Masnavi sehar ul bayan k kidarwN ka tanqeedi jaiza |
ایم اے اردو نوٹس
مثنوی سحرالبیان کے کرداروں کا تنقیدی جائزہ
قصہ بے نظیر بدرمنیر کے کردار
سحرالبیان
اردو کی مشہور و معروف مثنوی ہے۔میر حسن نے اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے اسے
امر کردیا ہے۔مثنوی کے کردار تخلیق کرنے میں شاعر نے پوری مہارت سے کام
لیاہے۔سحرالبیان کے کردار اس دور کی معاشرت کے آئینہ دار ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ
میر حسن کردار نگاری میں کس قدر کامیاب رہے ہیں اور ان کے کرداروں میں کیا خوبیاں
اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔
سحرالبیان میں شہزادہ بے نظیر کا کردار
شہزادہ
بے نظیر مثنوی سحرالبیاں کا مرکزی کردار ہے۔ساری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔اگر
اردو اور فارسی کی دیگرمثنویوں میں پیش کیے گئے کرداروں کا موازنی سحرالبیان
کے کرداروں سے کیا جائے تو ان میں انفرادیت کا کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا۔
داستانیں اور مثنویاں ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہیں جن میں شاہزادوں کو کسی
شہزادی سے عشق ہوتا ہے، وہ ترک وطن کرتے ہیں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، پرستان یا
کسی جادو نگری میں قیدو بند سے گزرتے ہیں اور آخر میں ان کی شادی محبوبہ سے ہوجاتی
ہے۔ پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
شہزادہ
بے نظیر بھی ایک ایسا ہی کردار ہے۔مثنوی میں یہ کردار بے عملی کی مثال ہے۔بے
نظیر مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر ہے۔وقت کی لہریں اسے ساتھ
ادھر ادھر بہاتی رہتی ہیں۔سحرالبیان کے آغاز میں بے نظیر کو ایک پری اٹھا کر
پرستان لے جاتی ہے۔وہ اس پر کوئی مزاحمت نہیں کرتا۔اس کے بعد وہ پری سیر کے
لیے اسے جادو کا گھوڑا دیتی ہے۔وہ گھوڑے پر اڑتا پھرتا ہے مگر فرار کی کوشش نہیں
کرتا۔نہ ہی اسے وہاں پنے گھر کی یاد ستاتی ہے۔پھر وہ وقت آتا ہے جب ماہ رخ
پری ناراض ہوکر اسے قید کرتی ہے۔ تب بھی وہ کنویں سے نکلنے کی سعی نہیں کرتا۔بے
نظیر مثنوی کا ایک مفلوج کردار ہے ۔حو عقل و شعور سے عاری ہے۔شہزادہ بے نظیر اس
دور کے کے بے عمل اور عیاش شہزادوں کا نمائندہ کردار کہا جا سکتا ہے۔جو مشقت
اور جدوجہد سے دور بھاگتے تھے۔ ہاں مگر عیاشی اور خواتین سے عشق بازی انہیں خوب
آتی تھی۔ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں۔
بے
نظیر کے کردار میں مردانگی سے زیادہ نسوانیت ہے۔وہ زندہ و متحرک کردار محسوس نہیں
ہوتا۔(میر حسن،مثنوی سحرالبیان،ص27)
سحرالبیان بدر منیر کا کردار
مثنوی
میں دوسرا اہم کردار شہزادی بدر منیر کا ہے۔جو شہزادہ بے نظیر کی محبوبہ
ہے۔یہ کردار بھی روایتی رنگ لیے ہوئے ہے۔جب بے نظیر کو پری ماہ رخ کنویں میں قید
کرادیتی ہے تب بدرمنیر اسے رہا کرانے کی کوشش کرنے اور عملی جدوجہد کی بجائے آنسو
بہاتی رہتی ہے۔کوہ بھی جنگل میں جاکر آہیں بھرتی ہے کبھی سہیلیوں میں بیٹھ کر آہ و
زاری کرتی ہے۔اس کا ہجر میں غم اٹھانے کے سوا کوئی کام نہیں۔یہ کردار بھی اس دور
کے شہزادے شہزادیوں کی بے عملی کی نشان دہی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ شاہانہ ماحول
میں پلنے والے عقل و فہم اور تدبیر سے بالکل عاری ہوتے تھے۔
حیدر
قریشی مثنوی سحرالبیان کے کرداروں کا جائزہ لیتے ہوئے شہزادی بدر منیر کے بارےیوں
لکھتے ہیں۔
بدرمنیر
کا کردار ایک ہسٹریا عورت کا ہے۔پہلی ملاقات میں بے ہوش ہوجانا اورہجر کی صعوبتوں
میں غشی کے دورے۔
مثنوی سحر البیان میں نجم النسا کا کردار
مثنوی
میں نجم النساء کا کردار ہی سب سے زیادہ فعال ہے۔میرحسن نے اسے محبت،دوستی،جانثاری
اور جدوجہد کی عمدہ مثال بنا دیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہی کردار مثنوی کا اصل ہیرو
کہلانے کے قابل ہے۔نجم النساء ایک وزیر زادی ہے اور شاہ زادی بدر منیر کی سہیلی
ہے۔جب شہزادی کے عاشق بے نظیر کو پری ماہ رخ غضب ناک ہو کر کنویں میں قید کرادیتی
ہے اور اس کی جدائی میں بدر منیر کی حالت غیر ہوجاتی ہے تب نجم النسا سے اس کا دکھ
دیکھا نہیں جاتا اوروہ بے نظیر کو رہا کرانے کے لیے جوگن کا روپ دھار کے نکل پڑتی
ہے۔اس کے دل میں دوسروں کے کام آنے اور دوستی نبھانے کا جذبہ ہے ۔وہ بے نظیر
کو قید سے آزاد کرنے کے لیے جنگل بیاباں میں رات دن ایک کردیتی ہے اور ایک دن نہ
صرف بے نظیر کو ماہ رخ پری کی قید سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوتی ہے بلکہ
اپنی محبت بھی حاصل کر لیتی ہے۔مثنوی سحرالبیان میں نجم النسا کا کردار قابل تحسین
ہے جو داستاں پڑھنے والے پر مثبت اثر چھوڑتا ہے ۔ اس سے پڑھنے والوں میں دوست کے
لیے تکلیف سہنے اور دوسروں کے کام آنے کا جذبہ ابھرتاہے۔میر حسن نے نجم النساء کا
کردار تخلیق کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔یہی وہ کردار ہے جو کہانی کو رفتہ رفتہ انجام
تک پہنچاتا ہے۔ ظہیر احمد صدیقی، مکتبہ ایجوکیشنل ہاوس علی گڑھ سے شائع ہونے والے
سحرالبیان کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں۔
نجم
النساء چہاردیواری میں بیٹھنے والی عوارت نہیں ۔وہ غم گسار اور مصیبت میں ساتھ
دینے والی بھی ہے ۔
مثنوی سحرالبیان میں فیروز شاہ کا کردار
فیروشاہ
مثوی کا ایک اہم کردار ہے ۔وہ جنوں کے بادشاہ کا بیٹا ہے۔ جو نجم النساء کو بین
بجاتے سن کر اس کی طرف کھنچا چلا آتا ہے اور اس کے حسن پر فدا ہوجاتا ہے۔نجم
النساء کی طرح یہ بھی سحرالبیان کا ایک فعال کردار ہے۔یہ کردار شہزادہ بے نظیر کی
طرح مفلوج نہیں بلکہ تدبیر سے حالات کا رخ موڑنا جانتا ہے۔فیروز شاہ ذہین اور دور
اندیش بھی ہے۔شہزادے بے نظیر کو پری ماہ رخ کی قید سے آزاد کرانے میں نجم
النساء کی مدد کرتا ہے۔وہ نجم النساء کو اپنے والد جنوں کے بادشاہ کے دربار میں
رسائی دلوانے کے لیے اس کا تعارف اس طرح کراتا ہے کہ اس کا والد نجم النساء سے
ملاقات پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔یوں شاہ جنات کے وسیلے سے بے نظیر کو رہائی ملتی
ہے۔سحرالبیان کا یہ کردار مثنوی کے یادگار کرداروں میں سے ایک ہے۔
مثنوی سحرالبیان میں ماہ رخ پری کا کردار
ماہ رخ
پری کا کردار ظلم اور جبر کی علامت ہے۔میر حسن مثنوی میں کہانی کی ضرورت کے مطابق
یہ کردار تخلیق کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔پری ماہ رخ شہزادے بدر منیر پر عاشق ہوتی
ہے اور اسے اٹھاکر پرستان لے جاتی ہے۔یہیں سے قاری اس کردار کے متعلق اندازہ کرلیتا ہے کہ
یہ شر کا کردار ہوگا۔ماہ رخ ایک ایسے عاشق کی علامت ہے جوزبردستی دوسروں کی محبت
حاصل کرنا چاہتا ہے اور مقصد حاصل نہ ہونے پر اپنے محبوب کا دشمن بن کر اسے نقصان
پہنچانے سے سے بھی گریز نہیں کرتا۔میر حسن نے ماہ رخ پری کا کردار زیادہ سفاک
دکھانے کے لیے اس کے ہاتھوں شہزادے بے نظیر کو کنویں میں قید کرادیا ہے۔تاہم اس
کردار میں بھی کوئی نیا پن نہیں ہے۔ہر اردو مثنوی میں ایسے دیو اور پریاں مل جاتی
ہیں جو دوسروں پر عاشق ہوجاتی ہیں اور شہزادے یا شہزادی کو قید میں ڈال دیتی ہیں
۔آخر میں طلسم ٹوٹتا ہے اور کسی کے ہاتھوں قیدی کو رہائی ملتی ہے۔
درج
بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مثنوی سحرالبیان کے کردار روایتی ہیں۔میرحسن
مثنوی کے مرکزی کردار شہزادے بے نظیر کے کردار کا تاثر گہرا نہیں کر پائے نہ تو اس
نے کوئی مہم جوئی کی یے اور نہ ہی خود کو رہا کرنے کی کوشش کی یے۔اسی طرح شہزادی
بدر منیر نے مثنوی میں بے نظیر کے ساتھ عیش و طرب کی محفل سجانے اور رونے دھونے کے
سوا کچھ نہیں کیا۔البتہ وزیرزادی نجم النساء اور فیروز شاہ کے کردار وہ بہتر خلیق
کر پائے ہیں۔قسمت کے رحم کرم پر چھوڑے ہوئے مرکزی کرداروں کی نسبت پری ماہ رخ کا
کردار پھر بھی قدرے بہتر ہے۔
مرزا محمد رفیع سودا کی قصیدہ نگاری