Ticker

6/recent/ticker-posts

نظم کاارتقاء|اقسام|پابند نظم|معرانظم|آزادنظم Nazm Aghaz Irtqa Aqsam

نظم کاارتقاء|اقسام|پابند نظم|معرانظم|آزادنظم Nazm Aghaz  Irtqa Aqsam
اردو نظم کا آغاز و ارتقا اور اس کی اقسام پر معلوماتی مضمون


اردو نظم کا آغازو ارتقا اور اقسام

 

اردو نظم اوراس کی ارتقائی منازل

نظم عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کے لغوی معانی  لڑی،سلک،موزو،کلام،شعر،بندوبست اور انتظام کے ہیں۔

 نظم سے مراد کسی خاص موضوع کے تحت شاعری ہے۔اردو ادب میں نظم کی روایت زبان کی ابتدا سے جڑی ہوئی ہے۔اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اردو کی ابتدا ہی نظم سے ہوئی۔دکنی دور اردو کے ارتقا کا ابتدائی زمانہ کہا جاتا ہے،اس دورکے دکنی شاعروں نے نظم کو رواج دیا۔اس زمانے میں نظم کے نمونے بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ حضرت گیسو دارز کے والد سید یوسف حسین شاہ راجو کی نظم ’’چکی نامہ‘‘ اردو کی ابتدائی نظموں میں شمار ہوتی ہے۔یہ عوامی رنگ کی نظم ہے۔دکنی دور کے بادشاہ اورصاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ نے بھی رنگارنگ موضوعات پر نظمیں کہی ہیں۔ شمالی ہند میں اگرچہ غزل کا غلبہ رہا تاہم افضل جھنجھانوی اور جعفر زٹلی کے ہاں نظم کے نمونے دستیاب ہیں۔اردو کے قدیم دور میں ولی دکنی،حاتم،سراج اورنگآبادی نے نظم ہی کو رواج دیا۔ مرزا سودا کی مثنوی اور قصیدہ بھی نظم نگاری ہی کے دائرے میں آتے ہیں۔اردو کے ارتقائی دور میں شمالی ہندوستان میں زیادہ تر شعرا نظم کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے،اس کے باوجود نظم کہی جاتی رہی۔اردو میں خدائے سخن کا لقب پانے والے میر تقی میر نے بھی نظم نگاری کی۔ان کی نظم ’’گھر کا حال ‘‘ان کی مفلسی کا نقشہ پیش کرتی ہے۔



اردو کے قدیم دورمیں نظم کا ایک بڑا نام نظیر اکبر آبادی ہے۔ہندوستان کے شہراورنگ آباد میں پیدا ہونے والے اس درویش صفت شاعر نے اپنی نظموں میں رسوم رواج اور عوامی موضوعات کو نظم بند کیا۔نظیر اکبر آبادی کی ان ہی خدمات کی وجہ سے انہیں نظم کا باوا آدم کہا جاتاہے۔1857 کا دورہندوستان میں تباہی کا زمانہ تھا۔مغلیہ حکومت ختم ہو چکی تھی۔ہر طرف لوٹ مار کا سماں تھا۔ایسے میں شہروں کی بدحالی پر کئی نظمیں لکھی گئیں جو شہر آشوب کہلائیں۔جب ہندوستان میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا،شعرا کی بڑی تعداد نے عوام میں بیداری پیداکرنے کے لیے نظم کا سہارا لیا۔ان شعرا علامہ اقبال،ظفرعلی خاں مولانا حالی،محمد علی جوہر شامل ہیں۔بیسویں صدی کے آغاز سے ترقی پسند تحریک کے تحت عوامی حقوق پر نثر میں افسانے اور شاعری میں نظمیں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اردونظم کا یہ کارواں پوری آب و تاب سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

 

اردو نظم کی دو بنیادی اصناف

 

اردو نظم کو دو بڑی اصناف میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک غزل ہے اور دوسری نظم ہے۔

 

نظم کی روایتی اور موضوعاتی اقسام

 

اردو نظم شاعری کی وہ قسم ہے جو موضوع کے لحاظ سے بہت وسعت رکھتی ہے۔اردو شاعروں نے نظم میں دنیا کا ہر موضوع سمودیا ہے۔نظم میں کسی ایک عنوان پر ہی اشعار لکھے جاتے ہیں۔اس میں تعداد کی قید نہیں ہے۔ چاہے دس اشعار لکھے جائیں یا پھر دس ہزار لکھے جائیں،وہ سب ایک ہی عنوان کے تحت ہوں گے۔غزل کے برعکس نظم اپنی ہیئت یعنی ظاہری صورت کے حوالے سے کافی مختلف ہے۔اس کی کئی ظاہری صورتیں(Exterior Form) ہیں۔جن کو مختلف نام دیے گئے ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں:


 مثلث،مربع،مسدس،مخمس،مسبع،مثمن وغیرہ

 

·       فارسی روایت کے اعتبار سے نظم کی اقسام 

قطعہ،قصیدہ،رباعی،مثنوی،ترکیب بند،ترجیح بند اور مسمط وغیرہ

 

·       موضوع کے اعتبار سے نظم کی روایتی اقسام

ساقی نامہ،واسوخت،مرثیہ،سلام،شہر اشوب،نوحہ،سہرا،ماہیا،معراج نامہ،نور نامہ وغیرہ۔

 

·       ہندی روایت کے اعتبار سے روایتی اصناف

اشلوک،بھجن،کنڈلی،دوہا وغیرہ۔

 

·       جدید دور کے اعتبار سے نظم کی اصناف

نظم معری،آزاد نظم،نثری نظم۔



 ہیئت(Exterior Form) کے اعتبار سے نظم کی اقسام


اردو ادب میں ہیئت(Exterior Form) کے اعتبار سے نظم کو درج ذیل اقسام میں تقیسم کیا جاتاہے۔

 

1.پابند نظم

                            i.            مختصر نظم Epigram

                             ii.            نظم طویل Epic Poetry

                           iii.            نظم معری blank verse

 

2.آزاد نظم Free verse

3.نثری نظم Prose Poetry

 

1.پابند نظم

وہ نظم جس میں قافیہ ردیف ،وزن اور بحر کی پابندی کی جاتی ہے۔اس میں نظم میں روایت کاخیال رکھا جاتا ہے۔پابند نظم کی درج ذیل اقسام ہیں۔

 

  مختصر نظم

 

یہ نظم کی عام قسم ہے۔اس میں کسی ایک موضوع پر کچھ اشعار تحریر کیے جاتے ہیں۔اگرچہ اس میں اشعار کی تعداد متعین نہیں ہے۔لیکن اس کی طوالت مثنوی یا قصیدہ جتنی نہیں ہوتی۔علامہ اقبال کی نظم ایک پہاڑ اور گلہری،دعا،نظیر اکبر آبادی کی آدمی نامہ،بنجارہ نامہ ایسی ہی نظمیں ہیں۔اردو میں نعت اور حمد بھی اسی مختصر نظم میں شامل ہے۔اردو میں مجید امجد،فیض احمد فیض،ساحر لدھیانوی،الطاف حسین حالی،محمد حسین آزاد،اخترشیرانی،جوش،مولانا ظفرعلی خاں،حفیظ جالندھری،دلاور فگار،سید محمد جعفری،اسراالحق مجاز،سید ضمیر جعفری ،احسان دانش سمیت بہت سے شعرا نے مختصر نظم کہی ہے۔اردو کی مختصر نظم رنگارنگ موضوعات  اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

 

 نظم طویل

 

اردو کا ابتدائی دوراپنے اندر طویل نظموں کا ایک خزانہ لیے ہوئے ہے۔قدیم اردو مصنفین نے ابتدائی دنوں میں نثر کی بجائے شاعری کو اپنایا ۔اردو میں قصے کہانیوں پر مشتمل ادب کا ایک بڑاسرمایہ نظم کی صورت میں ہے۔ طویل نظم میں اردو مثنوی، قصیدہ کو اولین درجہ حاصل ہے۔دکن میں اردو کے قدیم مثنوی کے شعرا میں ملاوجہی،قلی قطب شاہ،سراج اورنگ آبادی شامل ہیں۔اردو کے کلاسیکل غزل گو شعرا نے بھی طویل نظم کی اس ہیئت کو اپنایاہے۔ان میں میرحسن،پنڈت دیا شنکرنسیم سمیت بہت سے شعرا شامل ہیں۔علامہ اقبال کی اسرار خودی ،رموزبے خودی اور شکوہ جواب شکوہ بھی طویل نظم کی مثال ہیں۔ قصیدہ نگاری میں سودا،مرزاغالب نے خاص کمال حاصل کیا۔جدید دور میں طویل نظم کا رجحان کم ہوگیا ہے۔

 

3.نظم معریBlank verse


معرا کے لفظی معانی ننگا،برہنہ اور خالی کے ہیں۔شعری اصطلاح میں نظم معری سے مراد ایسی نظم ہے جس میں قافیہ اور ردیف کا اہتمام نہیں ہوتا۔اردو میں یہ روایت انگریزی سے شامل ہوئی ہے۔نظم کی اس قسم میں قافیہ ردیف کی پابندی نہیں ہوتی۔اس کے مصرعوں کی تعداد جفت بھی ہو سکتی ہے اور طاق بھی ہو سکتی ہے۔نظم معری میں وزن اور بحر روایتی انداز میں استعمال ہوتے ہیں۔اردو میں اس نظم کی مثالیں شاعری کے کلاسیکل دور کے بعد ہی ملتی ہیں۔دور جدید میں مختلف شعرا نے اس پر طبع ازمائی کی ہے۔اردو میں شاعر مولانا آزاد، فیض احمد فیض اور مجید امجد کے ساتھ ساتھ بہت سے شعرا نے نظم معرا کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔مجید امجد کی نظم  ’’ایک کوہستانی سفر کے دوران میں‘‘نظم معرا کی مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔اس کے تیرہ مصرعے(لائنیں)ہیں۔اس میں قافیہ اور ردیف بھی موجود نہیں ہے لیکن بحر اور وزن موجود ہے۔جو یوں ہے

بحر رمل مثمن محذوف : فاعلاتن۔۔ فاعلاتن۔۔ فاعلاتن۔۔ فاعلن

 

4.آزاد نظم  

 

آزاد نظم کی روایت اردو شعروادب میں زیادہ پرانی نہیں ہے۔یہ  بھی انگریزی ادب سے اردو میں شامل ہوئی ہے۔اردو کی روایتی نظم میں قافیہ اور ردیف اس کے اہم اجزا مانے جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وزن اور بحر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اردو میں ان کے بغیر شاعری کا تصور بھی نہیں ہے۔آزاد نظم اردو زبان کی روایتی نظم سے ایک حد تک مختلف ہے اس میں  بحر تو موجود ہے لیکن وزن موجود نہیں ہے۔اس کا ایک مصرعہ لمبائی میں دوسرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ آزاد نظم میں موسیقیت تو پائی جاتی ہے لیکن ہر لائن میں اس کی مقدار بدلتی رہتی ہے۔اردو میں آزاد نظم کے کامیاب تجربے ہوئے ہیں۔


نظم کاارتقاء|اقسام|پابند نظم|معرانظم|آزادنظم


جدید دور میں کئی نامور شاعروں نے آزاد نظم کہی ہے۔اردو میں آزاد نظم کہنے والے شعرا میں فیض احمد فیض،میرا جی،ن۔م راشد،جاوید اختر،گلزار کے نام لیے جاسکتے ہیں۔آزاد نظم کے آغازکے زمانہ میں اس پر بہت بحث ہوئی ۔اس کو شاعری ہی تسلیم نہ کیا گیا۔اب ادبی حلقے اسے آہستہ آہستہ قبول کررہے ہیں۔اردو میں شعرا کی آزاد نظم پر مشتمل کئی کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔

 

5.نثری نظم

 

نثری نظم جدید دور کی پیداوار ہے۔اس میں نثر کو توڑ موڑ کر چھوٹے فقرات کی صورت میں لکھ دیا جاتاہے۔دیکھنے میں اس کی شکل آزاد نظم جیسی لگتی ہے۔حقیقت میں نثری نظم شاعری کے کسی قاعدے قانون پر پوار نہیں اترتی۔اس میں شاعری کی مروجہ خصوصیات ردیف،قافیہ،وزن،بحر،کچھ بھی نہیں پایا جاتا۔گویا یہ شعری فن سیکھنے سے فرار کی راہ اختیا کرنے والوں کا ایک حربہ ہے۔اگرچہ اردو میں نثری نظم کا تجربہ ہوا ہے۔لیکن اسے ابھی تک شعری صنف تسلیم نہیں کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اس میں کسی قابل ذکر شاعر نے کلام نہیں لکھا ہے۔

 

حوالہ کی کتابیں

 

  • §       اردو نظم ارتقائی سفر،مصنف سیفی سرونجی،بھوپال،انڈیا
  • §       اردو نظم کی دریافت،حمد کاشمیری
  • §       تاریخ ادب اردو،رام بابو سکسینہ
  • §       اردو نظم،اردو اکیڈمی،دہلی
  • §       جدید نظم کی کروٹیں،وزیر آغا،دہلی