انٹر میڈیٹ گیارہویں جماعت اردو کے نئے سلیبس کے مطابق
فراق گورکھپوری کی غزل "سرمیں سودا بھی نہیں" کی تشریح
Firaq Gorakhpuri Ghazal ki Tashreeh
شعر نمبر1
سر میں سودا| بھی نہیں|،دل میں تمنا|بھی نہیں
لیکن اس |ترکِ تعلق| کا بھروسہ| بھی نہیں
اہم الفاظ کے معنی:
- سودا: عشق
کا جنون، دیوانگی
- تمنا: آرزو،
خواہش
- ترکِ تعلق: رشتہ
ختم کرنا، جدائی
- بھروسہ: یقین،
اعتماد
مفہوم:اب عشق
کا وہ جنون اور دیوانگی باقی نہیں رہی اور نہ ہی محبوب سے ملنے کی خواہش باقی ہے،
لیکن اس کے باوجود، اس جدائی کے مکمل اور حتمی ہونے پر بھی یقین نہیں ہے۔ یعنی دل
کے کسی کونے میں ابھی بھی امید یا تعلق کا ایک دھاگا باقی ہے۔
تشریح:
فراق گورکھپوری کے اس شعر میں محبت میں پیدا ہونے
والے جذباتی تضاد اور پیچیدگی کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ عشق کے شدید
جذبات سے گزر چکا ہے، اب نہ تو پہلے جیسا جنون باقی رہا اور نہ ہی محبوب سے قربت
کی خواہش باقی ہے۔ بظاہر وہ اس محبت سے مکمل طور پر آزاد ہو چکا ہے، لیکن اس کے
باوجود، دل میں کہیں نہ کہیں اس جدائی کے مکمل ہونے پر یقین نہیں آتا۔ شاید دل کے
کسی گوشے میں یہ امید باقی ہے کہ کبھی کوئی صورت نکل آئے گی اور محبت کا یہ تعلق
پھر سے جُڑ جائے گا۔
اس کیفیت کو مزید واضح کرنے کے لیے ناصر کاظمی کا
یہ شعر بھی پیش کیا جا سکتا ہے:
ٹھانی تھی| دل میں| اب نہ| ملیں گے| کسی سے ہم
پر کیا کریں| کہ ہو گئے| ناچار جی |سے ہم
یہ شعر بھی اسی احساس کی ترجمانی کرتا ہے کہ وصل
کی امید تو ختم ہو چکی ہے، لیکن کہیں نہ کہیں دل میں یہ گمان باقی ہے کہ شاید وقت
بدل جائے اور بچھڑا ہوا محبوب لوٹ آئے۔
شعر2
دل کی گنتی| نہ یگانوں میں| نہ بیگانوں میں
لیکن اس| جلوہ گہ ناز| سے اٹھتا| بھی نہیں
اہم الفاظ کے معنی:
- دل کی
گنتی: دل کا
شمار، دل کی حیثیت
- یگانوں: قریبی
لوگ، دوست، اپنے
- بیگانوں: اجنبی،
غیر
- جلوہ گاہِ
ناز: محبوب کا
حسین چہرہ، محبوب کا محفلِ حسن
- اٹھتا بھی
نہیں: جدا نہیں
ہوتا، ہٹ نہیں سکتا
مفہوم: میرا
دل نہ تو دوستوں میں شمار ہوتا ہے اور نہ ہی بیگانوں میں، یعنی اس کا کوئی مستقل
مقام نہیں۔ لیکن اس کے باوجود، یہ محبوب کے حسن کی محفل سے ہٹنے کا نام نہیں لیتا،
جیسے وہ کسی کشش میں قید ہو۔
تشریح:
یہ شعر عاشق کی ایک پیچیدہ اور بے بس کیفیت کو
بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس کا دل نہ تو اپنوں میں شمار کیا جاتا ہے اور نہ
ہی بیگانوں میں، یعنی نہ تو اسے محبوب کی محبت حاصل ہے اور نہ ہی وہ مکمل طور پر
بے تعلق ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جہاں عاشق نہ تو محبوب کی قربت کا لطف اٹھا سکتا
ہے اور نہ ہی اس سے الگ ہو سکتا ہے۔ گویا وہ ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہے، جہاں وہ
اپنے وجود کو کسی واضح حیثیت میں نہیں دیکھتا، لیکن پھر بھی اس کا دل محبوب کے حسن
کی محفل سے ہٹنے کا نام نہیں لیتا۔
یہی احساس شاعر داغ دہلوی کے اس شعر میں بھی جھلکتا ہے:
بزم عدو| میں صورت پروانہ |دل مرا
گو رشک سے جلا| ترے قربان |تو گیا
یہاں بھی عاشق کی بے بسی اور محبت کے بوجھ کو
بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایسا بار ہے جو نہ تو چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی اٹھایا جا
سکتا ہے۔ فراق کے شعر میں بھی یہی کیفیت نظر آتی ہے کہ دل بے حیثیت ہو کر بھی
محبوب کے سحر سے نکلنے کو تیار نہیں۔
شعر3
مہربانی کو| محبت نہیں کہتے |اے دوست
آہ اب مجھ سے |تری رنجش بے جا| بھی نہیں
اہم الفاظ کے معنی:
- مہربانی: نرمی،
شفقت، ہمدردی
- محبت: عشق،
گہرا لگاؤ
- رنجش: ناراضی،
خفگی
- بے جا: بلاوجہ،
بے سبب
مفہوم: محض
مہربانی کو محبت نہیں سمجھنا چاہیے۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ محبوب کی ناراضی اور
خفگی بھی عاشق کو ناگوار نہیں لگتی، بلکہ وہ اسے اپنے نصیب کا حصہ سمجھ چکا ہے۔
تشریح:
یہ شعر محبت اور احساسات کی گہرائی کو بیان کرتا
ہے۔ شاعر محبوب کو باور کراتا ہے کہ محض ہمدردی یا نرمی کا برتاؤ کرنا محبت کے
زمرے میں نہیں آتا۔ محبت وہ جذبہ ہے جو خلوص اور سچائی پر مبنی ہوتا ہے، محض ترس
کھانے یا مہربانی برتنے سے محبت کا اظہار نہیں ہوتا۔ شاعر کی کیفیت اب اس حد تک
بدل چکی ہے کہ محبوب کی ناراضی اور بے جا خفگی بھی اسے ناگوار محسوس نہیں ہوتی،
کیونکہ وہ جان چکا ہے کہ یہ بھی محبت کا ایک پہلو ہے اور وہ ہر حال میں محبوب کے
برتاؤ کو برداشت کرنے کو تیار ہے۔
اس کیفیت کو مزید واضح کرنے کے لیے بشیربدر
کا یہ شعر پیش کیا جا سکتا ہے:
محبتوں
میں| دکھاوے کی | دوستی نہ ملا
اگر گلے
نہیں ملتا| تو ہاتھ بھی| نہ ملا
یہ شعر بھی اسی مفہوم کو بیان کرتا ہے کہ محبت
میں صرف نرمی یا مہربانی کافی نہیں، بلکہ اصل چیز اخلاص اور وابستگی ہے۔ اگر محبت
میں خلوص نہ ہو، تو چاہے کیسا ہی رویہ رکھا جائے، اس کا اعتبار نہیں رہتا۔
شعر4
ایک مدت سے| تری یاد بھی| آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے| ہوں تجھے ایسا| بھی نہیں ہے
اہم الفاظ کے معنی:
- مدت: طویل
عرصہ، لمبا وقت
- یاد آنا: کسی
کو دل و دماغ میں محسوس کرنا
- بھول جانا: فراموش
کرنا، یادداشت سے محو ہو جانا
مفہوم:شاعر کہتا ہے کہ ایک عرصے سے محبوب کی یاد دل میں تازہ نہیں ہوئی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے محبوب کو مکمل طور پر بھلا دیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ زندگی کی مصروفیات یا حالات کی تبدیلی کے باعث یادیں وقتی طور پر پس منظر میں چلی گئی ہوں، مگر دل کے کسی نہ کسی گوشے میں وہ ابھی تک موجود ہیں۔
تشریح:
فراق گورکھپوری کا یہ شعر محبت میں جدائی اور
یادوں کی فطرت کو بیان کرتا ہے۔ شاعر محبوب کی یادوں کے حوالے سے ایک عجیب کشمکش
کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر گیا اور ہمیں محبوب کی یاد
نہیں آئی، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے محبوب کو مکمل طور پر فراموش کر
دیا ہے۔ گویا یادیں شعور میں نمایاں نہ بھی ہوں، تب بھی وہ دل کی گہرائیوں میں
محفوظ رہتی ہیں اور کسی نہ کسی موقع پر ابھر سکتی ہیں۔
محبت میں یادوں کی یہ کیفیت ایک عام جذباتی تجربہ
ہے۔ بعض اوقات، انسان زندگی کی مصروفیات میں ایسا الجھ جاتا ہے کہ کسی قریبی شخص
یا محبوب کی یادوں کے لیے وقت نہیں نکل پاتا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص
دل سے نکل گیا ہے۔ یہ انسانی نفسیات کی ایک خوبصورت تصویر کشی ہے کہ بھول جانا اور
یاد نہ آنا، دونوں میں فرق ہوتا ہے۔
یہ کیفیت ناصر کاظمی کے اس شعر سے بھی
واضح ہوتی ہے:
اے دوست| ترک تعلق |کے باوجود
محسوس کی
ہے| تیری ضرورت| کبھی کھبی
یہ شعر بھی یہی احساس دلاتا ہے کہ بعض چیزیں
بظاہر ختم ہو جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ دل میں کہیں نہ کہیں محفوظ رہتی ہیں۔
فراق گورکھپوری کے شعر میں بھی یہی جذباتی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ محبوب کی یادیں
بظاہر خاموش ہو چکی ہیں، لیکن دل کی گہرائیوں میں وہ اب بھی زندہ ہیں۔
یہ شعر ایک گہری معنویت رکھتا ہے اور اس میں محبت
کی حقیقت کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ شاعر یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ
محبت کا تعلق صرف لمحاتی یادوں سے نہیں بلکہ یہ ایک دائمی جذبہ ہے، جو وقت کے ساتھ
مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔
یہاں پر یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر خود کو تسلی دے
رہا ہو کہ وہ محبوب کو بھلا نہیں پایا، یا پھر وہ محبوب کو یہ باور کرانے کی کوشش
کر رہا ہے کہ تمہاری یادیں دل میں اب بھی باقی ہیں۔
شعر5
اہم الفاظ کے معنی:
- ہنگامے: شور
شرابہ، تہلکہ
- دیوانہء
عشق: عشق میں
مبتلا شخص، عاشق
- ٹھکانہ: پناہ،
سکون کی جگہ
- ایسے: ایسے
لوگ جو خاص حالت میں ہوں، یعنی دیوانے، جن کی حالت عجیب ہو
مفہوم:شاعر
کہتا ہے کہ دیوانہء عشق، یعنی وہ شخص جو عشق میں مبتلا ہو، کبھی ہنگامہ یا شور
نہیں مچاتا، لیکن اس کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اسے سکون کی جگہ یا ٹھکانہ نہیں
ملتا۔ وہ کہتا ہے کہ بعض لوگ ایسی بے چینی کی حالت میں ہوتے ہیں کہ ان کے لیے کہیں
بھی سکون کی جگہ نہیں ہوتی، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب وہ دیوانگی پہ اآجائیں
تو ہر حد پار کرجاتے ہیں۔
تشریح:
فراق گورکھپوری کا یہ شعر عاشق کی بے قراری اور
اس کے دکھ کو بیان کرتا ہے۔ شاعر بیان کرتا ہے کہ دیوانہء عشق، یعنی جو شخص عشق
میں غرق ہوتا ہے، وہ عام طور پر اپنے دکھ اور تکلیف کو کسی کے سامنے ظاہر نہیں
کرتا، اور نہ ہی اس کی زندگی میں کسی قسم کا ہنگامہ ہوتا ہے۔ وہ دکھوں میں ڈوبا
ہوتا ہے، لیکن اس کا شور و غصہ بیرونی طور پر دکھائی نہیں دیتا۔
لیکن، یہاں شاعر نے یہ بھی کہا ہے کہ "کچھ
ایسوں کا ٹھکانہ بھی نہیں"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ عاشق ہنگامے نہیں
اٹھاتا، مگر اس کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی جگہ سکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔
وہ اندر سے بے چین رہتا ہے اور اس کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ کسی بھی جگہ، کسی بھی
حالت میں اس کو سکون نہیں مل پاتا۔یا یوں بھی ہے کہ وہ دیوانگی مین کسی حد تک بھی
جاسکتے ہیں۔عموما جو کچھ نہیں کہتے جب کہنے پر آجائیں تومثال قائم کر دیتے ہیں۔
شاعر کی یہ بات کسی عام عاشق کی بے سکونی اور بے
چین حالت کو بیان کرتی ہے۔ عاشق کے دل میں اتنی زیادہ تڑپ اور غم ہوتا ہے کہ وہ
کسی بھی جگہ سکون سے نہیں رہ پاتا۔ وہ اپنے محبوب کی تلاش میں ہے اور اسے ہر وقت
ایک گہری اندرونی تکلیف کا سامنا ہے، جو اس کے باہر سے ظاہر نہیں ہوتی، مگر اس کا
دل اور دماغ ہر لمحہ ایک ہنگامے سے گذر رہے ہوتے ہیں۔
اسی خیال کو میر
تقی میر کے اس شعر میں بھی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے:
اب کے| جنوں میں فاصلہ| شاید نہ| کچھ رہے
دامن کے| تارؔ اور گریاباں کے| تار میں
یہ شعر فراق گورکھپوری کی شاعری کی ایک گہری اور
دردناک مثال ہے، جس میں ایک عاشق کی اندرونی حالت اور اس کی بے سکونی کو بیانیہ کے
ذریعے واضح کیا گیا ہے۔
شعر6
اہم الفاظ کے معنی:
- صیاد: شکاری،
وہ شخص جو شکار کرتا ہے
- گل: پھول
- بلبل: ایک
پرندہ جو اکثر پھولوں کے قریب آ کر گاتا ہے، اسے محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے
- آہ: دکھ
بھری سانس، غم یا افسوس کا اظہار
- دیکھنا: نظر انداز کرنا یا دیکھنے کی حالت میں ہونے کے باوجود سمجھنا
مفہوم:شاعر
صیاد (شکار کرنے والے) کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم تمہارے لیے پھول ہیں اور
تمہارے لیے بلبل ہیں، مگر تم نے ہمارے دل کے دکھ اور آہ کو نہ سنا، نہ دیکھا۔ یہ
شعر ایک طرف عاشق کی بے بسی کو اور دوسری طرف محبوب یا دشمن کی بے پرواہی کو ظاہر
کرتا ہے۔
تشریح:
فراق گورکھپوری کا یہ شعر ایک غمگین اور دکھ بھرے
جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر شکاری (صیاد) کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ ہم تو
تمہارے لیے پھول کی مانند ہیں، اور جیسے بلبل ہمیشہ پھولوں کے پاس آ کر گاتی ہے،
ویسا ہی ہمارا تعلق تم سے ہے۔ ہم تمہارے سامنے ہیں، اور ہمارے دل میں تمہارے لیے
محبت کی ایک تڑپ ہے، لیکن تم نے ہماری آہ، ہمارے دکھ اور ہمارے جذبات کو نظر انداز
کیا ہے۔
یہ شعر دراصل محبت میں بے بس اور ستائے ہوئے شخص
کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے محبت
کرتا ہے، لیکن اس کا محبوب اس کی تکلیفوں، آہوں اور جذبات سے غافل ہے۔ وہ نہ تو اس
کی حالت سمجھتا ہے اور نہ ہی اس کی دل کی باتوں کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ ایک کلاسک
مثال ہے اس بات کی کہ عاشق اپنی محبت میں اتنا مخلص ہوتا ہے کہ وہ ہر حال میں
محبوب کے قریب آنا چاہتا ہے، لیکن محبوب کی بے توجہی اس کے جذبات کو مٹی میں ملا
دیتی ہے۔
اسی موضوع کو راجندر کرشن کے اس شعر میں
بھی پیش کیا گیا ہے:
جلتے ہیں| مگر ایک بار نہیں
ہم شمع کا| سینہ رکھتے ہیں
رہتے ہیں مگر| پروانوں میں۔
یہ شعر بھی عاشق کی بے بسی اور اس کے دل کی
گہرائیوں میں چھپی خواہشات کو ظاہر کرتا ہے۔ غالب اور فراق دونوں ہی ایسے شاعروں
میں شامل ہیں جنہوں نے محبت کی سچی اذیت اور اس میں ڈوبے ہوئے جذبات کو خوبصورتی
سے بیان کیا ہے۔
فراق کا شعر بھی اسی
گہرائی کو اجاگر کرتا ہے کہ "ہم پھول ہیں، ہم بلبل ہیں"، یہ اظہار محبت
کا حصہ ہے، مگر "تونے کچھ آہ سنا بھی نہیں، دیکھا بھی نہیں" میں وہ بے
بسی اور درد صاف نظر آتا ہے کہ باوجود قربت کے، محبوب کی نظر میں ان کی حالت کی
کوئی اہمیت نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ محبت میں ایک شخص کی بے بسی
اور اس کی کوششوں کے باوجود، اگر دوسرے کی توجہ نہ ملے، تو دل کی کیفیت بے چین اور
دکھی ہو جاتی ہے۔ شاعر کا دکھ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ محبوب کے قریب نہیں، بلکہ یہ
ہے کہ وہ اپنی حالت اور آہ کی آواز کو بھی نہیں سنوا سکا۔
یہ شعر فراق گورکھپوری کی شاعری کا ایک اہم نمونہ
ہے، جس میں محبت کی گہرائی، بے بسی، اور محبوب کی بے توجہی کو نہایت خوبصورتی سے
بیان کیا گیا ہے۔
آخری شعر
اہم الفاظ کے معنی:
- منہ سے
کہنا: زبان سے
کچھ کہنا، بات کو ظاہر کرنا
- براتوں: شکایتیں،
ناراضگیاں
- فراق: جدائی،
دوری
- دوست: وہ
شخص جس سے تعلق ہو، محبوب یا قریبی
- آدمی اچھا
بھی نہیں: انسان کی
اچھائی، یعنی وہ شخص اخلاقی طور پر یا کسی دوسرے اعتبار سے اچھا نہیں ہے
مفہوم:
شاعر فراق گورکھپوری اپنے دل کی بات زبان سے نہیں
نکالتے، وہ محبوب یا دوست سے اپنی ناراضگیاں نہیں ظاہر کرتے، حالانکہ وہ جانتے ہیں
کہ وہ شخص اتنا اچھا نہیں ہے۔ یعنی وہ اپنے جذبات کو کنٹرول کر کے خاموش رہتے ہیں،
چاہے اندر سے اس شخص کے بارے میں کچھ ناخوشگوار خیالات ہوں۔
تشریح:
فراق گورکھپوری کا یہ شعر ایک دل کی اندرونی
کشمکش کو بیان کرتا ہے جہاں شاعر اپنے جذبات اور احساسات کو ظاہر کرنے میں جھجک
محسوس کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "منہ سے ہم اپنے براتوں نہیں کہتے"، یعنی
وہ اپنی شکایتیں، غم، اور غصہ کسی سے نہیں بیان کرتے۔ یہاں شاعر اپنی عزت نفس کا
خیال رکھ رہا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اظہار سے اس کی خودی متاثر ہوگی۔
فراق اپنے دل میں بے شمار شکایات رکھتے ہوئے بھی،
ان شکایات کو ظاہر نہیں کرتے، خاص طور پر اس شخص سے جسے وہ دوست یا محبوب سمجھتے
ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ "ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں"، یعنی وہ
شخص جو اس کی زندگی کا حصہ ہے، وہ اخلاقی یا شخصی طور پر اتنا اچھا نہیں ہے، لیکن
پھر بھی فراق اپنے دل کی بات زبان پر نہیں لاتا۔ یہ خاموشی اور اندرونی تکلیف،
فراق کی شاعری کا ایک اہم جزو ہے۔
یہ حالت عاشق کی خاموشی اور درد کو ظاہر کرتی ہے،
جو اس کی عزت نفس اور خودی کو بچانے کے لیے اپنی تکالیف کو باہر نہیں آنے دیتا۔
ایسے لوگ اکثر داخلی طور پر دکھ سہتے ہیں، مگر انہیں دنیا کے سامنے اپنے دکھوں کو
ظاہر کرنا گوارا نہیں ہوتا۔
اسی مضمون کو سیف الدین سیف کے اس شعر میں
بھی بیان کیا گیا ہے:
تری بے
وفائیوں پر| تری کج| ادائیوں پر
کبھی سر
جھکا کے |روئے کبھی منہ| چھپا کے روئے
یہاں سیف بھی اپنی خاموشی اور اندر کی تکلیف کو
بیان کر رہے ہیں۔ غالب کا کہنا ہے کہ ان کی خواہشات اور ارمان بہت ہیں، مگر ان کے
اظہار کا کوئی موقع نہیں ملتا، بالکل اسی طرح جیسے فراق اپنے دکھ کو کسی سے نہیں
کہتا۔
شاعر کی خاموشی، اس کی عزت نفس کا حصہ ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اپنی شکایتیں بیان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس سے اس کی محبت یا دوستی میں کوئی بہتری آئے گی۔ اس لیے وہ اپنے جذبات کو دل میں دبا لیتا ہے اور باہر سے سکون دکھانے کی کوشش کرتا ہے، چاہے اندر سے وہ تکلیف میں ہو۔ یہ ایک بہت ہی دلگداز اور جذباتی حالت ہے جسے شاعر نے اپنی شاعری میں انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔