Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی سحرالبیان-خصوصیات-فنی جائزہ|Masnavi Sehr-ul- bayan ki Khoobian

 
مثنوی سحرالبیان-خصوصیات-فنی جائزہMasnavi Sehr-ul- bayan ki Khoobian fikri o fani jaiza
masnvi sahar ul bayan ki Khsoosyat

 سحرالبیان کا فکری و فنی جائزہ


مثنوی سحرالبیان کاشمار اردو کی مشہور مثنویوں میں ہوتا ہے۔اس میں میرحسن کی فنی مہارت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔کہانی میں اگر چہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب،منظرنگاری، کردار نگاری،طلسمی فضا اور ایسی بہت سی باتوں نے مثنوی سحرالبیان کو امراور میر حسن کو اردو ادب میں بحثیت شاعر زندہ

 جاوید کردیاہے۔آئیے سحرالبیان کی ان خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں جو اسے اردو

 مثنوی نگاری کے باب میں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔اور اس میں کون سے

 اسقام پائےجاتے ہیں۔

 

مثنوی سحر البیان کی کردار نگاری


کی بھی کہانی میں سب سے اہم چیز اس کے کردار ہوتے ہیں۔ایک کامیاب فن پارے کے لیے ضروری ہے کہ عام کرداروں سے لیکر اہم کرداروں تک ۔خاص توجہ دی جائے۔تاکہ ہر کردار واضح نظر آئے اور ایک دوسرے میں گڈمڈ نہ ہو۔مثنوی سحرالبیان کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ میرحسن کردار نگاری کے ماہر ہیں اور الفاظ سے ایسا روپ دیتے ہیں کہ وہ حقیقی زندگی کا چلتا پھرتا کردار دکھائی دیتا ہے۔مثنوی کے کردار شہزادہ بے نظیر،شہزادی بدرمنیر،وزیر زادی نجم النسا،پری ماہ رخ،جنوں کے بادشاہ کا لڑکا فیروز شاہ ایسے کردار ہیں جو اپنی خاص پہچان کے باعث مثنوی کے قاری کی ذہن میں مدتوں محو نہیں ہوتے۔اگر بے نظیر  ایک عاشق صادق کی چلتی پھرتی تصویر ہے تو بدر منیر بھی روایتی معشوق کی ادائیں رکھنے کے باوجود دل و جان سے اسے چاہنے والی محبوبہ ہے جو اس کی جدائی میں تن من کی سدھ بدھ کھو دیتی ہے۔مثنوی سحرالبیاں میں نجم النسا اور فیروز شاہ کے کردار بھی جان دار ہیں اور سچے اور جاں نثار دوست کی مثال پیش کرتے ہیں۔ماہ رخ کا کردار جوکہ منفی خصوصیات کا حامل ہے۔اسے ظام و جابر اور خود غرضی کا پیکر بنانے میں بھی میر حسن کامیاب رہے ہیں۔


 سحرالبیان کا اسلوب


مثنوی سحرالبیان سادگی اور سلاست کی عمدہ مثال ہے۔یہ قصہ اگر چہ اشعارمیں بیان کیا گیا ہے لیکن اس کی زبان اتنی سادہ ہے اور انداز بیاں ایسا بے ساختہ ہے کہ پڑھنے والے کو نثر سے زیادہ لطف دیتا ہے اور  سہل محسوس ہوتا ہے۔اس کے اشعار سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہیں۔شاعر نے مثنوی کے لیے بحر متقارب مثمن محذوف (فعولن فعولن فعولن فعل) استعمال کی ہے۔جو کہ رواں دواں بحور میں شمار ہوتی ہے اس کی روانی مثنوی کی اثرآفرینی میں مزید اضافہ کا باعث بنی ہے۔۔یہ مثنوی دہلوی اندازتحریر کی عمدہ مثال ہے۔یہ میر حسن کے زبان و بیاں کا کمال ہے کہ مثنوی سحر البیان کی زباں عصر حاضر کی زباں محسوس ہوتی ہے۔

 

 تشبیہات و استعارات کا استعمال


میر حسن نے فضول عبارت آرائی  سے اجتناب کیا ہے ۔اشعارکو دلکش بنانے کے لیے نامانوس اور بھاری بھرکم الفاظ کا سہارا لینے کی بجائے خوب صورت تشبیہات اور استعارات سمیت مختلف صنعتوں کا سہارا لیا ہے۔اس خوبی نے مثنوی کے مجموعی تاثر پر بھی مثبت اثر ڈالا ہے۔

ہوا قطرہءآب یوں چشم بوس

کہے تو پڑی جیسے شبنم پہ اوس


 سحرالبیان کی منظر نگاری


یہ مثنوی  منظر نگاری کی عمدہ مثال ہے۔میر حسن الفاظ سے تصویر بنانے اور اس میں زندگی کے رنگ بھرنے والےمصور ہیں۔ان ہاں جابجا خوب صورت منظر کشی ملتی ہے۔مثال کر طور پر شاہزادہ بے نظیر کی سواری شہر میں نکلنے کا منظر،رات کو شہزادے بے نظیر کے چھت پر سونے کے سلسلہ میں اردگرد کے ماحول کی منظرنگاری۔شہزادی بدرمنیر کے باغ کا منظر وغیرہ میر حسن کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

باغ کی تیاری کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیں


چقیں اور پردے بندھے رزنگار

دروں پہ کھڑی دست بستہ بہار

کوئی ڈور سے در پہ اٹکا ہوا

کوئی زہ پہ خوبی سے لٹکا ہوا

 

 تہذیب و تمدن کی جھلکیاں


کوئی بھی فن پارہ اپنے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے جس سے اس دور کے رجحانات،سوچ،رسوم و رواج کا پتہ چلتا ہے۔میر حسن کی مثنوی سحر البیاں بھی اپنے اندر معاشرتی رسوم و رواج،رہن سہن کا ایک خزانہ سمیٹے ہوئے ہے۔مصنف نے اگر چہ ایک خیالی کہانی پیش کی ہے لیکن اس کے کردار،گلی کو چے،عوام کے لباس،ان کے کھانے پینے،سونے جاگنے،خوشی و غم سبھی میں ہندوستاں کی مٹی کی خوشبو ہے۔اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں بادشاہوں کے دربار کیسے ہوا کرتے تھے۔شاہی سواری کیسے نکلتی تھی ۔۔بادشاہ خوش ہوکر کیسے انعام و اکرام کی برسات کرتے تھے۔تب باغ کیسے سجائے جاتے تھے۔شادی بیاہ کی رسمیں بھی سحرالبیان میں ہندوستانی معاشرہ  کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔شاعر بات چاہیے کوہ قاف کی کرے تہذیب و تمدن ہندوستان کی دکھائی دیتی ہے۔شاہزادے،وزیر زادی،کنیزیں،درباری سب قدیم دور کے ہندوستان کے طرز معاشرت کی جھلکیاں ہے جن کو شاعر نے اپنی فن کاری سے مثنوی کا حصہ بنادیا ہے۔

حکم چند نیر لکھتے ہیں کہ

 

ان کے مطالعے سے اس دور کی زندگی اور معاشرت کو سمجھاجاسکتا ہے۔ ان سے مسرت ،عبرت اور بصیرت حاصل کی جاسکتی ہے

(مثنوی سحر البیان ص 41)

 

 سحرالبیان کا مکالماتی انداز


شاعر نے مثنوی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے مکالماتی اندازاختیار کیا ہے ۔اس سے کہانی میں کردار مزید اجاگر ہوئے ہیں۔اس سے ان کے احساسات و جذبات کی عکاسی میں آسانی پیدا ہوئی ہے اور مثنوی کے تاثر میں اضافہ ہواہے  اور کہانی کے منطقی انداز میں آگے بڑھنے میں مدد ملی ہے۔


کہے سے ہمارے نہ مانو گی تم

جو دیکھو گی آنکھوں سے جانو گی تم

 

 جذبات نگاری


کسی بھی کہانی میں جذبات و احساسات اس کی اثر آفرینی میں اہم  کردار ادا کرتے ہیں۔میر حسن درست موقع پر درست جذبات نگاری کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔اور اس کا موثر استعمال کرتے ہیں۔مثنوی میں پری ماہ رخ کا شاہزادے بے نظیر اور بدر منیر کے عشق کا سن کر اگ بگولہ ہوجانے کے منظر میں کردار کی طرف سے ردعمل اور جذبات کا اظہار نہ صرف فطری ہے بلکہ کردار کی خود غرضی کاعکاس  بھی ہے۔اسی طرح شاہزادے کے قید ہو جانے پر شہزادی بدر منیر کا سدھ بدھ کھو دینا اور گریہ زاری ایک محبت کرنے والے دل کی بہترین عکاسی ہے۔شاہزادی کے دکھ میں اس کی سہیلی وزیرزادی کے رورو کر ہلکان ہونا مثنوی میں حقیقت سے تجاوز کرتا دکھائی دیتا ہے۔شاہزادے بے نظیر اور بدر منیر میں رازو نیاز کی باتیں اور پیارو محبت مثنوی میں جزبات نگاری کی عمدہ مثال ہے

بدر میر کی بے قراری اور غم کا بیاں

 

جہاں بیٹھنا آہ کرنا اسے

بہانہ نزاکت پہ دھرنا اسے

کبھی خون آنکھوں سے رو ڈالبا

کسی کو کبھی دیکھ دھو ڈالنا

 

سحرالبیان کاسبق آموز پہلو


مثنوی سحرالبیاں اگرچہ عشق و محبت کی روایتی داستاں ہے تاہم اس کا انجام یہ واضح کرتا ہے کہ جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ظلم و ستم کرنے اور دوسروں کا حق چھیننے والی قوتیں آخر کا نشانہ عبرت بنتی ہیں۔ سحر البیان سے یہ اخلاقی پہلو بھی برآمد ہوتا ہے کہ مصیبت میں دوسروں کے کام انا چاہیے جیسا کہ نجم النسا اور فیروزشاہ نے کیا۔ مثنوی میں سچی دوستی کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔


سحر البیان میں توہم پرستی کی مثالیں


مثنوی سحرالبیان میں توہم پرستی کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں۔جو قاری کر خوش گوار اثر نہیں چھوڑتیں۔ایسی تحریریں پڑھمے والوں کی اوہام کا شکار اور نفسیاتی مریض بنا دیتی ہیں۔تاہن کیانی سے یہ علم ہوتا ہے کہ گزرے دور میں لوگ کس طرح توہم پرستی کا شکار تھے۔عام طبقہ تو ایک طرف بڑے بڑے بادشاہ اس کے اسیر  تھے اور ملکی امور سے لے کر نجی معاملات تک کیسے مافوق الفطرت چیزوں پر اعتقاد تھا۔بادشاہ کے گھر اولاد نہ ہونے پر نجومیوں سے مشورہ ۔اور ان کے کہنے پرشاہزادے کا بارہ برس تک کھلی فضا میں نہ لے جانا۔سب کا سب توہم پرستی کی مثالیں ہیں۔ بادشاہ کے ہاں بیٹے کی نہ پیدا ہونے پر نجومیوں کو  کو بلالینے کی ایک مثال دیکھیں

 

نکالو ذرا اپنی اپنی کتاب

مرا ہے سوال اس کا لکھو جواب

نصیبوں میں دیکھو تو میرے کہیں

کسی سے بھی اولاد ہے یا نہیں

 

سحرالبیان کی مافوق الفطرت فضا


نثری داستانوں اور مثنوی کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ وہ پڑھنے والے کو مافوق الفطرت فضا میں لے جاتی ہیں یوں اس کی تفریح طبع کا ساماں پیدا کرتی ہیں۔ سحر البیان کے  آغاز ہی میں قاری ایک طلسم میں داخل ہوجاتا ہے۔قصہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے مافوق الفطرت فضا میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔پری ماہ رخ جب اسے اٹھا کر پرستان لے جاتی ہے اس وقت مثنوی پورے طور پر ایک جادوئی ماحول میں چلی جاتی ہے۔اڑنے والاگھوڑا،دیو،شاہ جنات،فیروز شاہ سب کے سب ایسے کردار ہیں جن کا حقیحقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ قصہ کو پر لطف بنانے اور خیروشر کی جنگ میں سچ کی فتح میں کردار ادا کرکے کہانی کو نتیجہ خیز اور سبق آموز بنادیتے ہیں۔

 

 

سحرالبیان کاپلاٹ


مثنوی سسحرالبیان روایتی کہانیوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اس میں کوئی نیا پن دکھائی نہیں دیتا۔ شہزادے کا کسی شہزادی کے عشق میں مبتلا ہوجانا جو اردو فارسی کی داستاں اور مثنوی کا بنیادی موضوع رہا ہے۔ایسی کہانیاں چوں کہ بادشاہوں نوابوں کو خوش کرنے کے لیے لکھی جاتی تھیں چنانچہ ان میں شہزادوں کی مہم جوئی اور بہادری کے قصے اور بادشاہوں کی سخاوت کی داستانیں بیان ہوتی تھے۔کسی پری کا شہزادے پر عاشق ہونا،پرستان کا بیان وہ گھسے پٹے موضوعات اور واقعات ہیں جن کے دائرے میں ہر مثنوی قید ہے۔ سحرالبیان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے جس میں  ایک پر ی شہزادے بے نظیر پر عاشق ہوجاتی ہے۔جب کہ بے نظیرایک  شہزادی بدر منیر کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔مثنوی میں ایک اور عشق کی داستاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے اور یہ وزیرزادی نجم النساء اور فیروز شاہ کا عشق ہے۔مثنوی کے اختتام پر حسب دستور شہزادے کی شادی ہو جاتی ہے اور شہزادہ اپنے وطن لوٹ آتا ہے۔

درج بال بحث سے یہ بات چابت ہوتی ہے کہ پلاٹ کہ بعض نقائص کے باوجود میر حسن کی مثنوی سحرالبیاں کئی خوصیات کی حامل ہے۔یہی گونا گوں خصوصیات اسے اردو کی دیگر مثنویوں سے ممتاز کرتی ہے۔

 تحریر:پروفیسر اشفاق شاہین