Ticker

6/recent/ticker-posts

افضل گوہر کی صدارت میں ادب ساز کا مشاعرہ

Afzal Gohar Rao Ki Sadarat Main  AdabSaz Ka Online Mushaira-Maizban.Ashfaq shaheen


گزشتہ دنوں اردو کے معروف شاعر افضل گوہر کی صدارت میں ادبی تنظیم ادب ساز کا مشاعرہ منعقد ہوا.اس تقریب کے مہمان خصوصی عباس دھالیوال(انڈیا)اور مرزا سکندر بیگ تھے.مہمان شعرا میں الیاس صدیقی,مہدی خاں,سید غلام مجتبی تھے.تقریب کے میزبان اشفاق شاہین تھے.

 

اشفاق شاہین


دیکھ لیتا ہے تو سینے سے وہ آلگتا ہے

اک حسیں شخص جو باتوں سے خفا لگتا ہے

کیا خبر دام بچھائے ہو شکاری کوئی

رہ گزر میں جو یہاں شخص پڑا لگتا ہے

کون کیسا ہے سمجھ میں نہیں آتا ہم کو

جس سے ملتے ہیں وہ ہر بار نیا لگتا ہے

ایک اندھے نے کہا کہتے ہیں اندھا مجھ کو

آپ بتلائیں بھلا آپ کو کیا لگتا ہے

اپنے آزار کسے کوئی سنائے جاکر

"جس کو دیکھو وہ گرفتار بلا لگتا ہے"

اس کے دل میں کبھی اشفاق اتر کر دیکھو

وہ بظاہر جو بہت شوخ ادا لگتا ہے 


مہدی چوہان


لگا مجھ کو مری ان کو ضرورت بڑھتی جاتی ہے

مجھے شہر خموشاں سے محبت بڑھتی جاتی ہے

نجانے اہل گلشن سے یہ کیا کچھ ہونت والا ہے

گل و بلبل کے سینے میں کدورت بڑھتی جاتی ہے


الیاس صدیقی ثانی


ظلم کی رسم زمانے سے مٹادی جائے

کوئی، ممکن ہوتو ، تدبیر بتادی جاۓ

اس بھری دنیا میں سنتا نہیں اپنی کوئی

کیوں نہ ویرانے میں جا کر ہی صدا دی جائے

ذکر الفت پہ ہیں احباب بہت چیں بہ جبیں

بات نفرت کی کوئی ان کو سنا دی جاۓ

اب کے دستور وفائیں یہی ترمیم ہوئی

جو دعا دیتا ہواس کو بھی دغا دی جاۓ

زخم پر چھڑ کا نمک اور محبت سے کہا

قدغن اک درد کی ٹیسوں پر لگادی جاۓ

خبط سچ کہنے کا ثانی کو ہوا ہے لاحق

اس کی اے چارہ گراں ! کچھ تو دوا کی جاۓ

 

سید غلام مجتبی


دیارِ علم کو نابود کر دیا گیا ہے

بدن کو گوہرِ مقصود کر دیا گیا ہے

جو پہلے علم کے موتی لُٹاتا رہتا تھا

اب اس کے ذہن کو بارود کر دیا گیا ہے

جو بے شعور تھے سر پر بٹھا دیے گئے ہیں

خِرَد کو وحشتِ نمرود کر دیا گیا ہے

 

مرزا سکندر بیگ


خالی   ہاتھ    دعا    اور    میں

پاک     کلام  ، خدا    اور    میں

 

دیر   تلک      ہم  ساتھ    رہے

رات  ، چراغ  ، هوا   اور  میں

 

لا کهوں  ناگ   مقابل      ہیں

میرا   ایک   عصا  اور   میں

 

دهیرے    دهیرے  راکھ  ہوئے

جلتی   آگ  ، چتا    اور   میں

 

جیون      راه   چنابوں     کی

کچا      ساتھ   گهڑا  اور میں

 

کیسے    تم  سے    آن  ملیں

میلوں   بیچ     خلا  اور میں

 

دور      کہیں      دم توڑ  گئے

زخمی  کونج  ، صدا  اور میں

 

عباس دھالیوال


سپنے وچ میں آسکدا سی

میں کس اس نوں پاسکدا سی

مینو اپنے درد سنا او

اپنا دکھ ونڈاسکدا سی

گروی رکھ کے آپا میں وی

کوٹھی بنگلہ پاسکدا سی

...

سچی بات کہی تھی ہم نے

ہر جانب سے آئے پتھر

یارو اس میں پھول کھلیں کیا

دل ہی جب ہوجائے پتھر

 

افضل گوہر


آندھیوں میں ٹوٹنے کا خوف طاری ہو گیا

پیڑ اپنے ہی پھلوں  سے اتنا بھاری ہو گیا

 

پھر بھی تِرے ہاتھ کا کشکول بھرتا ہی نہیں

میں تجھے خیرات دے دے کر بھکاری ہو گیا

 

ایسے لگتا ہے شجر بھی کوئی زندہ شخص تھا

کٹ گیا تو ٹہنیوں سے خون جاری ہو گیا

 

حادثہ یہ ہے کہ اپنی آنکھ سے انسان نے

کچھ نہیں دیکھا تو پتھر کا پجاری ہو گیا

 

لقمہ ء تر کی تمنا میں تو پھر انسان ہوں

بھوک لگنے پر پرندہ بھی شکاری ہو گیا

 

تری تو اوقات ہی کیا ہے یہاں تو عشق میں

بادشاہوں کا خزانہ ریزگاری ہو گیا

....

اس جگہ رنج کے اسباب نکل آتے ہیں

دُشمنوں۔میں جہاں احباب نکل آتے ہیں

 

دیکھتا ھوگا سمندر بھی کوئ خواب ضرور

یوں جزیرے جو سرِ آب  نکل آتے ہیں

 

میں نے یہ سوچ کے دشمن کو بھی ٹھکرایا نہیں

بعض پتھر بڑے نایاب  نکل آتے ہیں

 

مجھ سے مت پوچھ مری عمرِ گذشتہ کا حساب

ایسے آنکھوں سے مرے خواب نکل آتے ہیں

 

اُس کنارے پہ جہاں ھے مری بستی گوھر

حال احوال کو سیلاب  نکل آتے ہیں

......

تم سے ایسے ھوگیا ھے رابطہ دیکھے بغیر

جس طرح ھم سانس لیتے ہیں ھَوا دیکھے بغیر

 

رہ گئ ھے نیند بھی بستر میں اک کروٹ پڑی

بجھ گیا ھے خواب بھی جلتا دِیا دیکھے بغیر

 

پیڑ سے شاید پرندے کو محبت ھے بہت

شاخ پر آ بیٹھتا ھے گھونسلہ دیکھے بغیر

 

وہ تو خیر اچھا ھوا کہ اک ستارہ مل گیا

ورنہ میں تو چل رھا تھا راستہ دیکھے بغیر

 

کیا بتاؤں آج کل کیسی پریشانی میں ھوں

خود سے بھی لڑنے لگا ھوں حوصلہ دیکھے بغیر

 

مجھ سے گوھر چھپ نہیں سکتا مرے اندر کا شخص

میں اُسے پہچانتا ھوں آئنہ دیکھے بغیر

 

ا