Ticker

6/recent/ticker-posts

Muhammad Husain Azad ka Usloobمحمدحسین آزادکااسلوب|نیرنگ خیال

 

Muhammad Husain Azad ka Usloobمحمدحسین آزادکااسلوب|نیرنگ خیال
 کتاب نیرنگ خیال کی روشنی میں مولانا محمدحسین آزاد کا اسلوب نگارش


 

نیرنگ خیال اور مولانا محمدحسین آزاد Muhammad Husain Azad کااسلوب نگارش

 

مولانا محمدحسین آزاد اردو کے ایسے ادیب ہیں جن کی تحریر کاانداز سب سے جدا ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اسلوب(Wriying Style) کے خود ہی ایجاد کرنے والے ہیں۔ان کے بعد کوئی اس انداز سے مضمون نگاری نہیں کرسکا۔

یوں تو ان کی تمام تحریریں ان کے اسلوبUsloob کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن ان کی کتاب نیرنگ خیال(Nairang e khayal book) ایک ایسا شاہکار ہے جسے ان کے اسلوب تحریر(writing style) کی نمائندہ کتاب کہا جاسکتاہے ۔یہ کتاب خیالی مضامین پر مشتمل ہے۔اس میں صرف 14مضامین ہیں۔یہ مضامین اپنے تحریر کی وجہ سے اتنے اہم ہیں کہ اردو ادب میں مولانا محمد حسین آزاد کا مقام و مرتبہ متعین کرتے نظر آتے ہیں۔

 

نیرنگ خیال میں شامل مضامین تمثیل نگاری(allegory) کی صنف سے تعلق رکھتے ہیں ہے۔مولانا آزاد  نے انگریزی ادب سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ موضوعات کو اس انداز سے بیان کیا ہےکہ وہ ان کی ذاتی تخلیق محسوس ہوتے ہیں۔ان مضامین میں مناظر کی لفظی تصویرکشی

(Verbal Imagery) لفظی جادو گری نے ان کی تحریر کا خاص اسلوب ترتیب دیا۔ یہ انداز یا اسلوب اردو ادب میں ان کی خاص پہچان ثابت ہوا۔ان کے انداز تحریر میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں :

 

منظر نگاری (Imagery)

 

مولانا محمدحسین آزاد Muhammad Husain Azad کی تحریرکی ایک اہم خصوصیت ان کی منظر نگاری ہے۔وہ اپنے مضامین میں کوئی واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی تصویر کھینچ کے رکھ دیتے ہیں۔نیرنگ خیال کے تمام مضامین تمثیلی اور خیالی ہیں۔ان میں پائے جانے والے کرداروں اور مقامات کا عام زندگی میں کوئی وجود نہیں۔اس کے باوجود وہ حقیقی محسوس ہوتے ہیں۔اپنے ایک مضمون میں انہوں نے دنیا کا رنگ ڈھنگ بدل جانے کے بارے میں بتایا ہے اس کی تصویر یوں کھنچتے ہیں:

بلبلوں کے چہچہے،خوش آواز جانوروں کے زمزمے۔۔جابجا درختوں کے جھرمٹ تھے۔ان ہی کے سائے میں سب چین کی زندگی بسر کرتے تھے۔

 

اسی طرح کتاب میں شامل مضمون ’’گلشن امید‘‘ کی بہار میں باغ کا جو منظر بیان ہوا ہے اس سے حقیقی باغ کا گماں ہوتا ہے۔

 

اس تمثیل (allegory)میں انہوں نے باغ کا نقشہ اس عمدگی سے کھینچا ہے کہ مضمون پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔اسی طرح ان کی تمثیل انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا میں دکھ درد کا شکار انسانوں کے ہجوم کا جومنظر دکھایا گیا ہے،ان کی فنی مہارت کا ثبوت ہے۔

 

کردار نگاری (Characterization)

 

مولانا آزاد اپنی تحریرمیں کردار نگاری پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ان کی کتاب آب حیات(Aab-e-Hayat Book) ہو یا پھر نیرنگ خیال(Nairang e khayal book)  ہو۔ان کے تخلیق کردہ کردار پڑھنے والے کے ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں۔نیرنگ خیال ان کے تمثیلی مضامین (Allegorical essays)پر مشتمل کتاب ہے۔اس کے کردار فرضی ہوتے ہوئے بھی متحرک اور جیتے جاگتی زندگی کے افراد دکھائی دیتے ہیں۔ان کی تمثیل ’’باغ عالم کا رنگ کیا تھا کیا ہوگیا‘‘ میں خسرو آرام،غرور،خود پسندی،تدبیر،مشورہ اور محنت پسند کو بطور کردار پیش کیا گیا ہے۔انہوں نے ان کرداروں میں زندگی کا رنگ بھر دیا ہے۔اس تمثیلی مضمون میں ایک جگہ جب سب لوگ کہانی کے ہیرو  محنت پسند کے پاس جاتے ہیں ۔وہ ان کی حالت پر ہنستا ہے اوران کو بے وقوف کہتا ہے۔یہ سب ایسا قدرتی انداز میں لکھا گیا ہے کہ حقیقی زندگی محسوس ہوتا ہے۔مولانا محمدحسین آزاد Muhammad Husain Azad اپنے کرداروں میں زندگی کی روح پھونک دیتے ہیں۔وہ لفظوں سے ایسا پیکر تراشتے ہیں جو کتاب پڑھنے والے کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

 

نیرنگ خیال اور مولانا کی عبارت آرائی Word-Painting 

 

مولانا کے اسلوب نگارش کی سب سے اہم خوبی ان کی لفظ گری(Word Formation) ہے۔وہ اردو کے ایسے ادب ساز ہیں جو نثر میں شاعری کرتے ہیں۔اردو میں کا انداز تحریر قدیم لکھنوی ادب پاروں سے ملتا جلتا ہے۔وہ کہانی کو پرتکلف انداز میں مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔اردو کے قدیم نثری ادب میں یہ روایت رہی ہے کہ بات کو سیدھے انداز میں شروع کرنے کی بجائے پہلے لفظی بازی گری دکھائی جاتی تھی۔بالکل ایسے جیسے اردو اور فارسی کے شاعر بادشاہ کی تعریف میں قصیدہ لکھتے ہوئے اصل بات کرنے سے پہلے سو کہانیاں بیان کرتے تھے۔مولانا آزادبھی اصل بات پر انداز بیان کا رنگ چڑھا کر اسے خوب صورت بناتے ہیں۔کئی مقامات پر ان کے فقرات ہم قافیہ اور ہم دریف ہو کر نظم کا مزہ دیتے ہیں۔ان کی تحریر کی اصل خوبی ان کا عبارت لکھنے کا اندازہی ہے۔جس طرح وہ مزے لے لے کر لکھتے ہیں،عبارت پڑھنے والا بھی اسی طرح چٹخارے لے لے کر پڑھتا ہے۔نیرنگ خیال کے ایک آرٹیکل کا آغاز یوں کرتے ہیں۔

 

’’سیر کرنے والے گلشن حال کے اور دور بین لگانے ۔۔۔‘‘

 

تحریر کا یہ انداز عبارت پڑھنے والے کی توجہ حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔وہ مضمون لکھتے ہوئے بھی گویا قصہ بیان کرتے ہیں۔پڑھنے والوں کو ان کی عام بات میں بھی قصے اور کہانی کا سالطف ملتاہے۔مضمون نگاری میں قصہ گوئی اور نظم کا اسلوب اردو میں محمد حسین آزاد ہی کی تحریرکی پہچان ہے۔اسی لیے اردو ادب کے مشہور نقاد رام بابو سکسینہ نے ان کے اسلوب تحریر(Writing style) کے بارے میں یوں کہا تھا:

 

آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں۔

 

ان کا اسٹائل ان کی بے پناہ فنکارانہ صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ان کی عبارت کا انداز ان کے بعد کوئی نہیں اپنا سکا۔وہ خود ہی اس کے موجد تھے۔یہ فن اک کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔

 

نیرنگ خیال کا فارسی رنگ

 The Persian style of Nairang e khayal book 


اردو زبان مختلف زبانوں کے الفاظ کا مجموعہ ہے۔اس کا بڑا حصہ عربی فارسی الفاظ پر مشتمل ہے۔اردو زبان میں عبارت لکھنے والا کوئی بھی مصنف ان الفاظ کا استعمال کیے بغیر عبارت نہیں لکھ سکتا۔جدید دور کے مصنف بھاری بھرکم عربی فارسی تراکیب سے پرہیز کرتے ہیں۔اس کے باوجود ان کی تحریر میں عربی فارسی کے الفاظ ملتے ہیں۔اردو میں دبستان دہلی(Dabistan-e-Dehli) کے شاعر ادیب بھی ایک حد تک سادہ زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔وہ اپنی تحریر کو پرتکلف  بنانے کے لیے اس میں مشکل الفاظ اور فارسی تراکیب کا جابجا استعمال کرتے ہیں۔ان کی کتاب نیرنگ خیال عربی و فارسی زبان کے رنگارنگ الفاظ اور تراکیب سے بنے ہوئے مناظر کی گیلری ہے۔وہ لفظ گری کے بادشاہ ہیں۔چند تراکیب ملاحظہ فرمائیں:

گلشن حال،مسرت عام،بے فکری مدام،گل گشت،رنگ بے رنگ،محنت پسند خردمند۔


ان کی کتاب نیرنگ خیال (Nairang e khayal book)کی تحریریں اگر چہ انگریزی مضامین سے اخذ شدہ ہیں۔مولانا محمدحسین آزاد کے اسلوب(Writing style) نے انہیں ان ہی کی تخلیق بنا دیا ہے۔یہ کتاب ان کے خاص انداز تحریر کا شاہکار اور ان کے اسلوب کی نمائندہ کتاب قرار دی جاسکتی ہے۔اس کتاب کی عبارت نگاری نے انہیں اردو کا منفرد ادب ساز بنادیا ہے۔


تحریر:پروفیسراشفاق شاہین