Ticker

6/recent/ticker-posts

سودا کی قصیدہ نگاری۔اردو قصیدہ نگاری|Sauda ki Urdu Qasida Nigari

 

اردو میں قصیدہ نگاری کی روایت۔سودا کی قصیدہ نگاری کی خصوصیات لکھیں۔Souda ki qseeda nigari
Miza souda ki qaseeda nigari,سودا کی قصیدہ نگاری کی خصوصیات۔تحریر اسفاق شاہین

 

سودا کی قصیدہ نگاری کی خصوصییات


اردو ادب میں قصیدہ نگاری کی روایت

تحریر:پروفیسراشفاق شاہین

قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ارادہ یا قصد کے ہیں۔یہ نظم کی وہ قسم ہے جس میں کسی کی تعریف کی جاتی ہےقصیدہ کےپہلے دو مصرعوں اور ہر شعر کے آخری مصرع میں قافیہ کا التزام ہوتا ہے۔

قصیدہ کی ابتدا قدیم عرب سے ہوئی۔اور اسے وہاں سب سے بڑی شعری صنف تسلیم کیا گیا۔اس کے موضوعات میں تنوع پایا جاتا تھا۔اس وقت قصائد کا مقصد ذاتی مفادات کے لیے کسی قبیلے کے سردار کی تعریف و تحسین نہ ہوتا تھا بلکہ اس میں مناظر فطرت ،عشق و محبت اور زندگی کے مختلف پہلوبیان ہوتے تھے۔ابو محمد سحر اپنی کتاب اردو میں قصیدہ نگاری میں کہتے ہیں:

زمانہ جاہلیت کے قبائل سماج بہت غیور ہوتے تھے۔افراد کی مدح ان کا شیوہ نہیں تھا۔عربی میں مدحیہ قصائد کا آغاز بہت بعد میں ہوا۔

۔قصیدہ کے عام طور چار اجزا ہوتے ہیں۔جن میں تشبیب،گریز،مدح اور دعا شامل ہیں۔عربی قصائد کی ابتدا عشقیہ اشعار سے ہوتی تھی۔اس حصہ کو تشبیب کہتے تھے۔اس کے بعدگریز ہوتا تھا جس میں ادھر ادھر کی باتوں کے بعد سخن کو بات تعریف کی طرف موڑا جاتا تھا۔اس کے بعد مدح کے حصہ ممدوح کے اوصاف بیان ہوتے تھے۔قصیدےکا آخری حصہ  دعا پر مشتمل ہوتا تھا۔جس ممدوح کی سلامتی کے لیے دعا کی جاتی تھی۔

شبلی نعمانی لکھتے ہیں

ایران میں جب شاعری کا آغاز ہوا،عرب کی شاعری مدحیہ قصائد تک محدود تھی۔اس لیے ایرانی شعرا نے ان ہی کی تقلید کی۔(شبلی نعمانی،شعرالعجم ،جلد پنجم)

جب قصیدہ ایران میں پہنچا تو اس میں عربی انداز بیاں کی پیروی کی گئی۔ایران میں قصیدہ انہی مقاصد کے لیے لکھا گیا جو بعد میں بیشتراردو شعرا کا مطمع نظر رہا۔یعنی بادشاہوں اور امرا کو خوش کرکے ان سے انعام و اکرام حاصل کیا جائے۔ایران میں قصیدے کے اجزا بھی جوں کے توں رہے۔تاہم ان میں بیان کیے جانے والے موضوعات میں کچھ اضافہ عمل میں آیا۔عربی قصائد میں تشبیب والے حصہ میں حسن کی تعریف ہوتی تھی جب کہ ایرانیوں نے اس میں اخلاقیات اور پندو نصائح کو بھی جگہ دی۔  بعد میں یہ خصائص بعینہ اردو میں منتقل ہوگئے۔۔یہاں تک کہ انداز بیاں، تراکیب سبھی کی سبھی اردو میں در آئیں اور وہ بھی کچھ اس شکل میں کہ ایک شاعر کے رنگ کو دوسرے جے رنگ سے جدا کرنا دشوار ہوگیا۔قدیم فارسی قصیدہ گو شعرا میں انوری،معری نیشا پوری، روفی،نظیری،عرفی اوراور قدسی وغیرہ شامل ہیں۔

اردو میں جس طرح شاعری کا نقطہ آغاز دکن کو قرار دیا جاتا ہے اسی طرح اردو قصیدہ کی ابتدا بھی دکن ہی منسوب ہے۔جس طرح اردو کا پہلا شاعر قلی قطب شاہ کو قرار دیا جاتا ہے اسی طرح اردو کا پہلا قصیدہ گو شاعر بھی اسی کو بتایاجاتا ہے۔ بعد میں آنے والے قصیدہ گو شعرا میں عاشق،مقیمی وغیرہ شامل ہیں۔اس کے بعد اردو کے ابتدائی شعرا میں اہم نام ولی دکنی کا ہے۔ولی وہ شاعر ہیں جنہوں نے اردوشاعری کو نہ صرف آسان اور شستہ الفاظ میں ڈھالا بلکہ قصیدہ میں اخلاقی رنگ بھی پیدا کیا۔ اردو کے دیگر قدیم قصیدہ گووں میں نظامی،مشتاق،کمال ،رستمی،نصرتی شامل ہیں۔

مرزا سودا کی ابتدائی زندگی اور سودا کا دور

مرزا محمد رفیع سودا اردو کے اہم شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ان کا اصل نام مرزا محمد رفیع جب کہ تخلص سودا تھا۔ان کی ولادت کے سن کے سلسلہ میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد نے ان کا سن پیدائیش 1125ھ تحریر کیا ہے۔بعض روایات میں یہ بھی مرقوم ہے کہ وہ 1707 میں پیدا ہوئے۔وہ نہ صرف اردو غزل کے اہم کلاسیکل شاعر ہیں بلکہ قصیدہ نگاری میں بھی خاص مقام کے حامل ہیں۔مرزا سودا کے اباو اجداد کے متعلق بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔بعض مورخین کے مطابق ان کا وطن کابل ہے جب کہ کچھ تحقیق کار انہیں بخارا کا بتاتے ہیں ۔آپ کے اباواجداد یہاں فوج سے وابستہ رہے۔سودا کے دور میں ہندوستان پر انگریزوں کا اس قدر غلبہ نہیں تھا۔اہل فن درباروں سے منسلک تھے اور شاہی درباروں کی رونقیں ایک حد تک برقرار تھیں۔قیام الدین قائم اپنی کتاب مخزن نکات میں آپ کا سن پیدائش1107ھ ہی تحریر کیا ہے۔سودا کو ابتدا ہی سے فارسی کے ساتھ خاص شغف تھا ۔اپنی شاعری کا آغاز انہوں نے فارسی کے کلام ہی سے کیا۔مرزا کی ابتدائی راہائش کے بارے میں لکھتے ہوئے مولانا محمد حسین آزاد آب حیات میں کہتے ہیں کہ

سودا نے دہلی میں پرورش پائی،کابلی دروازہ کے علاقہ میں ان کا گھر تھا۔

خلیق انجم اپنی کتاب مرزا محمد رفیع سودا میں ان کی شاعری کی ابتدا اور ادبی و عوامی حلقوں میں شناسائی کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

مرزا کو ریخت گو شاعر کی حثیت سے 1154ہجری سے مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔

اس سے پہلے مرزا فارسی میں شعر کہتے تھے ۔ان کی فارسی گوئی کے حوالے سے ان کے ابتدائی اشعار سے بھی شواہد ملتے ہیں۔ابتدائی زندگی میں کسی شاعر سے اپنی فارسی شاعری پر اصلاح کی خواہش کاذکر اشعار میں یوں کرتے ہیں۔

میں اک فارسی داں سے کہا کہ اب مجھ کو

ہوئی ہے بندش اشعار شعر فرس ذہن نشیں

جو آپ کیجے اصلاح شعر کی میرے

نہ پایئے غلطی تو محاورہ میں کہیں

تذکرہ نگار میرزا سودا کے چار استاد بتاتے ہیں۔لیکن شیخ چاند انہیں صرف حاتم کا شاگرد کہتے ہیں۔

سودا کی قصیدہ نگاری

اردو زبان اورشاعری کا عروج اس دور سے شروع ہوتا ہے جب اقلیم شعرو ادب میں میں میرتقی میر،میرزا محمد رفیع سودا اور ان کے معاصریں نے قدم رکھا۔اس زمانہ میں اردو کے بے مثال شعرا کا ایسا گل دستہ سامنے آتا ہے کہ جس نے اپنی مہک سے آنے والے ادوار کو مہکایا بھی اور شعر و ادب کے لیے نئے راستے بھی متعین کیے۔اسی دور میں شعرا کے درمیان ادبی و شعری معرکے بھی وجود میں آئے ۔اردو ادب میں غزل کے ساتھ ساتھ قصیدے کو بڑی ترقی ملی۔سودا کے دور سے لے کر بہادر شارہ ظفر کی حکومت کے خاتمہ تک شعرا کی ایک بڑی تعدا دربار سے منسلک رہی اس کے ساتھ ساتھ مختلف نوابوں کے درباروں سے بھی بیسیوں شعرا وابستہ رہے اور نوابوں اور شہنشاہوں سے انعام و اکرام پانے اور درباروں میں درجہ حاصل کرنے کے لیے قصائد لکھتے رہے۔یوں اردو قصیدہ کو خوب فروغ حاصل ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دور ہی قصیدہ کے فروغ کا سنہری زمانہ کہا جاسکتا ہے۔اس کے بعد قصیدے کو اردو ادب میں وہ پذیرائی حاصل نہ ہوپائی ۔اردومیں سودا کی قصیدہ نگاری کو خاص مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ وہ فارسی قصیدہ نگاروں کے اصل پیروکار تھے۔اس دور میں ان کے معاصرین نے بھی اس صنف میں طبع ازمائی کی مگر الفاظ کے چناو اور انداز بیان سے جیسے جوہر مرزا سودا نے دکھائے اور قبولیت پائی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔نقاد ان کے بعد استاد ذوق کو بڑے قصیدہ نگار کا درجہ دیتے ہیں۔اردو کے بیشتر ناقدین نے مرزا سودا کو اردو قصیدے کا امام قرار دیا ہے۔اگر چہ سودا نے غزل میں بھی طبع ازمائی کی مگر جو مقام انہیں قصیدے نے دیا اس نے ان کی غزل کوقاری کے دل سے محو کر کرڈالا۔خودمرزا سودا کو بھی اس امر کا بخوبی علم تھ اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں

لوگ کہتے ہیں کہ سودا کا قصیدہ ہے خوب

ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاوں گا

اردو بے بڑے بڑے نقاد قصیدہ کے حوالے سےآج بھی مرزا سودا کا لوہا مانتے ہیں۔کچھ ناقدین ان کی غزل پر ان کے قصیدہ کو فوقیت دیتے ہوئے انہیں فقط قصیدہ گو شاعرمانتے ہیں۔اردو کے ایک معتبر شاعراورتذکرہ نگار اپنی کتاب گلشن بے خار میں سودا کی قصیدہ نگاری کے بارے یوں تحریر کرتے کہ :

اس کی غزل قصیدہ سے بہتر اور قصیدہ غزل سے

حقیقت بھی یہی ہے کہ شمالی ہند میں مرزا سودا ہی نے قصیدہ کو سب سے پہلے سنجیدگی سے موضوع سخن بنایا اور بام عروج پر لے گئے۔شعروادب میں جب بھی اردو قصیدہ کی بات چلے مرزاسودا کے ذکر ک بغیر مکمل نہیں ہوگی۔ اردو کے نقاد رام بابو سکسینہ اپنی کتاب تاریخ ادب اردو میں لکتے ہیں

اس کے قصائد فارسی کے بڑے بڑے شاعروں کی ٹکر کے ہیں اور بعض تو خاقانی اور عرفی کی معرکہ آرا قصیدوں کو بھلا دیتے ہیں۔

مرزا سودا کی قصیدہ نگاری کی اہم خوبیاں

فارسی شعرا کی زمینوں میں سودا کی قصیدہ نگاری

قصیدہ اگر چہ قدیم عربی صنف سخن ہے لیکن اردو میں لکھے جانے والے قصیدہ پر فارسی کی چھاپ گہری ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اردو شاعری فارسی شاعری کی رہین منت ہے۔ مرزا سودا نے بھی قصیدہ کے سلسلہ میں فارسی انداز سخن کی خاص طور پر پر پیروی کی ہے۔یہاں تک کے ان کے کئی قصائد معروف فارسی شعرا کی زمیں میں ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

اٹھ کیا بہمن و ۔۔۔۔۔۔۔

منکر خلا سے کیوں نہ۔۔۔۔۔۔

نثار اشک من۔۔۔۔۔

تا کجا شرح۔۔۔۔

سودا:بادشاہوں ،نوابوں اور اسلامی مشاہیر کا قصیدہ گو

مرزا محمد رفیع سودا نے مشاہیر اسلام کے قصیدے بھی لکھے ہیں ۔جن میں حضرت محمدؐ،حضرت فاطمہ اوردیگر بزرگان دین شامل ہیں۔

فارسی اوراردو میں قصیدہ عام طور پر بادشاہوں اور نوابین کی تعریف کے لیے مشہور ہے۔دربار میں ملازمت کے حصول اور بادشاہوں سے انعامات کے حصول کی خاطر عام طور پر یہ فن اختیار کلیا جاتا تھا۔مرزا سودا نے بھی ایسے بہت سے قصائد تحریر کیے جن میں شاہ عالم،عالم گیر ثانی،آصف الدولہ نواب سیف الدولہ،نواب عماد الملک،آصف جاہ سرفارز الدولہ سیمت بہت سے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔گویا سودا کی قصیدہ نگاری میں موضوعات کی رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔

تشبیب

تشبیب کسی قصیدے کا ابتدائی حصہ ہوتا ہے ۔یہ قصیدے کے چاراجزا میں سے ایک ہے۔اس کا ممدوح کی تعریف سے تعلق نہیں ہوتا اس میں موضوعات کی رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔یہ شاعر کی صوابدید اور اس کے زورطبع پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے قصیدے کا آغاز کس طرح کرتا ہے۔تشیبیب سے کسی شاعرکی قابلیت کا پتہ چلتاہے اور ساتھ ہی اس سے قصیدے میں دل چسپی کا عنصر پیدا ہوتاہے۔مرزا سودا کے قصائد میں تشبیب ان کی نکتہ آفرینی اور موضوعات کے تنوع کی نشان دہی کرتی ہے۔میزا محمد رفیع سودا نے ان تمام موضوعات پر طبع ازمائی کی ہے جو فارسی میں موجود تھے۔انہوں نے اپنے فن سے اسے خاص رنگ عطا کیا ہے۔وہ اپنے قصائد میں قناعت اورمحبت انسانیت اور دیگر اخلاقی صفات پر عمل کرنے کی تلقین بھی کرتےہیں۔تشبیب میں شعرا کا خاص میلان بہاریہ اشعار کہنے کی طرف رہا ہے۔مرزا غالب نے بھی تشبیب میں اسے استعمال کیا ہے۔مرزا سودا نے مختلف قصائد کہتے ہوئے اس میں اپنی فنی مہارت دکھائی ہے۔سودا کی قصیدہ نگاری سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں

سجدہ شکر میں ہے شاخ ثمردار۔۔۔۔

دیکھ کر باغ میں۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے ایک قصیدے میں انہوں نے خوشی کو ایک زہد شکن حسینہ بتایا ہے۔اور اس بیان میں انہوں نے ایسی فضا پیدا کی ہے کہ پڑھنے والابھی اس حسینہ کا عاشق ہوجاتاہے۔

گریز

قصیدے میں کسی بادشاہ،نواب یا کسی بھی ہستی کی کی مدح کلام کے آغاز میں مناسب خیال نہیں کی جاتی چنانچہ تشبیب میں مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوئے  رخ اصل کی طرف موڑاجاتا ہے۔وہ بھی اس طرح کہ گویا قدرتی طور پر مدح کا سلسلہ چل نکلے۔بات سے بات پیدا کرتے ہوئے اصل مدعا کی طرف جانے کو گریز کہا جاتا ہے۔اس میں کسی شاعر کی فن پر گرفت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔تاکہ بات بنتے بنتے بگڑ ہی نہ جائے ۔مرزا سودا اس حوالے سے پوری مہارت دکھاتے ہیں لگتا ہے گویا ممدوح کی بات ایسے ہی نکل آئی ہے۔

مرزا سودا حکیم محمد کا ظم کا قصیدہ کہتے ہوئے ۔بطور طبیب ان کے امراض کی تشخیص کے طریقہ اور بحثیت معالج ان کی خوبیا ں گنواتے ہوئے کہتے ہیں

قائدہ یوں ہے کہ پھر اس کے آگے ہے شفا اس کے ہاتھ

جس کے ہے قبضہ قدر میں علاج عالم

سوتو ان باتوں میں ہے خوض طبیبوں میں کسے

اس زمانے میں بجز میر محمد کاظم

مرزا سودا کی قصیدہ نگاری کی ایک اہم خوبی ان کے انے قصائد کے پر کشش مطلعے ہیں جو قاری کی توجہ فوری طور پر اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔سخن آگاہ جانتے ہیں کہ غزل اور قصیدہ کا پہلا شعرلکھنا دیگر اشعار کی نسبت نہایت مشکل کام ہے۔سودا نے اس کار دشوار کو ہمیشہ باآسانی انجام دیا ہے۔ڈاکٹر ام ہانی اشرف اپنی کتاب اردو قصیدہ نگاری میں لکھتے ہیں

سوودا کے اس تخلیقی کارنامے کی سب سے بڑی خوبیررفعت خیال اور زوربیاں سے سجے ہوئے قصائد کے مطلعوں کی برجستگی ہے۔عام طور پر یہ مطلعے نہایت پرکشش اور خیال انگیز ہوتے ہیں

مدح

مدح قصیدے کا اہم ترین حصہ ہے۔اس میں شاعر جس کا قصیدہ لکھاجارہا ہے اس کی خوبیاں بیان کرتا ہے۔مولانا شبلی نعمانی مدح کے بارے میں لکھتے ہیں

شرط ہے کہ جس شخص کی مدح کی جائے درحقیقت وہ مدح کے قابل ہو۔

وہ اپنی کتاب  میں مزید لکھتے ہیں کہ جس کی تعریف کی جائے اس میں وہ خوبیاں پائی جائیں۔اور تعریف اس طرح کی جائے کہ وہ جذبات بڑھکانے کا باعث نہ ہو۔

سچ یہ ہے کہ اردو اور فارسی میں جتنے بھی قصائد ہیں ان میں سے زیادہ تر امرا کی تعریف میں ہیں اور اس لیے لکھے گھئے کہ کچھ مالی منفعت حاصل ہو یا باد شاہ کے دربارسے وظیفہ شروع ہوجائے یا کسی نواب کے در تک رسائی ہو۔چنانچہ ممدوح کی ان خصوصیات کا ذکر کیا جاتا رہا ہے جو سرے سے اس میں موجود ہی نہیں تھیں۔کنجوس سے کنجوس کو سخی بتا یا جانا اور بددیانت نوابوں اور فرمارواوں کو دیانت دار کرکے پیش کرنا قصیدے کی روایت رہا ہے۔اگر مرزا سودا کے قصائد پر نظر کی جائے تو دیگر خصوصیات کے ساتھ ساتھ یہ خامی بھی دکھائی دیتی ہے۔ اگر مولانا شبلی نعمانی کے معیار کو نظر میں رکھا جائے تو اردو کا شاید ہی کوئی قصیدہ اس پر پورا اتر سکے۔سودا کے قصائد میں ان کی مدح کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

نواب آآصف الدولہ کی مدح میں کہے گئے اپنے قصیدے میں وہ کہتے ہیں

سخا میں حاتم طائی کو تجھ سے کیا نسبت

مرے سخن کو یقین ہے کہ زباں زد عام نہیں

نواب احمد علی خاں کے لیے کہے گئے قصیدہ میں سودا لکھتے ہیں

غنچہ کی بھی گرہ میں  بند کیا

ان کی بخشش نے مشت زر کے تئیں

انہوں نے مہربان خاں رند کی مدح میں جو قصیدہ کہا ہے اس میں مہرباں خاں کی شخصی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کے ساز و ساماں مثال کے طور پر اس کے تلوار،گھوڑا،کمان،تیر وغیرہ کے بھی مدح کی ہے۔گویا بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں مرزا سودا کسی بھی قصیدہ گو سے پیچھے نہیں ہیں۔گویا سودا کی قصیدہ نگاری میں بھی یہ نقص پایا جاتا ہے ۔مرزاسودا بھی اس دور کے دیگر شاعروں کی طرح درباروں سے وابستہ رہے اور ملازمت برقرار رکھنے اور مفادات کے حصول کی خاطر قصیدہ میں مبالغہ آرائی پر مجبور ہوئے۔اور ممدوع کی خوبیاں یوں بیاں کی کہ اپنے ہمک عصر شعرا کو پیچھے چھوڑ دیا۔

 

حسن طلب اور دعا

قصیدے کا آخری جزو دعا اور حسن طلب ہے۔شاعر یہاں اپنے ممدوح کے لیے دعا اس کی صحت سلامتی ،شان و شوکت اوراس کے بلند اقبال رہنے کی دعا بھی کرتا ہے اور اس سے کچھ طلب بھی کرتا ہے۔مثال کے طور پر بزرگان دین سے قصیدہ گو دعا مانگتے ہیں جب کہ امرا سے مال و زر طلب کرتے ہیں۔لیکن ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہمعصر قصیدہ گو شعرا کی طرح ہر ایک کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ انہیں اس عمل سے ہچکچاہٹ اور خفت محسوس ہوتی ہے۔انہوں نے دست سوال دراز کیا ہے مگر کم کم کے سامنے۔سودا کے اسی رویہ کے بارے میں اردو کے نقاد خلیق انجم اپنی کتاب مرزا محمد رفیع سودا میں لکھتے ہیں۔

سودا کا حسن طلب بہت کمزور ہے۔اگر چہ وہ قصیدہ نگار ہیں لیکن دست طلب دراز کرتے انہیں شرم محسوس ہوتی ہے۔۔مرزا سودا نے صرف غازی الدین وزیر،آصف الدولہ اور سرفراز الدولہ کے سامنے ہاتھ پھیلایا ہے۔

درج بالا بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا محمد رفیع سودا کو قصیدہ نگاری کے فن میں غیر معمولی لیاقت حاصل تھی۔انہوں نے اس صنف سخن میں اپنی افتاد طبع اور نکتہ آفرینی سے دل کشی پیدا کی۔ان کے ہاں بادشاہوں اور نوابین کی مدح کے ساتھ ساتھ مشاہیر اسلام کی تعریف بھی ملتی ہے۔اس سےقطع نظر کہ ان کی غزل شوخ مزاجی اور ایہام گوئی کی روشکا شکار ہے، قصدیدہ نگاری میں ان کے ہاں اخلاقی مضامیں بھی پائے جاتے ہیں۔ان نے ہمعصر شعرا میں سے اکثر کے قصائد پڑھ کر لگتا ہے کہ اس دور کی زبان قصیدہ گوئی کے لیے تراکیب اور لفاظی کی متحمل نہیں مگر مرزا سودا نے جس طرح اپنے قصیدے کو فارسی کے ہم رنگ کیا اور فارسی قصیدہ نگاروں کی پیروی کی،یہ تائثر دور ہو جا تا ہے کہ اردو اس دور میں قصیدہ گوئی کے لیے موزوں نہ تھی۔ ان کی بطور قصیدہ نگار فنی عظمت ہے کہ آج بھی نقاد سودا کا شمار اردو کے نام ور قصیدہ نگاروں میں کرتے ہیں۔ فارسی قصیدے کی پیروی کی وجہ سے تذکرہ نگاروں اور ناقدین نے انہیں بڑے بڑے فارسی سخن وروں کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔مرزا قتیل چہار شربت میں تحریر کرتے ہیں

سودا کا رتبہ قصائد میں ظہوری کے برابر ہے