Ticker

6/recent/ticker-posts

Poet Syed Ghulam Mujtba| شاعرسیدغلام مجتبی .گجرات

poet Syed Ghulam Mujtba Gujrat
Poet Syed Ghulam Mujtba.Gujrat





گجرات میں اردو اور پنجابی کے خوب صورت شاعر سید غلام مجتبی

تحریر۔اشفاق شاہین


غزل ہیئت کے اعتبار سے محدود ہوتے ہوئےبھی معانی آفرینی اور موضوعات کی بنا پر اپنے اندر ایک کائنات سموئے ہوئے ہے۔ ۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں یہ سخن ورں کے لیے کشش کا باعث رہی ہے۔لاتعداد شعرا نے اس صنفِ شعر میں کہا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔تاہم بہت کم سخن وروں نے اپنے خاص اسلوب کی بنا پراس میں پہچان بنائی ہے ۔ایسے ہی خوب صورت شعرا کی کہکشاں میں ایک جھلملاتا ہوا ستارہ سید غلام مجتبی  ہے۔آپ کا تعلق گجرات سے ہے ، کئی دہائیوں سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔آپ کی نظم و نثر کی کئی کتب منظر عام پر آکر داد و تحسین وصول کر چکی ہیں۔سید غلام مجتبی  نے اپنی خاص تراکیب اور مشکل پسندی سے غزل میں انفرادیت پیدا کی ہے۔مگر یہ مشکل پسندی مصنوعی نہیں بلکہ ان کے وسعتِ مطالعہ کی دین ہے۔ کہتے ہیں ہے کہ ہر خیال اپنا پیرائیہ اظہارساتھ لے کر آتا ہے۔ اگر سید غلام مجتبی کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ نکتہ نظر  تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔ان کے اشعار میں تخیل جس طرح پرت در پرت معانی لیے ہوئے ہے ،مشکل تراکیب کا ملبوس اظہار کی ضرورت بن جاتا ہے۔اگر ان کی شاعری میں ایسا نہ ہو تو لفظ کا پیرھن سوچ کی قامت سے کم پڑجائے ،لفظ کا بدن پھٹنے لگ جائے۔سید غلام مجتبی اگر چہ غزل کے شاعر ہیں اور ان کے اشعار میں عشق و محبت کی روایتی واردات کا بیان ہے لیکن کلام پر اخلاقیات کی چھاپ گہری دکھائی دیتی ہے۔بلا شبہ اس کی بنیادی وجہ ان کا دینی گھرانہ ہے۔ مزید یہ کہ وہ معلم بھی  ہیں ۔شعر کہتے ہوئے یہ امور ملحوظ خاطررکھتے ہیں۔ائیے ان کے کلام سے انتخاب دیکھتے ہیں۔

 

محبت میں کنارہ چاہتی ہیں

مری آنکھیں اشارہ چاہتی  ہیں


لکیریں آسماں پر دیکھنے کو

بس ایک ٹوٹا ستارہ چاہتی ہیں


مری خوشیاں تو ہیں محفل کی طالب

مگرآہیں سہارا چاہتی ہیں


تڑپنے کو صدائیں میرے دل کی

مری پلکوں پہ تارا چاہتی ہیں


بسر کرنے کو میری سب وفائیں

کوئی دل غم کا مارا چاہتی ہیں


بڑی مدت سے پیاسی میری آنکھیں

بس اک جلوا تمہارا چاہتی ہیں


دعائیں دل کی دل کے ساتھ رکھنا

تمھیں سارے کا سارا چاہتی ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔

پھر اس کے بعد وہ چاہے گلے لگائے مجھے

میں اس سے خوش ہوں وہ اک عمر آزمائے مجھے


میں اپنے آپ سے باہر نکلتا جاتا ہوں

میرے وجود میں واپس کبھی وہ لائے مجھے


مجھے دکھائے وہ منظر گلاب رت کے کبھی

کبھی وہ قصہ دار و رسن سنائے مجھے


کبھی سنے وہ میرے دل کی داستاں مجھ سے

سنا کے اپنی کہانی کبھی رُلائے مجھے


بنوں میں اس کے لیے گیت اس کی چاہت کا

مدھر سروں میں وہ دھیرے سے گنگنائے مجھے


اسے وفا کی طلب ہے مجھے جنوں کی تلاش

بنے وہ شوق کا پیکر خرید لائے مجھے


کبھی وصال کی گھڑیاں بھی ہجر میں گزریں
کبھی خیال تیرا آ کے گدگدائے مجھے

 

۔۔۔۔

تجھے تیری نظر سے مانگتا ہوں

یہ موتی چشم تر سے مانگتا ہوں


نہیں مجھ کو تمنا منزلوں کی

سفر لطف سفر سے مانگتا ہوں


نقوش پا تمہاری چاہتوں کے

جنوں کی رہگزر سے مانگتا ہوں


مرے گھر کو ترے آنے کا رستہ

 میں خود اپنے ہی گھر سے مانگتا ہوں


میں تیرے پاس آنے کی اجازت

تیرے دربان در سے مانگتا ہوں


خدا سے مانگتا ہوں غم کی دولت

میں تاریکی سحرسے مانگتا ہوں


محبت سے توقع ہے سکوں کی

میں یہ پانی شرر سے مانگتا ہوں


مجھے معلوم ہے میں مجتبیٰ ہوں

مگر خود کو ادھر سے مانگتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔

رخ مری جانب سے اپنا پھیر کر

چل دیا وہ روشنی کو گھیر کر


آ بھی جا لے کر دیا امید کا

بجھ رہا ہوں اب نہ اتنی دیر کر


فیلِ وحشت کعبہ دل کی طرف

اس کو سنگ آگہی سے ڈھیرکر


درکِ غم کی روح اس میں پھونک دے

آرزوئے جاں بہ لب کو شیر کر


آسماں اتنی بلندی پر نہیں

اس کو اپنی جستجو سے زیر کر

۔۔۔۔۔

تیرے حصول کا ایقان حرفِ راز ہوا

وفورِ شوق کا ہر سلسلہ دراز ہوا


مجھے تو ناز تھا تجھ پر ہر اک حوالے سے 

یہ اور بات کرے تو بھی زمانہ ساز ہوا


عجیب بات ہے جاناں کہ تیری ضد کے طفیل

میں تیرے قرب کی لذت سے سرفراز ہوا


یہ اعتراف ہے مجھ کو کہ تیری چاہت میں

ہر ایک لمحہ میرا وقفِ حرص و آز ہوا


مجھے خرد کی طلب تھی نہ معرفت کی تلاش

وہ ایک شخص ہی دل میں حریم ناز ہوا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک اشارہ سا کہانی کے جو عنوان میں تھا

اس کا ہر عکس مرے درد کے طوفان میں تھا


اب جزا اس کی ملے یا نہ ملے تیری رضا

میں نے وہ کرتو دیا جو مرے امکان میں تھا


تجھ کو حیرت ہے کہ وہ کون تھا شعروں میں مرے

ذکر تیرا ہی تو تھا جو مرے دیوان میں تھا


یوں تو تھے اور حوالے بھی میرے ذکر کے ساتھ

کشتہ عشق و وفا ہی میری پہچان میں تھا


چن لیا اپنے لیے پہلی نظر میں میں نے

پھول الفت کا تیری، درد کے گلدان میں تھا