Mirza shouq ki masnvi nigari k jinsi pelw pr itrazat |
مرزاشوق کی مثنوی نگاری عریانیت پر اعتراضات
مرزا شوق کا شمار اردو کے
اہم مثنوی نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کی تین مثنویاں ’’فریب عشق‘‘،’’بہار عشق‘‘ اور ’’زہر
عشق‘‘ ،ادب میں خاص مقام کی حامل ہیں۔بعض نقاد کہتے ہیں کہ ان مثنویوں کے ہیرو اصل
میں وہ خود ہی ہیں۔انہوں نے ان میں اپنی ہی داستاں بیان کی ہے۔ان کی مثنوی نگاری
پر عریانی اور ہوس کاری کا الزام بھی لگایا جاتاہے۔شوق کا اصل نام تصدق حسین
تھا۔وہ لکھنو کے شاہی طبیبوں کے خاندان میں سے تھے۔شوق کے والد نے بطورشاہی حکیم
اتنی جائیداد بنا لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر کوئی پیشہ اختیار نہ
کیا۔
مرزا شوق بہت خوش شکل اور
جاذب نظر تھے۔لباس کے انتخاب پر خاص توجہ دیتے تھے۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل
کی۔مرزا شوق نے جب شعر کہنا شروع کیا اس دور میں حیدرعلی آتش اور امام بخش ناسخ کی
شہرت تھی۔ان شاعروں کے شاگرد ملک بھر میں پھلے ہوئے تھے۔مرزا شوق نے حیدر علی آتش
کی شاگردی اختیار کی۔
مرزا شوق غزل سے شاعری کا
آغاز کیا لیکن جلد ہی شاعری کی صنف مثنوی کو اپنے لیے چن لیا۔اس دور میں معروف
شعرا میر حسن اور دیا شنکر نسیم کی مثنویوں نے شہرت حاصل کر رکھی تھی۔ایسے
میں شاعری کی اس صنف میں نام بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ شوق نے اس کے باوجود
اردو مثنوی میں انفرادیت قائم کی۔شوق کی تینوں مثنویاں بحر خفیف میں ہیں۔
ان کی مثنویوں کی اشاعت
کی کی تاریخ کچھ یوں ہے۔
- مثنوی فریب عشق 1846
- بہار عشق 1847
- زہر عشق 1859
ان کی تخلیقات میں زہر
عشق کو ان کاشاہکار قراردیاجاتاہے۔
مرزا شوق کی مثنوی نگاری پر اعتراضات
مرزا شوق کی مثنوی پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ ان کے ہاں جنسیت ملتی ہے۔ان کی مثنویوں میں جابجا ہوس پرستی اور عریانی کے مناظر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قدیم تذکرہ نگاروں نے ان کے فکرو فن پر کھل کر بات نہیں کی۔نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے فن کو وہ پزیرائی حاصل نہ ہوئی جو اس دور کے مثنوی نگاروں میر حسن اور دیا،شنکر نسیم کو حاصل تھی۔ان کی مثنویوں میں عریانی اور جنس زدگی کے حوالے سے کچھ اشعار حوالہ کے طور پر پیش خدمت ہیں۔
’’فریب عشق‘‘ کے چند اشعار دیکھیں:
کھینچ کر تالو سے لگ گئی
جوزبان
رحم کچھ ان کوآگیا اس آن
پر
روکے منہ رکھ دیا مرے منہ
پر
رکھ لیا سراٹھا کے زانو
پر
ان کی مثنوی’’ بہار عشق‘‘
کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیں:
سن کے یہ میں چمٹ گیا اک
بار
اورکرنے لگا اس سے بوس و
کنار
گہہ ڈرایا کہ کوئی آتا ہے
کبھی بولی کوئی بلاتا ہے
ہاتھا پائی میں ہانپتے
جانا
چھوٹے کپڑوں کو ڈھانپتے جانا
بال رخ کے سنوارتے جانا
چھوٹی کرتی اتارتے جانا
اس کےآگے وہی کچھ تحریر
ہے کہ جس کو مشرقی ادب میں پسند نہیں کیا جاتا۔
ان کی مثنوی’’ بہار عشق ‘‘میں
تو گویا جگہ جگہ ہوس پرستی کی بہار آئی ہوئی ہے۔ایک جگہ معشوق کے بارے تحریر کتے
ہوئے رقم طراز ہیں:
عجب کچھ ڈھنگ ہیں طبیعت
کے
بہت آراستہ ہو صحبت کے
زور سے لے لی ران میں
چٹکی
پڑے اس اختلاط پر پٹکی
مرزا شوق کی مثنوی میں جنسی معاملات کو خاص اہتمام سے بیان کیا گیا ہے۔وہ ایسے واقعات کو بڑے مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سارا واقعہ ان کے سامنے رونما ہورہا ہے۔ان کی مثنویوں کے اس پہلو پر لاکھ تنقید کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے انداز بیاں اور جزیات نگاری کی تعریف کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ان کی یہی خوبی ہی ان کی سب سے بڑی خامی ثابت ہوئی اوراکثر تذکرہ نگاروں نے ان کا ذکر ایسے نہیں کیا جس ان کے فن کا تقاضہ تھا۔
کتاب کلیات نواب مرزا شوق
لکھنوی میں ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:
’’مرزا شوق نے
اپنی مثنویوں یا واسوخت میں صرف عریانی اور ہوس پرستی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا بلکہ
اس شہنشاہ اقلیم سخن نے بیگماتی زبان میں واقعہ نگاری کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کو
اپنے فن پاروں کے ذریعے بہے کچھ دیا ہے۔‘‘
ان کی مثنوی کے مطالعہ سے
محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے مثنوی نگاری کو اپنے جنسی جذبات کے اظہار کا وسیلہ
بنایا۔ان کے ہاں کہانی یا پلاٹ پر اتنی توجہ نہیں ملتی جتنی ہوس کاری کی منظر
نگاری پر صرف کی گئی یے ۔وہ اس عریانی کے مناظر میں جزیات نگاری پر توجہ دیتے ہیں
اور یوں ایک جیتا جاگتا منظر تخلیق کرتے ہیں۔ایک ایسا منظر جسے دیکھتے ہی ایک
باحیا اور مشرقی روایات کا حامل شخص آنکھیں بند کر لیتا ہے۔تاہم کچھ نقاد اسے ان
کا خاص فن بھی قرار دیتے ہیں۔
ان کی مثنویوں میں ایسے
مناظر کی ایک وجہ شاید ان کا اپنا مزاج بھی ہو۔ان کی شخصیت کے بارے میں تحریر کرتے
ہوئے احسن لکھنوی نے انہیں عیش پسند اور رنگین مزاج قرار دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی
شاعر یا ادیب اپنے دور کا آئینہ ہوتا ہے وہ اپنی تخلیقات میں معاشرتی رویے
اور رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔اس تناظر میں دیکھاجائے تو شاعر نے اپنی تحریروں میں
معاشرے کی تصویر کشی کی ہے۔اس سے اردو ادب کے نقاد اور مصنف برا مان گئے۔حالانکہ
اردو کے مشہور نقاد مولانا حالی نے اصل ادب کی یہی خوبی بتائی ہے کہ اس میں حقائق
بیان کیے جائیں۔شوق کی مثنویاں اس روبہ زاورل دور کی جھلکیاں پیش کرتی ہیں،جس میں
وہ لکھی گئیں۔
امیرحسن نورانی مرتب زہر عشق یوں لکھتے
ہیں:
’’شوق نے اپنے
دورکے سماجی معاشرتی ماحول کی خامیوں اور خرابیوں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی
ہے۔‘‘
مرزاشوق کی مثنوی کو
فحاشی اورعریانی کا مجموعہ قرار دیا جائے یا اسے معاشرے کے رویوں کا عکاس
بتایاجائے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اردو ادب میں ایک اہم مثنوی نگار کی
حیثیت سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔انہوں نے اردو ادب کے بڑے بڑے مثنوی نگاروں میں
اپنے فن کے ذریعے مقام و مرتبہ حاصل کیا۔یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
کتابیات
مثنوی زہر عشق مرتبہ امیر
حسن نورانی،مکتبہ صبح اب،دہلی
کلیات نواب مرزا
شوق،مرتبہ شاہ عبدالسلام،لکھنو
بہار عشق،قیومی پریس،دھامپور انڈیا
مثنویات شوق،رشید حسن
خاں،دہلی
فریب عشق
باتصویر،ہندوستان پرنٹنگ ورکس،دہلی