Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی گلزار نسیم|خصوصیات|ادبی مقام|Gulzar-e-Naseem ki khoobyan

مثنوی گلزار نسیم|خصوصیات|ادبی مقام|Gulzar-e-Naseem ki khoobyan
پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم المعروف قصہ گل بکاولی کے فکری و فنی جائزہ پرمبنی ایک تحریر

 

مثنوی گلزار نسیم کی خصوصیات اورادبی مقام و مرتبہ

 

مثنوی گلزار نسیم

اردو زبان و ادب میں مثنوی نگاری کی روایت اس کی تاریخ سے جڑی ہے۔اردو کے آغاز کے کچھ عرصہ بعد ہی مثنوی نگاری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں مثنوی کا ایک خزانہ موجود ہے۔اگر مقبولیت کےلحظ سے سے درجہ بندی کی جائے تو اردو مثنوی کی طویل فہرست میں دو مثنویاں سرفہرست نظر آتی ہیں۔ان میں سے ایک مثنوی سحر البیاں ہے جب کہ دوسری مثنوی گلزار نسیم ہے۔

گلزار نسیم کا دوسرانام  قصہ گل بکاولی ہے۔اس کے مصنف پنڈت دیا شنکر نسیم ہیں۔دیا شنکر نسیم اردو کے ان ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے بہت کم عمر پائی۔وہ 1811ء میں پیداہوئے اور صرف32سال کی عمر میں 1843 کو وفات پاگئے۔یہ مثنوی ان کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔گلزار نسیم ان کا ایک ایسا شاہکار ہےجس نے انہیں اردو ادب میں زدندہ و جاوید کردیا ہے۔

مثنوی گلزار نسیم میں فکری اور فنی حوالے سے ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو اسے اردو ادب کی دیگر مثنویوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ان ہی خوبیوں کی سے آج بھی گلزار نسیم کو اردو میں بلند مقام حاصل ہے ۔

درج ذیل سطور میں ان خصائص کا جائزہ لیا جاتا ہے جن کے باعث اس مثنوی کو ادب میں اعلی مقام حاصل ہوا۔

 

منفرد انداز بیاں

 

مثنوی گلزار نسیم کی ایک خوبی اس کا خوب صورت اور منفرد انداز بیاں ہے۔یہ مثنوی حسن بیان کے حوالے سے کسی طور بھی سحرالبیان مثنوی سے کم نہیں  ہے۔دیا شنکر نسیم قصہ بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔وہ کرداروں کی زبان سے واقعات کو بے تکلف انداز سے کہتے چلے جاتے ہیں۔ان کی  مثنوی پر حیدرعلی آتش کا وہ شعر صادق آتا ہے جس میں انہوں نے شعر میں الفاظ پرونے کو نگینے جڑنے کا فن قرار دیا تھا۔ ۔لکھنوی انداز تحریرپہ عام طور پر یہ اعتراض اٹھایاجاتا ہے کہ شاعر کی ساری توجہ صرف لفظ گری پر مرکوز رہتی ہے۔اس سے کہانی دب کر رہ جاتی ہے۔پنڈت دیا شنکر نسیم کے معاملے میں ایسا نہیں ہے ان کا انداز بیاں اصل واقعہ کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کی تفہیم میں مددگار  ثابت ہوتا ہے۔اوردو کے معروف ناقد رشید حسن خاں مصنف کے اندازِ بیاں کے بارے میں لکھتے ہیں۔

 

انہوں نے لفظی صنائع خاص طور پر رعایت لفظی کو اپنا شیوہ قرار دیا۔لیکن ان کے سلیقے نے اس کو لفظوں کا بے کیف کھیل بنانے کی بجائے نعنی آفرینی کا ایک نیاانداز بنا دیا۔

 

مافوق الفطرت فضا

 

داستاں اور مثنوی کی ایک بڑی خوبی اس کی مافوق الفطرت فضا  ہے۔جو کہانی پڑھنے والے کو ایک اور ہی دنیا میں لے جاتی ہے۔وہ اپنے آپ کو جنات اور پریوں کے دیس میں پاتا ہے اور کرداروں کی مہم جوئی میں خود کو ان کے ہمراہ پاتا ہے۔اس طرح قصہ کہانی میں اس کی دلچسپی بڑھتی ہے۔پنڈت دیا شنکر نسیم اس فن کے خوب ماہر ہیں۔ان کی مثنوی میں ایسے کئی کردار ہیں جو طلسماتی فضا تیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مثال کے طور پر پری بکاولی،حمالہ دیونی،جمیلہ،حمالہ کا بھائی دیو۔اس کے علاوہ جادو کا شہر وغیرہ

جب دیونی حمالہ،شہزادہ تاج الملوک کو گل بکاولی کے باغ تک پہنچاتی ہے یہ حیرت ناک منظر قاری کے لیے بڑھادیتا ہے ۔ اسی طرح دیونی حمالہ کا اپنے جادوئی بال شہزادہ تاج الملوک کو دینا، پری کا روپ بدل کر انسان بن جانا۔بکاولی کا کسان کے گھر میں دوسرا جنم لینا۔۔۔

یہ سب کہانی کے مافوق الفطرت پہلو ہیں جو اردو مثنوی کا حصہ رہے ہیں۔اس کی دلکشی کا باعث ہیں۔گلزار نسیم میں شامل ایسے مناظرمصنف کی فنی مہارت کا ثبوت ہیں جن سے مثنوی کی قدرو قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
 

 

گلزار نسیم کی منفرد بحر

 

پنڈت دیا شنکر نسیم نے اپنی شہرہ آفاق مثنوی کے لیے بحر ہزج مسدس کا انتخاب کیا ہے۔مثنوی کے اشعا درج ذیل وزن پر ہیں

ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف

مفعول مفاعلن فعولن

اگر چہ یہ ایک مختصر بحر ہے لیکن اس میں روانی سے اشعار کہنا استادانہ فنکاری کا متقاضی ہے۔دیا شنکر نسیم نے اپنی مثنوی کے لیے اس بحر کا انتخاب یقینا سوچ کر کیا ہوگا۔اس نے جس طرح اشعار میں لفظوں کی جادو گری دکھائی ہے ۔اسی طرح مثنوی کی بحر اور وزن سے بھی پورا انصاف کیا ہے۔اس نے واقعات کرتے ہوئے عمدہ اشعار نکالے ہیں۔مثنوی کے بعض اشعار تو سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہیں۔نسیم کے ہاں الفاظ کی نشست و برخاست ایسی ہے کہ شعر پڑھنے والا کسی دقت کا شکار نہیں ہوتا۔یہ خوبی بھی مثنوی گلزار نسیم کی اہمیت میں اضافہ کا باعث بنی ہے۔

 

 گلزار نسیم کا اختصار


اردو میں لکھی جانے والی داستانوں اورمثنویوں میں شعرا منظر نگاری پر اتنی زیادہ توجہ صرف کرتے رہے ہیں کہ اصل کہانی کہیں دب کر رہ جاتی ہے۔اس کے برعکس یہاں مصنف نے فضول منظر کشی،رسوم و رواج کے بیان اور حد زیادہ جذبات نگاری پر وقت صرف نہیں کیا ۔اس کی زیادہ توجہ کہانی اور کرداروں کی طرف مرکوز رہی ہے۔یہ رویہ اردو میں مثنوی نگاری کی روایت سے ہٹ کر ہے۔اردو کے بعض نقاد اس پہلو کی تعریف کرتے ہیں اور کچھ نے اس پر تنقید کرتے ہوئے اسے کہانی کی تفہیم میں رکاوٹ بھی بتایا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ مرقع نگاری سے قاری کی کی کہانی سے دلچسپی ختم ہوجاتی ہے ۔ گلزار نسیم کی اسی خوبی کے بارے میں رشید حسن خاں لکھتے ہیں:


اس میں مبالغہ نہیں کہ نسیم نے اتنے ہی الفاظ استعمال کیے ہیں جو از حد ضروری تھے۔

(مثنوی گلزار نسیم ،مرتب رشید حسن خاں،ص9)

 

واقعات میں ربط و تسلسل

 

گلزار نسیم آغاز سے اختتام تک ایک منظقی انداز لیے ہوئے ہے۔ایک کے بعد دوسرا واقعہ اس طرح رونما ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہئے کہ اس کے بغیر کہانی آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔مثنوی میں باپ کی بینائی جاتے رہنا اور اس کی بحالی کے لیے بیٹوں کا نکل کھڑا ہونا۔ کہانی میں دل بر کی آمد،شہزادہ تاج الملوک کاسفر پر نکلنا اور بکاولی کا پھول حاصل کرنا یہ سب واقعات  آپس میں اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ کسی سی واقعہ میں ردوبدل سے کہاںی بکھر جاتی ہے۔کہانی کا یہی تسلسل مثنوی میں دلچسپی بنائے رکھتا ہے۔

 

گلزار نسیم کے جاندار اور عملی کردار

 

اردوادب میں مثنوی کے کرداروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کہانیاں شہزادوں کی مہم جوئی پر مشتمل تھیں۔مثنوی کے ہیرو کسی خوبی کے مالک نہیں ہوتے تھے۔وہ عملی زندگی میں حالات کے رحم و کرم پر ہوتے تھے۔کہانیوں میں ان کا کردار ایک عیاش اور شراب خور شخص کا ہوتا تھا۔وہ خود کچھ نہیں کرتے تھے ۔ان کے لیے وزیر زادے اور جنات ہی خدمات انجام دتے تھے۔ گلزار نسیم کی یہ خوبی ہے کہ اس کے کردار عملی ہیں۔وہ جامد نہیں ہیں ۔اپنے حالات کی بہتری کےلیے خود مشکلات کا سامناکرتے ۔شہزادہ تاج الملوک اگرچہ پری اور جن سے مدد لیتا ہے لیکن وہ کہانی کی ضرورت ہے۔وہ اپنے رستے کی زیادہ تر مشکلات خود ہی دور رتا ہے۔سی طرح پری بکاولی کا کردار بھی عملی ہے۔شہزادے کے چاروں بھائی بھی مثنوی میں اپنی حیثیت کے مطابق سرگرم نظر آتے ہیں

پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی میں پائی جانے والی درج بالا تمام خوبیاں اسے اردو کی دیگر مثنویوں سے ممتاز کرتی ہیں۔مصنف نے فنی مہارت سے مثنوی گلزار نسیم کو اردو ادب میں بلند مقام تک پہنچایا اور خود ادبی دنیا میں شہرت پائی۔

تحریر:پروفیسر اشفاق شاہین

 

حوالہ کی کتب

مثنوی گلزار نسیم،مصنف دیا شکر نسیم

مثنوی دیا شنکر نسیم،مرتب،رشید حسن خاں۔مکتبہ جامعی،دہلی

گلزار نسیم ،انتخاب دیوں نسیم،مرتب برج نرائن چکبست،لکھنئو

گلزار نسیم ،مرتب پروفیسر رفیق حسین،الہ آباد