اس مضمون میں مرزاغالب کی ان شاعرانہ خصوصیات پر بحث کی گئی ہے جو ان کی انفرادیت کا باعث ہوئیں۔ |
مرزا غالب کی شاعرانہ عظمت
اردو زبان کے آغاز سے اب تک ہزاروں چاند ادب کے آسمان پر
ابھرے اور اپنی چمک دکھا کر غروب ہو گئے۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ناموری اور
مقبولیت نے جن کے قدم چومے ان خوش نصیبوں کی تعداد بہت کم ہے۔اردو کےان عظیم شعرا میں
ایک معتبر نام مرزا اسد اللہ خاں غالب کا
ہے۔صدیاں گزرنے کے باوجودآج بھی ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔وقت کے
ساتھ ساتھ ان کی شعری و ادبی قدرو منزلت کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں مسلسل اضافہ
ہوتا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اردو شاعری میں جس قدر کام مرزا غالب کے فکر
و فن پر ہوا ہے وہ کسی اور شاعر اور ادیب کے حصے میں نہیں آیا۔ان کی شاعری ان کی
نثر پر تحقیقی و تنقیدی مواد سے لائبریریاں بھری ہوئی ہیں۔یونی ورسٹی کی سطح پر
اور انفرادی نہج پر ان پر تحریر
کیے گئے مقالہ جات کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار دکھائی دیتی ہے۔
اگرچہ مرزا غالب کی شاعری کم و بیش ان ہی موضوعات کا
احاطہ کرتی ہے جو اس وقت ان کے ہم عصر
شعرا کی شاعری کا بنیاد ی رنگ تھے۔محبوب کی بے وفائی، معشوق کا حسن،زندگی کی بے
ثباتی،قاصد،رقیب کا تذکرہ ،یہی غزل کے موضوعات تھے۔اسی دائرے میں رہتے ہوئے تمام
شعرا اُس دور میں شاعری کررہے تھے۔ایسے میں غزل کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے نیا
پن پیدا کرنا کئی آسان کام نہیں تھا۔اسی دشوار کام کو مرزا غالب نے اپنانا ہی غالب کی شاعرانہ عظمت کا باعث بنا۔انہوں
نے اپنی خداد صلاحیتوں سے اردو غزل میں تازگی،معنویت اور جدت کی ایک نئی فضا پیدا
کی۔ فرسودہ مضامین کو اس انداز سے باندھا کہ ان کی چمک دمک میں اضافہ کردایا۔آئیے
دیکھتے ہیں کہ مرزا غالب کی غزل میں ایسی کون سی امتیازی خصوصیات ہیں جنیوں نے ان
کو اردو غزل کے میدان میں بلند مرتبہ پر فائز کیا۔ان کی مقبولیت کواردو اب کے
صدیوں پر محیط کینوس پر پھیلا دیا۔
مضمون آفرینی یا نکتہ افرینی
مرزا غالب کی شاعرانہ برتری
کی ایک بڑی وجہ ان کا خاص انداز فکر ہے۔وہ غزل میں عام سا اور سادہ سا خیال پیش
کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ بات سے بات نکالتے ہیں۔ان کے اشعار میں ادب کے قاری کو نئے
نئے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔وہ زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور اپنے خاص
مشاہدے کی خوشبو سے رچا بسا کر پیش کرتے ہیں۔اس کی چھوٹی یہ مثال یہ ہے کہ ہر شاعرنے
قفس یعنی قید خانہ کے حوالے سے شعر کہے ہیں۔صیاد کا پنچھی کو قید میں ڈال دینا اور
اس پر ظلم و ستم کرنا ایک فرسودہ اور گھساپٹا موضوع ہے۔ جب اس پرانے تخیل کو مرزا
غالب اپنے شعر میں استعمال کرتے ہیں تو ایک نیا مضمون نکال لاتے ہیں۔ان کا شعر
بس کہ ہوں غالب اسیری ۔۔۔
ایسا منفرد شعر ہے جس میں انہوں نے اپنی زنجیر کے حلقے کو موئے آتش دیدہ کہہ کر شعر میں تازگی کی روح پھونک دی ہے۔یہی غالب کا وہ خاص انداز ہے جو اسے اردو غزل کے دیگر شعرا سے منفرد اور ممتاز بناتا
ہے۔
مرزا غالب کی شاعرانہ عظمت کے بنیادی عناصر پر ایک تحریر |
غالب کی شاعری میں نادر تراکیب
اردو شاعری میں مشکل پسندی کے لیے دبستان لکھنئو اپنی خاص پہچان رکھتاہے اوردلی کے ادیب اپنی سادہ نگاری کے حوالے سے جانئے جاتے ہیں۔تاہم مرزاغالب دبستان دہلی کے ایسے شاعر ہیں جنہوں نے شاعری میں مشکل اور انمول تراکیب نگاری پر خاص توجہ دی ہے۔ان کے کلام میں جابجا نادر تراکیب دکھائی دیتی ہیں۔یہ تراکیب ان کے کلام کی دل کشی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ معانی میں وسعت بھی پیدا کرتی ہیں۔ غالب کی غزل میں لفظی تراکیب ان کی جدت طبع کی بھی نشان دہی کرتی ہیں۔اکثر تراکیب ان کی اختاؑ اور افتاد طبع کا ثبوت ہیں۔ ۔ایک شاعرو ادیب اپنی زبان کے لیے جو خدمات پیش کرتا ہے ان میں سے نئے الفاظ اس زبان شامل کرنا بھی ہے۔غالب نے اردو غزل کو بہت سے نئے اشعار نئے اشعار اور
نئی لفظی تراکیب دی ہیں۔درج ذیل لفظی پیکر ملاحظہ فرمائیں
دودِچراغ محفل،بازیچہ اطفال،آتش زیر پا،لذت ریش جگر،عشرت پارہ
دل،زنجیر موجِ آب،تار شعاع،جادہ رہ خور
مرزا غالب کی شاعری خوب صورت اور انمول الفاظ کا بیش بہا خزانہ ہے۔انہوں
نے جس طرح اردو تراکیب کو تراشا یہ صرف ان ہی کا کام ہے۔
مرزا غالب کی طرف تراکیب کے انتخاب میں اس بات کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے کہ گھسی پٹی اور فرسودہ تراکیب غزل کے اشعار میں شامل نہ ہوں۔انہیں تراکیب آفرینی کا بادشاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ان کی شاعری کی یہ خوبی انہیں دسروں کے مقابلے میں انفرادیت عطا کرتی ہے۔
مدلل انداز بیاں یا منطقی انداز
شعرو نثر ہو یا عام زندگی کسی موقف کو مضبوط بنانے کا اہم ذریعہ دلیل ہے۔ غالب اس کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے۔ان کی شاعری میں استدلال کا رنگ نمایاں ہے۔وہ بے پر کی نہیں اڑاتے بلکہ ہر بات کی وجہ اور منطق بھی ساتھ پیش کرتے ہیں۔اردو شاعری میں ایسی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔معاملہ حسن و عشق کا ہو یا زندگی کا کوئی اور پہلو
ہو غالب کا مدلل انداز ان کے بیان کا حصہ بناہوا ہے۔
مرزاغالب کی شاعرانہ عظمت کے بنیادی عناصر پر مضمون |
پہلے شعر میں آبلوں سے طبعیت میں گھبراہٹ کا خاتمہ کی وجہ راستے کے کانٹوں کو بتایا گیا ہے۔ گویا جب خار چبھ جئیں گے تو آبلے پھوٹ جائیں گے اور تکلیف سے نجات ہوگی۔اسی طرح دوسرے شعر میں بات نہ کرنے کی بنیادی وجہ بتائی گئی ہے۔اسی طرح اگلے شعر میں شاعر اپنی زندہ رہنے کا سبب محبوب کا جھوٹا وعدہ بتا رہا ہے۔غالب کا یہ انداز اس کے احساس و جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
غالب کے اشعار کی پہلوداری
مرزا غالب کی شاعری کا وہ
رنگ جس کا اردو ادب کے ناقدین اور شارحین نے خاص طور پر ذکر کیا ہے ان کے اشعار
میں معانی کی مختلف سطحیں ہیں۔اس کا ایک ایک شعر کئی کئی معانی لیے ہوئے دکھائی
دیتا ہے۔غالب کے بیشتر اشعار ایسے ہیں کہ انہیں جتنی بار پڑھا جائے ان کے نیا مفہوم
سامنے میں آتا ہے۔وہ اپنے فن سے ایک سادہ سے شعر میں بے رنگ معنی بھر دیتے ہیں۔
اردو میں شاید غالب ایسے
خوش نصیب شاعر ہیں کہ جن کے اشعار کی تشریح پر مبنی کتابیں درجنوں کی تعداد میں
چھاپی گئی ہیں۔ان کتب میں غالب کی غزل کے ایک ایک شعر کے کئی مفہوم بیان کیے گئے
ہیں۔غالب کے کلام کی تشریح پر شائع ہونے والی کتابوں نے مرزا غالب کی عظمت کو مزید
بڑھادیا ہے۔
آئیے ایسے اشعار دیکھتے ہیں جن کی سادگی میں معانی کا ایک جہان آباد ہے۔
کے اشعار مثال کے طو پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔
فلسفیانہ انداز
اردو کے کلاسیکل دور میں
زیادہ تر شعرا نے صرف عشق و محبت کو اپنا موضوع بنایا ۔اپنے کلام کو محبوب کی خوب
صورتی کے بیان اور اس کی بےوفائی کے قصوں تک محدود رکھا ۔بعض نے اپنی انفرادیت
بنانے کے لیے فحش گوئی کا سہارا لیا ۔البتہ چند ایک شعرا نے زندگی کی بے ثباتی اور
اردو کے روایتی تصوف کا رنگ بھی بھراہے۔مرزا غالب کےکلام پر نظر کی جائے تو ان کے
ہاں زندگی کا ایک الگ فلسفہ نظر آتا ہے۔روز مرہ پیش آنے واقعات انہیں بچوں کا
کھیل محسوس ہوتے ہیں۔اسی لیے وہ دنیا کو بازیچہ اطفال قرار دیتے ہیں ۔ان کی نظر
میں زندگی جوئے شیر اور کوہ گراں ہے۔مرزا غالب کو اگرچہ صوفی شاعر نہیں کہا جاسکتا
لیکن ان کے ہاں کا گہرا زندگی کا شعور ملتا ہے۔وہ خدا کے حوالے سے اپنا نظریہ
رکھتے ہیں جو کہیں کہیں وحدت الوجود کے ںطریہ سے چھو کر گزر جاتا ہے۔
غالب کی منفرد زمینیں
کلام غالب کی انفرادیت کا
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے نت نئی زمینوں پر طبع ازمائی کی ہے۔ان میں سے کچھ بہت
سنگلاخ ہیں ۔ان میں کہے گئے اشعار غالب کی استادی کی مثال بن گئے ہیں ۔ اردو کے مشہورنقاد
مالک رام لکھتے ہیں:
غالب کے دیوان میں بہت کم غزلیں ایسی ہیں جو کسی دوسرے کی زمین میں ہیں۔وہ نئی چیز پیدا
کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔اس کے بعد لوگوں نے اس کی زمین میں غزلیں کہیں۔
( غالب کی عظمت۔ص55)
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص روز مرہ زندگی میں بھی عام روش سے ہٹ کر
چلے گا اور میل ملاپ تک جداانداز
اختیار کرے گا ۔وہ شاعری میں بار بار استعمال کی ہوئی زمین میں کلام کیوں کہے گا۔غالب کے نئے
قوافی اور ردائف کو آنے والے شعرا نے ہاتھوں ہاتھ لیا او غالب کی زمینوں میں جی
بھر کے شاعری کی۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور نئے دور کے شعرا بھی تک غالب کی
زمینوں میں کہہ رہے ہیں۔یہ امر خود غالب کی شعری برتری اور عظمت کی دلیل ہے۔
خود پسندی
شاعری میں جو
خوبیاں غالب کی خاص شناخت قرار پائیں اور ان میں سے ایک خود پسندی ہے۔ان کا تعلق
ایک ایسے گھرانے سے تھا جو کہ خاص روایات اور اقدار کا حامل تھا۔انہوں نے اپنی خاندانی
شان و شوکت کا اپنے اشعار میں بھی ذکر کیا ہے۔قدرتی طور پر ان کی مزاج میں بھی خودی
پائی جاتی تھی۔ان کی شخصیت کا یہ عنصر ان کے کلام میں بھی شامل ہوگیا اور ان کی
خاص ادبی شناخت باعث بن گیا۔مصنف شہید صفی پوری اپنی کتاب غالب کی تخلیقی تخیل میں
رقم طراز ہیں۔
خود شعوری کا ایک نتیجہ اکثر شعرا کے ہاں خود پسندی کی شکل میں رونما ہوتا
ہے۔انفرادیت اور شخصیت کے ارتقا کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شاعر اپنی شخصیت
کی اہمیت کو کسی وقت بھی فراموش نہیں کرپاتا ۔غالب بھی اس سے جدا نہیں تھے۔
حوالہ جات
غالب کی عظمت،مرتبہ عابد رضا بیدار،رامپور انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز،دہلی
غالب کی تخلیقی تخیل،مصنف
شہید صفی پوری، قومی پریس لکھنئو۔
باقیات غالب
مصنف وجاہت علی سندیلوی،نسیم بک ڈپو،لکھنئو
ماہ نو کراچی،1963،مطبوعات
کراچی
غالب فکرو فن،مرتبہ
شعبہ اردو گورکھ پوریونی ورسٹی،گورکھ پور
دیوان غالب،مرتب
امتیاز علی خاں عرشی،مجلس ترقی ادب،لاہور
دیون غالب مرتب
محمد شفیع الدین،آز کتاب گھر دہلی