Ticker

6/recent/ticker-posts

مرزا شوق کی مثنوی: ادب یا فحاشی| Mirza Shauq Masnavi: Literature or Obscenity

 

مرزا شوق کی مثنوی: ادب یا فحاشی| Mirza Shauq Masnavi: Literature or Obscenity

مرزا شوق کی مثنوی: ادب یا فحاشی

Mirza Shauq Masnavi: Literature or Obscenity 

مرزاشوق اردو کے معرف مثنوی نگار ہیں۔انہیں اردو کا بدنام شاعر بھی کہا جاتا ہے۔اردو کے مشہور تذکرہ نگاروں نے اول تو ان کا ذکر ہی نہیں کیا۔جن ادیبوں نے ان کے فن پر تبصرہ کیا ہے انہوں نے بھی بہت محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ان کے انداز تحریر پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ اپنی مثنوی میں اخلاق سے گرے ہوئے مناظر پیش کرتے ہیں۔ایسی باتیں جو مشرقی روایات کے خلاف ہیں اور جنسی ہوس کے زمرے میں آتی ہیں ،شاعر نے انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔

اگر قدیم دورکے دیگر اردو شعرا کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری بھی کچھ ایسی اخلاقیات کی پاس دار نہیں ہے۔میرو وسودا سمیت بیشتر شعرا نے اخلاق سے گرے ہوئے مضامین اپنے کلام میں شامل کیے ہیں۔شوق کے علاوہ اردو کے دیگر مثنوی نگاروں کا بھی یہی حال ہے۔زیادہ تر مثنویاں عیاش شہزادوں کے عشق کی داستانیں ہیں۔مثنویوں میں شاہزادے مہم پر نکتے ہیں ارو جہاں کوئی عورت ملتی ہے اسی سے عشق لڑانے لگتے ہیں۔اردو کے سب سے مشہور مثنوی نگار میرحسن کی مثنوی سحرالبیان بھی تو ایک عیاش شہزادے کا قصہ ہی تو ہے۔ ایسے میں مرزا شوق پر فحش گوئی کا الزام شاید اس لیے ہے کہ انہوں نے وصل کا جزوکل کھول کر بیان کیا ہے۔

ان کی کوئی بھی مثنوی جنسی منظر نگاری سے خالی نہیں۔مثنوی ’’بہارعشق‘‘ میں محبوب سے زبردستی کے مناظر جزیات کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔محبوب سے ہاتھا پائی سے اس کےکپڑے اترنے تک ایسے اشعار ہیں جن کی مثال اردو میں کم ہی ملتی ہے۔ان کے اسی اسلوب نگارش نے اردو تذکرہ نگاروں کو ان کی تعریف و توصیف سے دور رکھا۔مثنوی ’’بہارعشق‘‘  میں ’’اختلاط باطنی‘‘ عنوان کے تحت چند اشعار دیکھیے:

 

رگڑا،مسکا،لٹایا بٹھلایا

لیٹا پوٹا،دبایا پھسلایا

اٹھا،بیٹھا،،گھسیٹا،ٹہلایا

چمٹا،مسلا،دبوچا سہلایا

لذت تازہ اس نے جوپائی

نہ رہی شرم،بے خودی چھائی

 

مزید اشعار دیکھیے

 

دونوں جانب سے پیار ہونے لگے

خوب بوس و کنار ہونے لگے

ہوئے پھر ارتباط ان کے ساتھ

ٹانگوں میں ٹانگیں گردنوں میں ہاتھ

لو کبھی چوسی گدگدایا کبھی

ہونٹ کو دانتوں سے دبایا کبھی

 

درج بالا اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا شوق لکھنوی اپنی مثنوی میں محبوب سے وصل کا قصہ بیان کرتے ہوئے ہر اک حد پارکرجاتے ہیں۔وہ روحانی محبت کے قائل نہیں بلکہ جسمانی لذت کو خواہش مند ہیں۔یہی پیغام وہ اپنی مثنوی ے ذریعے اپنے قاری تک پہنچاتے نظر آتے ہیں۔


مرزا شوق کی مثنوی: ادب یا فحاشی| Mirza Shauq Masnavi: Literature or Obscenity


ادب کا ایک بڑا منصب معاشرے میں مثبت رویوں کو رواج دینا ہے۔کسی ملک کا ادب اس ملک کے عوام کی روز مرہ زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ادب پارہ کا اخلاقی حوالے سے داغ دار ہونا معاشرے پر ا چھا اثر نہیں ڈال سکتا۔’’بہار عشق‘‘کے اخلاقی معیار  کے بارے خواجہ احمدفاروقی لکھتے ہیں:

 

’’بہار عشق پرخروش جنسی رجحانات کی لذت افزا کہانی ہے۔‘‘

 

ان کی مثنوی ’’فریب عشق‘‘ سے چند اشعار جو شوق کے اسی اسلوب نگارش کا نمونہ ہیں۔

 

رہ بھی جاوں کی گر میں آج کی رات

وہ نہیں ہوگی تم۔جو سمجھے بات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لونڈی ہوں جب تلک جیوں گی میں

جو کہے گا وہی کروں گی میں

 

گویا وصل میں ہوس کاری کی جو فضا ’’بہار عشق‘‘ میں ہے،وہی فرب عشق میں بھی پائی جاتی ہے۔آئیے ان کی مشہور مثنوی زہر عشق سے اسی مضمون کے کچھ اشعار دیکھتے ہیں:

۔

پھر مرے سرپہ رکھ دو سر اپنا

گال پر گال رکھ دو پھر اپنا

پھر اسی طرح منہ سے منہ کو ملو

پھر وہی پیار کی باتیں کرلو

 

درج بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرزاشوق لکھنوئ نے مثنوی نگاری میں اس احتیاط کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ مناظر میں  اخلاق سوز مناظر شامل نہ کیے جائیں۔

مرزا شوق کی مثنوی نگاری پر تنقید کرتے وقت یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ دور  ہندوستانی معاشرے کے زوال کا دور تھا۔بادشاہوں کے دربار علوم و فنون کی سرپرستی کی بجائے ایسی سرکرمیوں کی آماج گاہ بنے ہوئے تھے جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں۔بادشاہوں اور نوابوں کے روزو شب  ان کی رنگین مزاجی کی تصویر پیش کرتے تھے۔ایسے میں شعرا ادبا بھی بدشاہوں کو خوش کرنے کے لیے ان کی پسند کا ادب تخلیق کرتے تھے تا کہ ان نہیں پزیرائی حاصل ہو۔بادشاہوں اور نوابوں کی ذہنی حالت مرزا شوق کی مثنویوں سے ظاہر ہے۔

کسی زبان کے فن پارے اس کے معاشرتی رجحانات کے عکاس ہوتے ہیں۔ایک اچھے شاعر و ادیب کا  ایک فرض یہ  بھی ہوتا ہے کہ وہ معاشرے  کے کھردرے حقائق کو سامنے لائے۔یہ مثنویاں بھی واجد علی شاہ کے دور کا منظر پیش کرتی ہیں۔شوق کی مثنویوں میں جذبات نگاری،محاورات کا استعمال،سادگی سلات سمیت اور کئی خوبیاں پائی جاتی ہی۔ان کی عریاں بیانی کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے 

خویوں کا بھی اعتراف کیا جانا چاہیے۔

تحریر:پروفیسراشفاق شاہین


مرزا شوق کی مثنوی: ادب یا فحاشی| Mirza Shauq Masnavi: Literature or Obscenity


  مرزا شوق لکھنوی: ادب یا بے راہ روی؟ | Literature or Vulgarity

مرزا شوق لکھنوی کی متنازعہ مثنوی | Controversial Masnavi

مثنوی، ادب اور اخلاقیات | Masnavi, Literature & Ethics

مرزا شوق لکنھوی: شاعری یا فحاشی | Poetry or Obscenity

ادبی مثنوی یا غیر اخلاقی تحریر  | Literary Masnavi or Immorality

مرزا شوق لکھنوی کی شاعری پر سوال | Questioning His Poetry

مثنوی میں اخلاقی کشمکش | Moral Dilemma in Masnavi

مرزا شوق اور ادب کا بحران | Literary Crisis"