ملا وجہی کی کتاب سب رس میں زبان و بیاں کی خوبیاں
ملاوجہی کی کتاب سب رس اردو کے قدیم ادبی فن پاروں میں سے ہے۔وجہی دکن کی
ریاست گول کنڈہ کے بادشاہ عبداللہ قلی قطب شاہ کے دربار سے منسلک تھے۔ان کی یہ
داستان اپنے خاص اسلوب اوررومانویت کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔تاہم ادبی
حوالے سے اس کی قدروقیمت کا اہم پہلو اس کی زبان ہے۔اردو کی ابتدا کے نظریات میں
سے ایک کے مطابق اردو کا آغاز دکن سے ہوا۔ قصہ سب رس کے مطالعہ سے اس زبان کے
ابتدائی خدوخال کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو بعد میں ریختہ اور پھر اردو کے نام سے
مشہور ہوئی۔ سب رس کی زبان چارسو برس پرانی ہے۔اور اس کا املا اور تراکیب نگاری
بھی جدید اردو زبان سے مختلف ہے۔اس میں استعمال ہونے والے اکثر الفاظ اب متروک
ہوچکے ہیں۔مثنوی سب رس کے مطالعہ سے اس میں پائی جانے والی زباں وبیاں
کی مندرجہ ذیل خصوصیات سامنے آتی ہیں۔
سب رس کی لسانی خصوصیات
مسجع و مقفی عبارت
سب رس کی زبان مسجع و مقفی ہے۔ملاوجہی نے قصہ بیان کرنے میں ردیف و
قافیہ کا خاص خیال رکھاہے۔سب رس پڑھتے ہوئے اس کی عبارت میں ایک خاص آہنگ ملتا
ہے۔وجہی عبارت میں ہم قافیہ اور ہم ردیف الفاظ استعمال کرکے داستان کا تاثر بڑھانے
کا فن جانتا ہے۔
اردو میں پرتکلف اور مسجع و مقفی عبارت کی بڑی مضبوط روایت رہی ہے۔فسانہ
عجائب سمیت کئی داستانیں ایسی ہی عبارت آرائی کے لیے مشہور ہیں۔سب رس کی قافیہ اور
ردیف پر مبنی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ ملا وجہی نے نثر نگاری میں جو انداز
اپنایا۔آنے والے زمانے میں اس کی پیروی کی گئی۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
حسن نار،اوتار۔۔۔۔دیدیاں کا سنگھار،دل کا آدھار۔پھول ڈالی تے خوب لٹکتی،چلنے
میں ہنس ہنس جوں ہٹ کتیراوی تے میٹھی بولے بات،آواز تے قمری کو کرے شہ مات۔
درج بالا اقتباس سے لکھنوی انداز تحریر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔یوں سب رس کی
عبارت لکھنوی دبستاں کا اولین نقش قرار دی جا سکتی ہے۔ سب رس کی زبان کے
بارے میں معروف نقاد نور الحسن ہاشمی لکھتے ہیں :
وجہی نے اپنی مقفی عبارت کو اس فصاحت روانی سے لکھا ہے کہ اس کے پڑھنے میں
ایک آہنگ پیدا ہو جاتا ہے جو پرلطف ہوتا ہے۔
سب رس میں تشبیہ اور استعارہ کی نادر مثالیں
کسی بھی ادبی فن پارے میں تشبیہ اور استعارہ کا استعمال اس کی معنویت میں
اضافہ کرتا ہے۔ان کی مدد سےمصنف اپنا نکتہ نظر کی بہتر طور پر بیان کر سکتا
ہے۔ملاوجہی نے اپنی داستاں کو پرمعانی بنانے کے لیے جابجا ان اصطلاحات کا ستعمال
کیا ہے۔اس کی تشبیہات اور استعارے کہیں سے درآمد شدہ نہیں ہیں ۔ان میں دکن کی مٹی
کی خوشبو بسی ہے۔وہ ہندوستانی معاشرت کا حصہ ہیں۔نور الحسن ہاشمی رقم طراز ہیں:
ان میں ہندی تمدن اور تہذیب کی چھاپ ہرجگہ نظر آتی ہے۔
وہ اپنے محبوب کو اوتار صورت کہتا ہے۔اس کے ہاتھوں کو کنول کی پنکھڑیاں
بتاتا ہے۔محبوب کی آواز کو قمری کی آواز سے تشبیہ دیتا ہے۔قصے میں جابجا خوب صورت
تراکیب کا استعمال بھی ملتا ہے۔اردو کی ابتدا میں چونکہ فارسی کا عمل رہا ہے
چنانچہ اردو زبان کے ابتدائی نمونو ں میں فارسی کی کا گہرا اثر پایا جاتاہے۔کتاب
سب رس کی زبان بھی ایسی ہی ہے۔اس میں ہندی اور فارسی تراکیب کا خزانہ ملتا ہے۔وجہی
نے نشونما پاتی ہوئی زبان کو مقامی الفاظ سے فارسی کا ملاپ کرکے منفرد تراکیب سے
مزین کیا ہے۔مثال کے طور پر
اوتار صورت،من موہن،گن بھری ،فہم
داراں،گن داراں
سب رس کی صرف و نحو اور املا
چوں کہ یہ قصہ قدیم دور کی یادگار ہے چنانچہ اس میں گرامر اور املا کے وہ
مسلمہ اصول تو نہیں ملتے ، جن پر آج کی اردو زبان کی عمارت کھڑی ہے۔اس سے یہ پتہ
ضرور چلتا ہے کہ اس دور میں املا کیسا تھا اور گرامر کے قواعد کیا تھے۔درج ذیل
سطور میں بس رس کی چیدہ چیدہ صرفی و نحوی خصوصیات کا جائزہ لیا جاتا یے۔
سب رس کی صرفی و نحوی خصوصیات
عصر حاضر میں مصادر کی ماضی مطلق کے لیے فعل امر کے آگے الف کا اضافہ کر
دیتے ہیں جیسے سننا سے سنا،پڑھنا سے پڑھا،ملنا سے ملا۔لیکن دکنی میں یہ اصول رائج
نہیں تھا۔اس میں آگے یا کا اضافہ کیا جاتا تھا۔جیسے سننا سے سنیا،پڑھنا سے
پڑھیا،بولنا سے بولیا۔
اس دور میں ضمائر کو لکھنے کا انداز موجودہ دور کی عبارت سے مختلف تھا۔مثال
کے طور پر
ان کو کی بجائے اونو کوں لکھا جاتا تھا
وہ کی بجائے وو لکھتے تھے۔لفظ مجھ اور تجھ کو مج تج اور یہ کو یو تحریر کیا
جاتا تھا۔
حرف اضافت جمع کے صیغے میں بھی استعمال ہوتا تھا جیسے
کرنے کیا بہت سی باتاں ہیں۔
الفاظ کی تذکیر و تانیث کے معاملہ میں احتیاط نہیں برتی جاتی تھی۔بعض مونث
اشیا کو مذکر اور مذکو کو مونث لکھ دیاجاتا تھا۔مثال کے الفاظ طور پر خبر،صورت
وغیرہ مذکر تحریر کئے گئے ہیں۔
عربی کے کئی الفاظ کو اسان انداز میں لکھ دیا گیا ہے۔جیسے نفع کو نفا،واقعہ
کو واقعہ،معاملہ کو ماملہ تحریر کیا گیا ہے۔گویا دکنی زبان میں جس لفظ کو جس طرح
بولا جاتاتھا،اسی طرح لکھ دیا جاتا تھا۔
سب رس میں لفظ کے جمع بنانے کے اصول پنجابی زبان کے قواعد سے ملتے
ہیں۔پنجابی میں اکثر الفاظ کے آگے یاں لگا کر ان کی جمع بنا لی جاتی ہے۔یہی اصول
قدیم دکنی زبان میں بھی ملتے ہیں۔مثال دیکھیں:
ساری سے ساریاں
باری سے باریاں
ایسی سے ایسیاں
جتنی سے جتنیاں
سب رس میں حرف( نے) کا استعمال جس طرح ملتا ہے ویسا اردو شعرا میر تقی میر
کے زمانے تک لکھا جاتا رہا۔
رقیب نے ،روسیاہ نے بولیا۔
کسی لفظ کے آخر میں چ یا چہ کا حرف تاکید کی نشان دہی کرتا ہے۔جیسا کہ یونچ
سے مراد یوں ہی لی جاتی تھی۔
سب رس میں جہاں تکرار لفظی ملتی یے وہاں درمیاں میں ے کا استعمال ملتا ہے:
گھر گھر کی جگہ گھرےگھر
در در کی جگہ درے در
فارسی میں بندہ سے بندگی۔خستہ سے خستگی بنتا ہے۔ملاوجہی کی سب رس سے پتہ
چلتا ہے کہ قدیم دکن میں اسی انداز سے پریشانگی،سرگردانگی وغیرہ الفاظ بنائے جاتے
تھے۔
درج بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سب رس صرف ایک قصہ ہی نہیں بلکہ
زبان و بیاں کے حوالے سے بھی ایک دستاویز ہے۔مصنف نے اردو کے ابتدائی دور میں اس
نئی زبان کو خوبی سے برتا ہے۔اس میں خوب صورت تشبیہات اور استعارات کا اصافہ کیا
ہے۔بلاشبہ ملاوجہی اردو کے ان معماروں میں شامل ہے جنہوں نے زبان ہو ترقی دینے میں
قابل تحسین خدمات انجام دیں۔
تحریر:پروفیسر اشفاق شاہین
حوالہ کی کتب
سب رس،مرتبہ نورالحسن ہاشمی،اردو اکیڈمی،لکھنو
قصہ حسن و دل،ہولی،انڈیا
قطب مشتری،ملا وجہی،رفاہ عام،گلبرگہ
سب رس،ملا وجہی،انورسعید اختر ڈاکٹر،ممبئی