل مکھ کی کرتاب میں
سرنگ
سیج پرہے شکر خواب میں
(گلشن
عشق از نصرتی۔غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی۔)
ابراہیم عادل شاہ
عادل
شاہ ایک کامیاب حکمران ہی نہیں ایک اچھا شاعر بھی تھا۔او ابراہیم تخلص کرتا تھا۔اس
نے مختلف اصناف سخن میں شاعری کی ۔اس کی تصنیف نورس اس کے کلام کی یادگار ہے۔
ابراہیم
عادل شاہ کا نمونہ کلام
ہر دم
آوے پیارے تیرے عشق کی بائو مج
وہی
سلگائے جیو کو نہیں تو جاوتے گا بج
جے گن
سب توں گن گن لائے گون کون گن کر لائے
ابراہیم دے گن بس تجھے اس میانے آئے
دکن میں اردو کے ارتقا کے حوالے سے درج بالا جائزہ سے
یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قدیم دور میں اردو زبان کا چشمہ دکن سے پھوٹا اور اس میں
دکن میں وارد ہونے والوں نے اہم کردار ادا کیا۔مختلف زبانوں اور ہندوستان کی مقامی
بولیاں دکنی زبان میں شامل ہو کر دکن میں اردو کا خمیر تیار کرتی رہیں۔ادور کے
شاعروں اور مصنفوں کی تحروروں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح قیم دکنی زبان نے درجی
بدرجہ ترقی پائی اور قدیم الفاظ کی جگہ نئے لفاظ نے لی۔اس سے نصیر الدین ہاشمی کے
اس نظریہ کو تقیت ملتی ہے کہ اردو زبان کا آغاز دکن کی شر زمیں سے ہوا جس نے اپنی
صورت نام بان بدلتے ہوئے آخر سارے ہندوستان کو اپنے دائرے میں لے لیا بل کہ دکن کی
زمیں سے نکلنے والے اس سورج کی روشنی دنیا بھر میں پھیل گئی۔
کتابیات
نصیر الدین ہاشمی۔دکن میں اردو،قومی کونسل برائے فروغ اردو
زبان،نئی دہلی
خواجہ بندہ نواز گیسودراز،معراج العاشقین،مکتبہ شاہراہ،اردوبازار،دہلی1957ء
فخردین نظامی،مثنوی کدن راوپدم راو،ایجوکیشنل
ہاوس،دہلی،1973ء
شاہ اشرف الدین اشرف،مثنوی نوسرہار،انجمن ترقی
اردو،پاکستان1983ء
ملا وجہی،سب رس،انجمن ترقی اردو،اورنگ آباد،دکن،1932
ملا وجہی،قطب مشتری،انجمن ترقی اردو(ہند)نئی دہلی،1939ء
ملا غواصی،طوطی نامہ،مجلس اشاعر دکنی مصنوعات،ادارہ
ادبیات،اردو،حیدر آباد
برہان الدین جانم بیجاپوری،ارشاد نامہ،شعبہ اردو،عثمانیہ
یونی ورسٹی،حیدر آباد یونی ورسٹی،1971ء
ملا نصرتی،گلشن عشق،انجمب ترقی اردو ،پاکستان،کراچی،1952
ابراہیم عادل شاہ ثانی،کتاب نورس،دانش محل،امین الدولہ
پارک،لکھنئو،1955