Ticker

6/recent/ticker-posts

Aatish-aur-Dabistan-e-Lakhnaw|حیدرعلی آتش-دبستان لکھنئو کا نمائندہ شاعر

حیدر علی آتش دبستان لکھنئو کا نمائندہ شاعر
Khawaja Haidar Ali Aatish Dabistan e lakhnaw|حیدر علی آتش دبستان لکھنئو کا نمائندہ شاعر


  حیدرعلی آتش


دبستان لکھنئو کا نمائندہ شاعر


دبستان لکنئو کے نمائندہ شاعر حیدر علی آتش
Haidar Ali Aatish کی شاعری مختلف حوالے سے اپنے ہم عصروں سے انفرادیت رکھتی ہے۔ان کے اباو اجداد بغداد کے رہنے والے تھے۔جو روز گار کی تلاش میں ہندوستان آگئے اور شاہ جہاں آباد سکونت اختیار کر لی۔ان کے والد خواجہ علی بخش نے شاہ جہاں آباد کو خیرآباد کہا اور فیض آباد کو اپنا مسکن بنا لیا۔حیدر علی آتش کو 1778فیض آباد میں ہی پیدا ہوئے۔اس زمانے میں لکھنو علم و ادب کا مرکز تھا ۔اور اپنے خاص طرز سخن کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔یہ وہ دور تھا جب شاعروں میں محاذآرائی عروج پر تھی۔نوابوں کے درباروں میں جگہ پانے کے لیے شاعرانہ سر کرنا اور ہر حد پار کرجانا ضروری سمجھا جاتاتھا۔حیدر علی آتش جب لکھنو آئے تو ان شعری معرکوں نے ان کے شاعرانہ شوق کو مزید ہوا دی اور وہ غلام ہمدانی مصحفی کے شاگرد ہوگئے۔ حیدر علی آتش کی شعری خدمات جاننے کے لیے لازم ہے کہ اس دور کے ماحول کا جائزہ لیا جائے۔

سید وقار عظیم لکھنو کے ادبی ماحول کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں

اس دبستاں کے شعری سرمایہ کی بنیاد تکلف اور تصنع پر ہے۔جس میں شاعر محسوسات کی سادگی کی بجائے رنگینی اور فکری باریکی کا سہارا لیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حیدر علی آتش کی شاعری کی اہم خوبی اس کے کلام کا نشاطیہ رنگ ہے۔لکھنئو وہ شہرتھا کہ جو عام زندگی میں بھی رکھ رکھائو اور تکلف کے لیے ہندوستان بھر میں جانا جاتا تھا۔چنانچہ شاعری میں ظاہرداری اور بناوٹ کا در آنا قدرتی امر تھا۔اسی لیے ہر لکھنوی شاعر کے کلام میں لسانی حوالے سے صفائی کا اہتمام نظر آتا ہے۔ خود خواجہ حیدر علی آتش نے شاعری کو مرصع ساز کا کام قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ کلام  میں الفاظ کا چنائو اور شعر کی تراش گویا نگینے جڑنے کی مثال ہے۔

ڈاکٹر سید عبداللہ کا کہنا ہے کہ

مسرت اور راحت لکھنو کی تہزیب کے دو اہم مقاصد تھے۔

نشاطیہ رنگ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس دور میں مصحفی،انشااور جرات شاعری کر رہے تھے اس دور میں لکھنئو خوشحال تھا۔جب معاشرہ خوش حال ہوں اور ذہن فارغ البال ہوں تو ایسے میں خارجی شاعری جنم لیتی ہے۔محبوب کی ادائیں،اس کا حسن،اور عیش و طرب کی محافل کا بیاں دراصل لکنئو کی پر مسرت زندگی ہی کا عکس ہے۔ حیدر علی آتش کی شاعری کی فضا ایسی ہے  جسے غم کی فضا قرار نہیں دیا جاسکتا۔اگر چہ ان کے کلام میں محبوب کی بے وفائی اور عشق کی راہ میں پائے جانے والے مصائب کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں لیکن آتش کی شاعری کا بیشتر حصہ سرمستی اور سرور کی فضا لیے ہوئے ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں ایک بے نیازی کی کیفیت بھی ملتی ہے۔ ساتھ ہی امید کا دامن تھامے رکھنے اور اچھے دنوں کی بشارت ہے۔یہ سارے رنگ لکھنوی دبستاں کی خاص پہچان ہیں۔ ہاں یہ امر انہیں دبستان لکنئو کے دیگر شعرا سے ممتاز کرتا ہے کہ حیدرعلی آتش کی شاعری میں خارجی پہلو ہوتے ہوئے بھی وہ انشا اور جرات کی طرح اخلاقیات کی ہر حد پار نہیں کرجاتے بل کہ اپنے استاد غلام ہمدانی مصحفی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محبوب کے لیے بازاری زبان استعمال نہیں کرتے۔یوں حیدرعکی آتش دبستان لکھنو کے اصل نمائندہ شاعر ہونے کا مقام پاتے ہیں۔