Ticker

6/recent/ticker-posts

Poet Rahat Mailk|اردوکےعمدہ شاعراور صحافی راحت ملک

Urdu Poet Rahat Malik


تحریر:اشفاق شاہین

راحت ملک ایام گزشتہ کے ا دبی منظر نامہ کا ایک معتبر نام ہے۔ان کی شاعری فنی دست گاہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔گجرات Gujratسے تعلق رکھنے والے اس مزاحمتی شاعر نے جہاں شعر وادب میں اپنی پہچان قائم کی وہیں کالم نگاری کی صنف میں بھی اپنا مقام بنایا ۔ان کے کالم روزنامہ خبریں Daily Khabrain سمیت کئی قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہے ۔راحت ملک مزدور لیڈر بھی رہے۔ان کی زیرا ادارت پرچہ جرس بھی شائع ہوتا رہا ۔ملک صاحب کی زندگی جہد مسلسل کی طویل داستاں ہے۔وہ مقامی اخبارات سے بھی منسلک رہے۔مجھے یاد ہےمیں ان دنوں روز نامہ ڈاک گجرات سے وابستہ تھا اور ادارتی صفحہ کا انچارج تھا جب انہوں نے وہاں زاویے کے عنواں سے کالم نگاری شروع کی۔روزنامہ ڈاک کے چیف ایڈیٹر علاقہ کے معروف صحافی یونس ساقی ہیں۔جس دن وہ کالم نہ لکھ پاتے ،اپنی نظم شائع کرنے کے لیے دے دیتے تھے۔راحت ملک فن شعر کے حوالے سے بہت سخت گیر تھے۔اگر کسی شاعر کی کہیں کوئی عروضی غلطی ملتی تو علی الاعلان کہا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے گجرات  کئی شاعر ان کے سامنے کلام سے سنانے  ہچکچاتے تھے۔ بلکہ ایک دو نے تو شاعری کو ہی خیر آبا کہہ دیا تھا۔ لیکن اچھے شعر کی دل کھول کے داد دیتے تھے ۔ایک دن وہ گجرات کے اخبار روزنامہ جذبہ کے دفتر آئے ۔یہ شاید 1994کی بات ہے۔اس وقت جذبہ کا دفتر جیل چوک کے قریب عثمان پلازہ ہوا کرتا تھا۔بعد میں ایک عرصہ وہاں روز نامہ ڈاک دفتر بھی رہا۔میں نے ایک غزل جو کہ اخبار میں چھپنے کے لیے کسی نے بھیجی تھی ان کے سامنے اس کی تقطیع کی۔انہوں نے حیران ہوکر میری طرف دیکھا،کہنے لگے یہ تم نے کہاں سے سیکھی ہے۔میں نے عرض کیا لاہور سے کتابیں لایاتھا ان کو رٹ رٹ کے سیکھا ہے۔ ۔راحت ملک اخبار کے دفتر کاتبوں سے اپنے پرچہ جرس کی کتابت کے سلسلہ میں آتے تووہاں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی  ماضی کے قصے چھیڑ دیتے۔ گئے  دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے  بتایا کرتے تھے کہ وہ مولاناظفر علی خاں کے اخبار زمیندار کے نیوز سیکشن میں ملازم تھے۔ وہ یہ بھی کہا کرتے کہ مولانا بہت فراخ دل تھے اوراچھی کارکردگی دکھانے والوں کی دل سےقدر کرتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ اخبار کی سرخی میں انہوں نے افریقی، ایشیائی ملکوں کی جگہ نئی ترکیب افریشیائی لکھ دی۔دوستوں نے ڈرایا کہ ظفر علی خاں ناراض ہوں گے۔ دوسرے جب دن ظفر علی خاں دفتر آئے تو صبح سویرے مجھے طلب کر لیا۔میں ڈر رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ وہ خفا ہوں اور میری نوکری چلی جائے۔ جب میں حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا کہ کل والی سرخی(News Headline) تم نے بنائی تھی۔میں نے ڈرتے ڈرتے کہاں ہاں۔بہت خوش ہوئے اور جیب سے بٹوا نکال کر سامنے رکھ دیا۔کہنے لگے اس میں جتنی رقم ہے انعام کے طور پر رکھ لو۔ملک صاحب اکثر بتاتے کہ جب  مولانا کو کو شعر کہنا ہوتا  کمرے میں ٹہلنے لگتے۔ہر چکر پر ایک ایک شعر نوٹ کراتے جاتے یوں بیس پچیس منٹ میں وہ اپنی غزل یا نظم مکمل کردیتے تھے۔راحت ملک کی تحریروں کا بڑا موضوع جاگیردارانہ نظام کی مخالفت اور سیاسی بازی گری پر تنقید  ہے۔ان کے کالم اور ان کی ساری شاعری انہی مسائل کے گرد گھومتی ہے۔وہ جب روایتی غزل کہتے  تو وہ بھی ندرت اور معنی آفرینی کی عمدہ مثال ہوتی  ۔مجھے ان  کی غزل کے دو اشعار یاد آرہے ہیں جو ان سے متعدد بار سنی ہوئی ہے۔

 

پیڑ کے نیچے بھی دو لمحے ٹھہرا کر

میرے ذہن سے بھی کچھ باتیں سوچا کر

پتھر بھی آپس میں باتیں کرتے ہیں

دیواروں پر دل کی بات نہ لکھا کر

 

ان کی کتب زاویے،دہرے جسم اور ربوا کا مذہبی آمر ان کی زندگی میں شائع ہوئیں۔آخری کتاب گل صحرا ان کےپوتے دانش حبیب نے ان کی وفات کے بعد شائع کی ہے۔راحت ملک کی ادبی اور صحافتی پہچان کادائرہ 1950 کی دہائی سے لمحہ موجود تک پھیلا ہوا ہے۔ایک صبح جب میں دفتر پہنچا تو یہ افسوس ناک خبر ملی کہ ملک صاحب رستے میں حادثے کا شکار ہوکر راہی ملک عدم ہوگئے ہیں۔بلاشبہ وہ ایک فعال شخصیت اور عمدہ قلم کار تھے۔ان کے مجموعہ کلام گل صحرا سے کچھ انتخاب پیش خدمت ہے۔

 

ایوانوں سےنسبت کیا ہم خاک نشینوں کو

کیا عرش سے دلچسپی دھرتی کے مکینوں کو

 

اک سمت پڑے تھے ہم پتھر کی طرح تنہا

کیوں چھیڑ دیا تو نے ہم گوشہ نشینوں کو

 

ہم مشعل الفت ہیں جو چاہے ضیالے لے

اتنی سی خبر کر دو بستی کہ حسینوں کو

 

چھوٹا نہ کسی صورت دامان خودی ہم سے

اک درس دیا ہم نے دنیا کے مکینوں کو

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھول ہی جب کانٹے بن جائیں گلشن خارستان بنے

جیسے نیکی عصیاں کے افسانے کا عنوان بنے

 

اس بستی میں عدل اخوت پیار مروت کیسے ہو

جس بستی کے سارے باسی بیٹھے ہو بھگوان بنے

 

قریہ قریہ جس کو دیکھو راہبری کا طالب ہے

پتّے پتّے کی خواہش ہے گلشن کا پردھان بنے

 

نام خدا کا لیتا ہے تائید بتوں کی کرتا ہے

ایک زمانہ بیت گیا ہے من کو کفرستان بنے

 

یہ حسرت کیا حسرت ہے یہ خواہش بھی کیا خواہش ہے

محنت سے کترائیں بھی اور باتوں کا پکوان بنے

 

قدم قدم پر آشاوں کے پیکر ہم نے دفن کیے

ایک زمانہ بیت گیا ہے من کو قبرستان بنے

 

جیسے دشت کے گیدڑ ہی رکھوالے ہوںخربوزوں کے

اس نگری کے سارے رہزن بیٹھے ہیں دربان بنے

 

اہل گلستاں مایوسی میں خود سوزی کر لیتے ہیں

کتنے ماہ و سال ہوئے ہیں گلشن کو شمشان بنے

 

کالی سوچیں کالے دھندے چھوڑکے آجامحفل میں

صبح کرن آنگن میں اترے گلشن پاکستان بنے

۔۔۔۔۔

مجھے بلا کہ تجھے میں غزل سنایا کروں

قدم قدم پر تجھے آئینہ دکھایا کروں

 

میں اس کا اہل نہیں ہوں مجھے یہ فرض نہ سونپ

کہ زخم زخم رہوں اور مسکرایا کروں

 

تو زندگی ہے تیرے چار سمت نفرت ہے

مجھے پکار تجھے  آگ سے بچایا کروں

 

یہ سوچتا ہوں کہ ایسا کوئی لباس ملے

میں تیرے ساتھ رہوں اور نظر نہ آیا کروں

 

خموش ہے میرا احساس ایک زمانے سے

میں کیوں نہ جھیل میں پتھر کوئی گرایا کروں

 

بھرےے جہان میں انسان کی تلاش میں ہوں

کوئی ملے بھی جسے میں گلے لگایا کرو ں

 

لہو کی بوند نہیں ساکنان گلشن میں

حکایت غم دل میں کسے سے سنایا کروں

 

ذرا وہ پردہ شب سے جھلک دکھائے تو میں

نفس نفس کو نوید سحر سنایا کروں


میں بوند بوند زمانے میں بانٹتا گزروں 

مثال ابر میں گلشن پر اپنا سایہ کروں