مولانا الطاف حسین حالی کی نظم مسدس حالی(مدوجذر اسلام)کےاہم نکات |
مولانا حالی کی نظم مسدس حالی (مدوجذر اسلام)کے اہم نکات
مولانا الطاف حسین حالی اردو کے معروف مصنف اور شاعر تھے۔مسدس حالی ان کی
مشہورزمانہ نظم ہے،اس اسےمدو جذر اسلام بھی
کہتے ہیں۔یہ نظم تحریک آزادی کے دور میں لکھی گئی۔اس کا مقصد ہندوستانی قوم کو آزادی
کے لیے بیدار کرنا اور اسلام کے ترقی یافتہ دور کی یاد تازہ کرناتھا۔مسدس حالی قوموں کے عروج و زوال کی داستاں ہے۔۔درج ذیل سطور میں
اس نظم کا خلاصہ اس کے اہم نکات کی صورت میں دیا گیا ہے۔
نظم کا آغاز
مسدس حالی کا آغاز ڈرامائی انداز سے ہوتا ہے۔شاعر
نے مشہور فلسفی کے ذکر سے آغاز کیا ہے۔وہ بقراط کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے،کسی
نے اس سے پوچھا تھا کہ دنیا میں سب سے مہلک مرض کیا ہے۔جواب میں بقراط نے کہا کہ
جس بیماری کو آسان سمجھا جائے وہ دنیا کی سب سے خطرناک بیماری ہے۔جب مریض حکیم کی
بات پر توجہ نہ دیں۔ اگر انہیں دوا بتائی جائے تو وہ اس پر نکتہ چینی کریں۔اور یہ
بھی کہ مریض زندگی سے مایوس ہوجائے۔
اس کے بعد شاعر اصل بات کی طرف رخ کرتا ہے۔وہ کہتا
ہے کہ اس وقت قوم بربادی کا شکار ہے۔ہر طرف نحوست نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔اس پر ستم
یہ کہ قوم غفلت کی نیند سوئی ہوئی ہے۔اسے نہ اپنی حالت پر افسوس ہے نہ ہی اسے
دوسری قوموں کی ترقی پر رشک آتا ہے۔
قدیم عرب کی نقشہ کشی
مولانا حالی نظم مسدس حالی میں کہتے ہیں کہ یہ وہ
دین ہے جس نے دشمنوں کو دوستی سکھائی تھی۔جس مذہب نے درندوں کو غمخوار کردیا تھا۔سی
نے خانہ بدوشوں کو بادشاہ بنادیاتھا۔شعر
قدیم عرب بارے بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ وہاں کی آب و ہوا ایسی نہیں تھی کہ اس زمیں
پر کچھ پیدا ہوتا۔وہاں دور دور تک سبزہ نہیں بھی تھا۔لوگوں کی گزر اوقات بارش کے
پانی پرتھی۔وہ ایسی سر زمیں تھی جہاں ہروقت گرم ہوا چلتی تھی۔وہاں مصر کی طرح علوم
و فنون نہیں تھے ۔نہ وہاں یونان جیسی ترقی تھی۔لوگ توہمات کا شکار تھے۔
یہ وہ علاقہ تھا جہاں خدا کا پہلا گھر حضرت
ابراہیم نے تعمیر کیا تھا۔لیکن وہاں بت پرستی نے رواج پالیا تھا۔ہر اک قبیلے نے
اپنا بت بنا رکھا تھا جس کی وہ پوجا کرتے تھے۔اس وقت کے عدبی باشندے بہت وحشی
عادات کے مالک تھے۔اگر کہیں ایک دو افراد کی لڑائی ہوجاتی تو اس کی بنیاد پر سارے
قبیلے آپس میں لڑنے لگتے ۔ان میں بڑی وجوہات پر دنگا فساد نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ چھوٹٰی
چھوٹی باتوں پر مرنے مارنے پہ اتر آتے تھے۔کہیں جانوروں کے چرنے پر لڑائی ہوجاتی
تو کہیں پانی ہلے پینے پلانے پر وہ تلوار نکال لیتےتھے۔وہ بہت زیادہ شراب نوش بھی تھے۔
مدو جذر اسلام میں اسلام کی آمد کا بیاں
مولانا حالی عرب کی جہالت پر بات کے بعد اسلام کے
آغاز کی بات کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ عرب کی حالت زار پر خدا کی رحمت اچانک حرکت
میں آتی ہے۔اور آمنہ کے گھر حضرت محمد ص پیدا ہوتے ہیں۔وہ تمام انبیاء میں رحمت
کے لقب کے حامل ہیں۔انہوں نے غریبوں کی مرادیں پوری کیں۔عرب کے جنگ جو جو قبیلوں
کو امن پسندی کا سبق دیا۔ وہ غار حرا سے قرآن لے کر آئے اور لوگوں کو سچ کا رستہ
دکھایا۔آپ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔انہوں نے اپنی تعلیمات سے عرب کی زمیں کو
جگا دیا۔وہ لوگ جو دنیا میں بگڑی ہوئی قوم کہلاتے تھے انہیں مہذب بنادیا۔
انہوں نے دنیا کو سبق دیا کہ خدا اس شخص پر رحم
نہیں کرتا جس کے دل میں دوسروں کے لیے ہمدردی نہ ہو۔اگر تم چاہتے ہو کہ آسماں
والا خدا تم پر مہربان ہو جائے تب ضروری ہے کہ تم زمیں پر رہنے ولالوں سے پیار کرو۔
اسلام کی خدمات کی نقشہ کشی
مسدس حالی میں اسلام کے آغاز کے بعد اسلامی
کارناموں کاذکر کرتے ہیں کہ کس طرح نبی اقدس حضرت محمد ص کی تعلیمات سے فیض حاصل
کرنے والوں نے دنیا کی مختلف قوموں کی اخلاقی تربیت کی۔انہوں نے دنیا میں اجالا
کردیا۔خانہ کعبہ آباد ہوگیا۔نصرانیوں،اصفہانیوں نے مسلمانوں سے تہذیب سیکھی۔انہوں
نے جابجا سڑکیں تعمیر کرائیں۔درخت لگوائے،راہ گیروں کی پیاس بجھانے کے لیے کنویں کھدائے۔راستوں
میں سرائیں قائم کیں۔
اسلام سے منہ موڑنے کا نتیجہ
مدوجذر اسلام میں بتایا گیا ہے کہ جب مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑ
دیا تو وہ اپنے مقام و مرتبہ سے گر گئے۔ مولانا حالی کہتے ہیں لگتا ہے کہ لگتا ہے
،ہم سب کام کر چکے ایک موت کا انتظار کررہے ہیں۔نظم کے شاعر حالی، موجودہ دو کے
مسلمانوں کا دوسری قوموں سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج دیگر اقوام تجارت،تربیت،بیوپار
سب کچھ ہم سے سیکھ کر کر رہی ہیں مگر مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
قوموں کی بربادی کی وجوہات
مسلمانوں کی بے عملی کا ذکر کرنے کے بعد مولانا حالی
قوموں کی تباہی و بربادی کی وجوہات بیان کی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی قوم
برباد ہوتی ہے تو پہلے اس کا امیر طبقہ خراب ہوتا ہے۔اس میں کوئی کمال اور خوبی
نہیں رہتی،وہ عیش و عشرت کو ہی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔وہ سدا غفلت میں رہتے
ہیں۔وہ سواری کے بغیر دوقدم نہیں چلتے۔وہ ریشمی اور قیمتی لبا س پہنتے ہیں۔ہیں راگ
رنگ کی کی حفلوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔دوسروں کے دکھ درد کا ان پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔
مسدس حالی کا اختتام
مولانا حالی اپنی نظم (مسدس حالی) کے آخر میں
مسلمانوں کو خبردار کرتے ہیں کہ رہ نماوں کی باتوں کو پس پشت نہیں ڈالنا
چاہیے۔دنیا میں جن قوموں نے عروج پایا ان کا زوال تمہارے سامنے ہے۔نہ اہرام مصر کے
بانی دنیا میں رہے ہیں نہ ساسانی قوم کا کوئی نشاں باقی ہے۔شاعر اس درویشانہ کلام
پر اپنی بات ختم کرتا ہے کہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ دنیا سے امیر،غریب،غلام اور آزاد
سب چلے جائیں گے۔اک خدا کی ذات کو دوام حاصل ہے۔