ولی دکنی کی ادبی خدمات پر ایک شان دار تحریر |
سوال:ولی دکنی اردو کے ابتدائی
معماروں میں سے ہیں ان کی ادبی خدمات پر ںوٹ لکھیں۔
سوال:ولی دکنی کے اردو زبان و ادب پر
اثرات کا جائزہ لیں۔
سوال:ولی دنی کو ردو
شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے،مدلل بحث کریں۔
ولی دکنی کا اردو شاعری
میں مقام و مرتبہ
ولی اپنے ادبی کارناموں میں مختلف روپ
بھرتا نظر آتا ہے کسی جگہ یہ عالم فاضل مثل ہے مشیر اور صوفی صافی کی حیثیت سے
رونما ہوتا ہے اور کہیں ادیبوں انشاءپرداز اور مجتہد العصر کے روپ میں سامنے آتا
ہے جب اس کے مختلف روپوں کو اس کی شخصیت کے تعمیری عناصر کی روشنی میں دیکھا جاتا
ہے تو اس کے ذہنی ارتقا اور اس کے تصورات و خیالات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور
یہ کہنے میں تامل نہیں ہوتا کہ ولی اپنے زمانے کی صحیح پیداوار اور اس کا کلام اس
کے عہد کا حقیقی آئینہ دار ہے ۔
ولی دکنی احمد آباد کے ایک برگزیدہ
صوفی اور جید عالم علامہ شاہ وجیہ دین علوی گجراتی قدس سرہٗ کے خاندان کا چشم و
چراغ ہے۔ اس کا سلسلہ نسب کئی واسطوں سے شاہ نصراللہ تک پہنچتا ہے یہ خاندان احمد
آباد گجرات کے ان منتخب خاندانوں میں سے ہے جن کی بزرگ ہستیوں نے صدیوں تک علم و
عمل کی شمع روشن رکھ کر گراں بہا خدمات سر انجام دی ہیں یہی وجہ ہے کہ گھر ولی کی
اولین تربیت گاہ ہے
ولی دکنی دور عالمگیری کی نمائندگی
کرتا ہے اس کا سن پیدائش تو معلوم نہیں لیکن اس کا انتقال عالمگیر کی وفات کے دو
سال بعد ہوا یہ دور جس طرح اپنے معتبر اور زبردست حکمران اور وسعت قلمرو کے لیے
تاریخ میں خصوصیت رکھتا ہے اسی طرح اس کے دامن پر سیاسی و مذہبی خلفشار اور گجرات
اور دکن میں لوٹ کھسوٹ قحط سالی اور بے اطمینانی کا دھبہ بھی نمایاں ہے ان آفات
ارضی و سماوی کا سلسلہ ولی دکنی کے سامنے کی بات ہے چنانچہ اس کی زندگی ناگزیر طور
پر اس سے متاثر ہوئی۔
سیاسی افراتفری اور مذہبی خلفشار کے
باوجود اہل دلی کا احمدآبادگجرات کے صوفیاء کرام اور علماء سے معمور تھا ایک طرف
اپنے دور کے ردعمل کے طور پر نفس اور نفوس قدسیہ کے سلسلے پیغام امن سکون سے مایوس
دلوں کو مسرور کر رہے تھے دوسری طرف علمائے دین شرح متین علم اور ادب و فن سے عقل
اور خرد کومسحور کرنے میں مصروف تھے جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے پہلا دور اپنی
توانائی کھو چکا تھا اور زبان ایک تازہ نشونما کے ساتھ ساتھ ایک نئی زندگی چاہتا
تھا خود زندگی ایک نئے موڑ پر آ پہنچی تھی گرتی ہوئی دیوار کی ایک جگہ نئی دیوار
اٹھ رہی تھی ادب کا قدیم تصور مٹ رہا تھا اور زمانہ نئے تجربوں کے لئے فضا سازگار
کر رہا تھا ولی دکنی نے اس ماحول سے حسب منشا آباد کے چشم ہائے فیض سے اپنی علمی
ادبی تشنگی بھی مٹائی۔
غرض ایسے زمانہ اور ماحول میں ولی
دکنی کی شخصیت کی تعمیر ہوئی جس کی عظمت کا راز اس کے جذبہ حریت احساس آزادی
گہرائیوں اور گیرائی جمالیاتی و تنقیدی احساس و شعور جیسی بعض اہم خصوصیات میں
مضمر ہے۔ اس نے ان خصوصیات سے دینی و دنیوی علمی ادبی حوالے سے بڑا کام کیا۔ اسلیے
اس کی شاعری حسن و عشق عشق و مستی تلقین کی حامل فلسفہ حیات و کائنات جدت پسندی
اجتہاد لسانی وغیرہ انہی خصوصیات کی حامل ہے۔
ولی اپنے مقصد حیات سے خوب واقف تھا
اس نے خدمت الناس انجام دینے کے لیے شاعری کو آلہ کار بنایا چونکہ قدرت نے اس صفت
سے اس کو متصف کیا تھا شاعری میں تغزل کو اپنایا کیوں کہ یہ اپنے لسانی اور
اجتہادی تصور کو ایک ہی وقت پیش کرنا چاہتا تھا اس مقصد کے لیے غزل اپنی خصوصیات
کی وجہ سے نہایت موزوں و مناسب تھی ۔اسی لئے دلی کی شاعری بہت پہلودار پائی جاتی
ہے جس کے دو نمایاں پہلو مجازاور حقیقت ہیں جو کہیں الگ اور کسی جگہ ملے جلے چلے
روپ میں پائے جاتے ہیں حقیقی پہلو دو حصوں پر مشتمل ہے تصوف کی مختلف منزلوں اور
اس تاریخ کے رہچلنے والوں کی ہدایت سے متعلق ہے دوسرا حصہ جذب و شوق سے تعلق رکھتا
ہے اس نوع کے کلام میں بعض جگہ تو محبوب کی حقیقی ثنا خوانی کے انداز کی وجہ سے اس
کا مست الست ہو جانا واضح ہوجاتا ہے لیکن ولی دکنی کے کلام کا بیشتر حصہ ایسا ہے
جہاں اس نے تصوف کو غزل کے رنگ میں اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ مجاز و حقیقت میں
امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے اپنے کلام کی اسی رمزیت کے متعلق ولی دکنی نے کی جگہ
اشارہ کیا ہے جیسے وہ کہتا ہے۔
اے ولی مجھ سخن کو وہ بوجھے جس کو حق
نے دیا ہے فکر رسا
ولی دکنی کی شاعری کا مجازی پہلو بھی
رسمی اور روایتی نہیں ہے یہ بھی اس کے قلب و نظر کی سچی روداد ہے جو کہ طریقِ تصوف
میں مجاز ہی پہلی منزل ہے اس لئے اسی سے اپنے سفر کا اس نے آغاز کیا ہے اور جگہ
جگہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا جاتا ہے مجازی پہلو میں ولی کا محبوب کوئی فرد
واحد نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان اس کے لیے محبوب کی حیثیت رکھتا ہے جس میں اس کو
حسن ازل کا پرتو نظر آتا ہے لیکن کسی صورت میں نظر آئے ولی اس کو بڑی شدت سے محسوس
کرتا ہے یہی شدت احساس کا عشق ہے جو اس کے قلب و نظر کی گہرائیوں کا حقیقی ترجمان
ہے مجال ہو کہ حقیقت اس شدت احساس سے جو کیفیت رونما ہوتی ہیں دل میں جو جذبات اور
احساسات موجزن ہوتے ہیں اور جو واتی وارداتیں گزرتی ہیں ولی ان کی ترجمانی کرتا ہے
کہ جو بھی شخص پہلو میں دل رکھتا ہے ان کی صداقت کا انکار نہیں کرسکتا ۔
یوں اس کی آپ بیتی جگ بیتی کا روپ
دھار لیتی ہے یہی مادی فضا اور ہمہ گیری اس کے کلام کی امتیازی خصوصیت ہے ولی دکنی
کے خلوص احساس کی وجہ سے اس کے کلام میں سود و گداز بھی ہے اور اسی خلوص نے اس کے
کلام کو پر تاثیر بھی بنا دیا ہے اس احساس کی تصدیق اس کے اس شعر سے بھی ہو جاتی
ہے
بے حقیقت گرمجوشی دل میں نہیں کرتی اثر
شمع روش کیوں کہ ہووے شعلہٗ تصویر سوں
ولی دکنیWali Dakhani کا کلام اس کے تصورات و
تاثرات کا حسین امتزاج ہے جب اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے
عشق کو یہ غزل کا فن ہادی و رہبر بنتا ہےیہ اس کو انسانیت کی اہم قدروں میں شمار
کرتا ہے اور اس کا انسانیت کا معلم خیال کرتا ہے عشق کو وہ عالم میں حیات انسانی
کو مسرور کامیاب بنانے کا ذریعہ بنتا ہے یہ بھی واضح کر دیتا ہے کہ یہ مرحلہ شوق
بہت دشوار گزار ہے جس کو رنج و الم سے دوچار ہوئے بغیر طے نہیں کیا جا سکتا ایک
جگہ وہ کہتا ہے کہ اے ولی طرز عشق آسان نہیں
اسی رنج و الم اور گریہ شوق میں اس کا
فلسفہ غم مضمر ہے وہ غم سے محبت کرتا ہے کیونکہ اس سے سلیقہ محبت ، زندگی اور غمِ
بندگی میں حیات انسانی کی محرومیوں کے ذکر میں قنوطیت رجحان نہیں پایا جاتا بلکہ
غم کی تشریح کو مطالعے سے شکست اور نامرادی کی بجائے دردمندی کے ساتھ بلند حوصلگی
توانائی محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ اس کی ذہنیت مریضانہ نہیں ہے اس لیے اس کا کلام مرگ
جنازہ گور و کفن وغیرہ کی اصطلاحوں سے پاک نظر آتا ہے اس کا فلسفہ غم اس شعر سے
خوبی واضح ہو جا تا
جب تک ہیں آسمان و زمین جگ میں برقرار
جیون پھول اس جہاں کے چمن میں ہنسا
کرو
ولی دکنی کی تخلیقات میں عاشق کا
کردار بھی اس کے حسن و عشق کے تصور کا ایک پہلو ہے عاشق اپنے عشق میں نہایت مخلص
اور ثابت قدم ہے اس کا والہانہ پن اس کو جنون کی حد تک لے جاتا ہے اس کو قدم قدم
پر ناکامیوں سے واسطہ پڑتا ہے مگر مایوس نہیں ہوتا اضطراب مسلسل کی وجہ سے سرگرداں
ضرور ہے مگر دشت نوردی پر عمل کو ترجیح دیتا دکھائی دیتا ہے وہ اپنی بد نصیبی
محبوب کی غفلت شعاری رقیب کی فتنہ پروری اور وعظ کی سادہ لوحی بلاشبہ محسوس کرتا
ہے مگر مزاج میں تلخی اور لب و لہجہ میں تیزی پیدا نہیں ہونے دیتا اور اس طرح اپنی
شرافت اور عزت اور وقار کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ایک طرف اپنے محبوب کے درجے اور
شان کو برقرار رکھتا ہے اور دوسری جانب خود داری کو بھی صدمہ نہیں پہنچنے دیتا یہ
عاشق محض چاہے جانے کی خواہش لیے ہوئے امید وصال کے یقین کے ساتھ عشق کی منزلیں طے
کرتا چلا جاتا ہے غرض عاشق اضطراب مسلسل، مسلسل آرزو اور مسلسل کوشش کا ایک نمونہ
ہے جس سے سلیقہ محبت کا ایک مہذب انداز ہے ظاہر ہوتا ہے جس کے عشق کو ہوا و ہوس سے
کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ ولی نے خود کہا ہے
اس معنی کو بول ہوس نادان
کیوں کہ سمجھے ولی نے کیا پایا
ولی دکنی کا تصور حسن اس کے فکر و فن
میں بہت اہمیت رکھتا ہے حسن کے لئے اس کے متصوفانہ نکتہ نظر نے اس کے کلام کو جلا
دے دی ہے۔ ولی حسن کو قلب و نظر کی پاکیزگی کے لئے ایک ضروری شے خیال کرتا ہے اس
کو انسان کے اخلاق و عادات جو ذہن خیال میں بلندی کا باعث سمجھتا ہے ظاہری کا سبب
جانتا ہے اور کہتا ہے اسی سے شب قدر حیات روشن ہوتی ہے اسی صوفیانہ تصور حسن کی
وجہ سے مجازی پہلو میں اس کا حسین دوست کہیں مغل بچہ ہے تو کہیں مرہٹہ لڑکا کسی
جگہ گوبند لال اور کہیں امرت لال ہے جو بناؤ سنگھارچال ڈھال حسن ادا کی شوخیوں
نسوانیت کی تمام شوخیوں کی نمائندگی کرتا ہے یہ ایسی محبوبہ ہے جس کے سامنے نرگس
شہلا بھی شرمندہ ہے اور اس کے ہر عضو کے حسن اور توازن کے حسن و خوبی کو اپنے حسن
ادا اور حسن فطرت کی مدد سے واضح کرتا ہے ۔حسن کے بارے میں ولی کا مجازی نقطہ نظر
ایسے موقع پر صاف ظاہر ہو جاتا ہے جہاں اس کے دل میں بوس و کنار کی خواہش پیدا
ہوتی ہے مگر اس کی شرافت اسےعہد جوانی کی کمزوریوں پر محمول کرتی ہے اور وہ اپنے
فلسفیانہ نکتہ نظر کو اس طرح واضح کر دیتا ہے
اثر بادہ ءجوانی ہے
کر گیا ہوں سوال کچھ کا کچھ
ولی دکنی کی تخلیقات میں اس کا مادی
اور فلسفیانہ نکتہ نظر بہت غور طلب ہے اس نے بعض جگہ فلسفہ، اخلاق سے متعلق
شاعرانہ انداز میں ضرور اظہار خیال کیا ہے مگر وہ جس طرح غزل کے ترقی عناصر اور
علامتوں کے ذریعے مجاز کے ڈھانچے میں حقیقت حقیقت کو پیش کرتا ہے اسی طرح ان
اجزاۓترکیبی کی علامات کی مدد سے بندہ اور خدا اور بندہ دنیا کے رشتوں اور ایک
دوسرے کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتا ہے اور اس طرح اخلاقی سماجی کوتاہیوں فطری
کمزوریوں اور ایسے ہی مسائل و حیات کوبڑی خوش اسلوبی سے واضح کرتا ہے اگرچہ زمانہ
کی بدحالی کے پیش نظر انسان کی محرومیوں اور مجبوریوں کے شکوہ شکایت کا اس کے کلام
میں امکان تھا مگر یہ ماتم کرنے کی بجائے مصائب و آلام پر غالب آنے اور ان سے نجات
پانے کی دعا ہی سمجھتا ہے اس کے کلام میں عشق کا عمل یقین بغیر ہے اسی نقطہ نظر کی
نشاندہی کرتے ہیں ولی کے زمانے تک اردو کی دو ادبی شاخیں گزری اور دکنی رائج تھی اس
وقت شمالی ہند میں اردو بول چال تک محدود تھی
ولی دکنی نے پہلے پہل زبانوں کی دو
شاخوں یعنی گوجری اور دکنی جو کہ اس وقت رواج دیں ،میں کام کیا لیکن ان میں سے ایک
بھی ولی کے تصورات فکر اور فن کے مطمع لی حامل نہ ہو سکی لہٰذا اس نے اپنی لسانی
لیاقت اور صلاحیتوں کی مدد سے فارسی اور ہندی کے امتزاج میں ایک توازن قائم کرکے
زبان اور شاعری کو نیا رنگ روپ دیا۔ زبان کا یہ نیا روپ ادب کے لئے اتنا موزوں
ثابت ہوا کہ اس نے تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کر لی اور اس طرح جنوب و شمال میں
ادبی زبان کی حیثیت سے رواج پا گیا۔ ولی فارسی زبان و ادب میں مہارت رکھتا تھا
لہذا زبان و ادب جب میں اپنی غیر معمولی صلاحیت کو اس نے تصویر کشی جمال یار کے
جزئیات اور اہم پہلو کو ابھارنے اور واضح کرنے میں کچھ زیادہ ہی کام لیا ہے۔ اس کی
قوت متخیلہ کے کرشموں سے اس کے اہم تجربے اور گہرے مشاہدے پر روشنی پڑتی ہے اور
ساتھ ساتھ اس کے دل کی گہرائیوں اور عقل اور خرد کی پہنائیوں کا بھی اندازہ ہو
جاتا ہے ۔
ولی کی شاعری میں اس کی تشبیہ و
استعارہ کا ایک الگ اور طویل باب ہے۔ اس نے مروجہ تشبیہوں اور استعاروں کو اپنی
جدت طبع سے تازگی بخشی ہے اور ان کے علاوہ اس کے ذہن نے نئی تشبیہیں اور نئےا ستعارے
وضع کر لیے ۔ ولی دکنی حسن فطرت کی رعنائیوں سے بڑی واقفیت رکھتا تھا لہذا اس نے
اپنے محبوب کے حسن کو حسن فطرت کے مشاہدے کے ذریعے واضح کرنے کے بارے میں اس طرح
کی تشبیہات اور استعاروں سے کام لیا ہے اور شاعری میں قابل تحسین کام انجام دیا
ہے ہے اسی طرح لینے علمی ادبی و فنی اصطلاحوں اور ناموں کو تشبیہ اور استعارے اور
رعایت کے طور پر استعمال کیا۔
ولی کو علم معانی و بیان سے بھی بڑا شغف
تھا اس نے صنائع و بدائع کے استعمال میں اپنے کمال کے جوہر دکھائے ہیں۔ان میں
ایہام کا استعمال اس کی امتیازی خصوصیت ہے ۔اس نے اس کا استعمال ایسی سلیقہ مندی
سے کیا ہے کہ اردو شاعری کے ارتقا میں ایک حد تک رکاوٹ پیدا ہو گئی ۔ جس کو اساتذہ
فن نے بہت جلد محسوس کیا اور اس کے خلاف مہم چلائی ولی کے فن کمال میں اشاریت کو
خصوصیت حاصل ہے اسی رمز و ایماکی وجہ سے تازگی نظر آتی ہے ولی دکنی نے اس کے علاوہ
دوسری علامتوں سے بھی خوب فائدہ اٹھایا ہے۔
ولی دکنی زبان خاص پر قدرت رکھتا تھا
اور لفظوں کے ظاہر و باطن سے خوب واقف تھا یہ لفظوں کے ظاہری حسن ر توجہ دیتا ہے
مگر لفظوں کے مختلف مفاہیم اور ان کی رمزیت پر زیادہ زور دیتا ہے۔
ولی دکنی کے شاعری کے شعری نغمے موسیقی کی خوبصورت مثال ہیں
وہ موسیقیت پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے اس کے ہاں لفظوں کے آہنگ
اور ان کے اتارچڑھاؤ خیال سے سے ہم آغوش ہوتے ہیں قافیے اور ردیف و کا انتخاب ان
کے خیالات کی مناسبت سے کرتا ہے اس کے کلام میں ترنم اور شگفتہ پن کی ایک بڑی وجہ
بھی یہی ہے اسی طرح کلام میں موسیقیت کا راز اس کی مترنم بحروں میں بھی مضمر ہے۔
اگرچہ اساتذہ کے زیر اثر اس نے طویل بحث و میں بھی شگفتہ غزلیں کہی ہیں مگر خفیف
بحروں میں اس کا کلام زیادہ شگفتہ پایا جاتا ہے۔
ولی کا شاعری میں اپنا ایک خاص طرز فکر
ہے اور اسی کی نسبت سے اس کا خاص لب و لہجہ اور رنگ بنتا ہے جو اس کو منفرد قرار
دیتا ہے اس حسن پر اس نے بہت زور دیا ہے اس کی اہمیت اور اس کا اظہار اس طرح کرتا
ہے کہ سکندر نہ ڈھونڈ آب حیات چشمہ فیض خوش بیانی ہے ۔
یہ بھی اس کے حسن ادا کا ایک کرشمہ ہے
کہ ولی دکنی مجازی شاعری میں حقیقت شاعری کی شان اور بلندی کا بانکپن پایا جاتا ہے
شاعری میں اگرچہ ولی کا خاص میدان حسن غزل کی صنف ہے مگر اس نے دوسرے اصناف سخن
میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور یوں اپنی قادر کلامی کا ثبوت دیا ہے اس کے قصیدے کچھ
زیادہ تعداد میں نہیں ہیں لیکن جو کچھ ہے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ اس نے کسی
بادشاہ امیر کی مدح سرائی یا خوشامد میں اپنی زبان کو آلودہ نہیں کیا بلکہ اس کے
قصیدے حمد نعت منقبت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ولی دکنی کی دو مثنویاں بھی ملتی ہیں زبان
کی سلاست اور روانی ان کی امتیازی خوبی ہے اور ان کے علاوہ ولی نے ترجیح بند قطع
اور رباعی بھائی میں بھی تھوڑا بہت کلام یادگار چھوڑا ہے ولی دکنی کی تحریروں میں رسالہ
نور معرفت بھی ہے یہ رسالہ احمد آباد کے ایک صوفی عالم دین نور الدین سہروردی جا
کہ گیارہ سو پچپن میں وفات پاگئے ان کی توصیف و تعریف میں ہے
غرض ولی کا کلام کسی پہلو سے بھی
دیکھا جائے تو قابل ستائش ہے اس نے فکر و فن کی ہم آہنگی سے ایک ایسا اچھوتا سا
نمونہ پیش کیا کہ یہ اردو غزل کا نیا آہنگ قرار پایا اور اس کسی کے زمانہ حیات میں
اس آہنگ نے امام مقبولیت کا تمغہ بھی حاصل کر لیا ولی کے کلام سے اس کی شہادت ملتی
ہے۔اسی ظرح ہر دور کے اساتذہ فن نے اس کی
رہنمائی کو باعث فخر سمجھا جس کا اقرار اس طرح کیا گیا ہے
حاتم
حاتم یہ فن شعر میں کچھ تو بھی کم
نہیں
لیکن ولی ولی ہے جہانِ سخن کےبیچ
آخر میں ولی دکنی کے متعلق اردو کے
ایک زبردست نقاد جناب امداد امام اثر صاحب کی رائے ملاحظہ کیجئے جو بہت جامع اور وقیع
ہے
غزل گوئی کے اعتبار سے ولی اول درجے
کے شاعر تھے جو غزل گوئی کے تقاضے تھے ان سے ولی دکنی کو پوری اطلاع حاصل تھی
چنانچہ غزل گوئی میں بیشتر شاعری کا داخلی پہلو پیش نظر رکھتے ہیں اس لئے ان کی
غزل سرائی پر تاثیر نظر آتی ہے ہے۔ولی کے کلام میں درد ،میر تقی میر،مصطفی، ذوق،
ناسخ، آتش سب کے رنگ بکثرت موجود ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر قوی دماغ شاعر
تھے جو ہرنوع کے کلام پر قدرت تامہ رکھتے تھے حقیقت یہ ہے کہ شاعری میں مابعد کے
جتنے متغزلین موجد اس طرز کے کہلاتے ہیں درحقیقت وقت اسی پیر طریقت کے مرید ہیں
بشکریہ
(کاشف الحقائق )