حسرت موہانی کی شاعری کی نمایاں خصوصیات
اردو
شاعری میں حسن تغزل کی بات ہو اور حسرت موہانی کا ذکر نہ آئے،یہ ممکن ہی
نہیں۔برطانوی ہندوستان کے قصبے موہان میں جنم لینے والے اردو کے معروف شاعراور
سیاست دان حسرت موہانی کی شاعری یوں تو دورنگوں پرمشتمل ہے۔ان کے کلام کاایک
رنگ سیاسی ہے اور دوسرا عشقیہ ہے۔یہ دونوں انداز ہی اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل
ہیں۔تاہم ان کو جومقبولیت اور پزیرائی عشقیہ غزلوں سے نصیب ہوئی،وہی ان کی شہرت کا
اصل سبب بنی۔ان کا کلام گزرے ہوئے زمانے کی یادوں سے مہکا ہوا ہے۔
محبت
شاعری کا بنیادی موضوع ہے۔اردو غزل کا ایک
بڑا حصہ عشق و محبت کے کلام سے بھرا پڑا ہے۔یہ وہ موضوع ہے جس پر ہر شاعر نے طبع
ازمائی کی ہے۔اردو زبان کے پہلے شاعر سے لیکرعصر حاضر تک سب کے ہاں حسن و عشق کا
تذکرہ ملتا ہے۔ایسے میں اپنی الگ پہچان قائم کرنا آسان کام نہیں ہے۔حسرت موہانی
بھی اس بات سے پوری طرح آگاہ تھے۔انہوں نے شاعری کی روایت میں رہتے ہوئے اپنی الگ
راہ چنی۔درج ذیل سطور میں ان کی غزل کی ان خوبیوں کا جائزہ لیاجاتاہے کہ جو ان کو
دوسروں سےمنفرد کرنے کا باعث ہوئیں ۔
حسرت موہانی کی شاعری کی خوبیاں
حسرت موہانی کی شاعری میں تصور عشق
اردو
کے شعرا نے اپنے کلام میں محبوب کی تعریف اس طرح کی ہے کہ اس میں جسمانی لذت کا عنصر بھی
شامل ہو گیا ہے۔کلاسیکل دور کے بعض شعرا کا کلام اخلاق کی حدیں پار کرکے لذت پرستی
کاروپ دھارے ہوئے نظر آتا ہے۔اردو کے شعرا مرزا سودا،جرات،انشا تو ایک طرف،خدائے
سخن میرتقی میر بھی اس سے دامن نہیں بچاسکے۔ایسے میں حسرت موہانی کی غزل کاس گرد
سے آلودہ نہ ہونا ان کے فن اور جدا فکر کی مرہون منت ہے۔ وہ محبوب کی تعریف کرتے ہیں لیکن ایک خاص وضع
داری ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔وہ ایک بہت معصوم عاشق ہیں اور ان کا عشق انتہائی
شریفانہ ہے۔ان کا رویہ محبوب کے سامنے نہایت نیاز مندانہ اور مودبانہ ہے۔
محقق یوسف
حسن خاں اپنی کتاب حسرت کی شاعری میں لکھتے ہیں.
حسرت اپنی حسن پرستی میں اس کا خیال رکھتے ہیں کہ کہیں
عشق کی بدولت حسن کو رسوا نہ ہونا پڑجائے۔ان کا عشق انتہائی شریفانہ عاشق ہیں۔
حسرت
موہانی کے اسی محتاط رویے نے ان کی غزل کو ایک الگ رنگ،الگ روپ دیا ہے۔وہ روایتی
مضمون پر بات کرتے ہوئے بھی اپنا الگ انداز رکھتے ہیں۔ان کا راستہ ایک عاشق صادق
کا رستہ ہے۔وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ محبت احترام اور احساس کا نام ہے۔لطف
کی بات یہ ہے کہ ایسے جذبات وہ خود پر طاری نہیں کرتے ۔ شاعری میں ان کا یہ
رویہ بناوٹی نہیں ہے۔یہ سب کچھ ان کے مزاج اور سنجیدہ شخصیت کا ایک پہلو ہے۔
حسرت کی شاعری میں محبوب کا تصور
حسرت
موہانی کی شاعری میں جس محبوب کا ذکر ملتا ہے وہ کوئی خیالی پیکر نہیں ہے۔وہ اسی
زمین کا باشندہ ہے ۔اسی جیتی جاگتی دنیا کا ایک کردار ہے۔اردو اور فارسی شاعری میں
محبوب کی تعریف ایسے بڑھا چڑھا کر کی گئی ہے کہ اگر دنیا میں اسے تلاش کیا جائے تو
کہیں نہ ملے۔حسرت موہانی کی شاعری کے تناظر میں اس کا محبوب بہت شرمیلا اور معصوم
ہے۔اس کا پیکر ایک روایتی مشرقی لڑکی کے کرداروعمل میں ڈھلا ہوا ہے۔وہ ایک ایسی
دوشیزہ ہے جو بے باک نہیں ،لاج اور شرم رکھنے والی ہے۔وہ عاشق کی ذراسی جسارت پر
دوپٹے سے چہرہ ڈھانپ لیتی ہے۔وہ بہت باوفا ہے ۔محبت میں سے سرشار اور مہربان
ہے۔اردو شاعری میں حسرت کے علاوہ بھلا اور کس کا محبوب ہوگا جو دوپہر کی دھوپ میں
اپنے عاشق کے لیے کوٹھے پر ننگے پاوں آجائے۔بلاشبہ ایسا باوفا معشوق اسی کا ہوسکتا
ہے جو اس کو اپنی پاک محبت کا یقین دلا چکا ہو۔جس کے پاس آتے ہوئے محبوب کو اپنی
عزت جانے خوف نہ ہو۔حسرت اپنے محبوب کا
نقشہ یوں کھینچتے ہیں کہ ایک بے نیاز سراپا حسن کا پیکر ابھر آتا ہے۔
حسرت کی شاعری ،ماضی کا گوشوارہ
انسان کا
ایک بڑا سرمایہ اس کی زندگی کے وہ حسیں لمحات ہیں جو خوب صورت یادوں میں ڈھل جاتے
ہیں۔یادیں انسان کی تنہائی کا سہارا ہوتی ہیں۔ہر شاعر کے کلام میں گزرے دور کی یاد
کا ذکر موجود ہے۔حسرت موہانی بھی گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ان کے ہاں یہ
موضوع باربار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ ان کا خاص رنگ بن گیا ہے۔جس طرح حسرت کے
کلام کی عشق کی پاکیزگی پائی جاتی ہے۔اسی طرح گئے دور کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی
ہیں۔ان کی شاعری کو اگر ماضی کا گوشوارہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ان کی شہرہ
آفاق غزل کہ جس کی ردیف بھی انہوں نے ,)یاد ہے رکھی (ہے.
چپکے
چپکے رات دن..
یہ غزل گئے
دنوں کی محبت کا فسانہ ہے۔اس کا ایک ایک شعر اپنے اندر یادوں کا خزانہ سموئے ہوئے
ہے۔محبت میں رات دن آنسو بہانے سے لیکر محبوب کے دیدار کے لیے چلمن پرنظر
جانا،محبوب کا دانتوں تلے انگلی دبانا،دوپہر کی دھوپ میں چھت پر آنا۔گویا عشق بھری
زندگی کی ساری یادیں اکٹھی کردی گئی ہیں۔اور پھر ان کی وہ مشہور غزل
بھلاتالاکھ
ہوں۔۔
اس غزل
کی ردیف بھی ) یاد آتے ہیں( ہے۔
حسرت موہانی کی شاعری کی نمایاں خصوصیات پر مضمون |
ان کے
ہاں یاد پر اس قدر اشعار موجود ہیں کہ ان کی غزل کے اس پہلو پر ایک
الگ مقالہ تحریر کیا جاسکتا ہے۔یاد ماضی کو عام طور پر عذاب قرار دیا جاتا ہے۔حسرت
موہانی کا معاملہ ذرا الگ ہے۔انہوں نے اپنے عشق میں ایسا کچھ نہیں کیا جس کا انہیں
پچھتاوا یا شرمندگی ہو۔
ماضی
کی یاد کو کسی محبوب کی طرف سے دیے گئے تحفے کی طرح سمجھتے ہیں ۔وہ مزے لے لے کر
ماضی کے قصے بیان کرتے ہیں۔
امید اور رجائیت کا پہلو
اردو
غزل ناامیدی اور نامرادی کے اشعار سے بھری پڑی ہے۔ ۔کچھ کلاسیکل شعرا کے ہاں یہ
رنگ اس دور کے حالات کی وجہ سے پیدا ہوا۔لیکن اکثر نے روایتی طور پر اس خاص رنگ کو
اپنایا۔بعض نے اپنے کلام کو المیہ کارنگ دینے کے لیے مایوسی کا عنصر شامل کیا۔ایسے
بہت کم اردو شاعر ہیں جنہوں نے امید کا پیغام دیا ہو۔ان میں شاعر حیدر علی آتش
کانام لیا جاسکتا ہے۔اگر حسرت موہانی کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو اس میں امید کا
پہلو بھی نظر آتا ہے۔حسرت موہانی کی سیاسی شاعری تو خیر ویسے ہی ساری کی ساری
حالات سے لڑنے اور اچھے دنوں کی آمد کی بشارت دیتی نظر آتی ہے۔ان کی عشقیہ غزل میں
بھی رجائیت ہی کا رنگ ملتا ہے جو ان کے کلام کی اہم خصوصیات میں سے ہے۔یہ رنگ ان
کی شاعری کو اپنے ہم عصر شاعروں کے فن پاروں سے منفرد کرتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ
ایک دن ان کی محبت ضرور کامیاب ہو گی۔ان کی تمنائیں پوری ہوں گی۔ان کی سوچ کا یہی
پہلو ان کی غزل میں ہیجان اور گھٹن کی فضا پیدا نہیں ہونے دیتا۔
یوسف
حسن خاں رقم طراز ہیں
حسرت کی عشقیہ شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی
محبت کی داستان نامرادی پر ختم نہیں کرتے۔وہ بڑے ہی پر امید واقع ہوئے ہیں۔(حسرت
کی شاعری،مصنف یوسف حسن خاں صفحہ12)
حسرت کی غزل میں معاملہ بندی
شاعری
میں معاملہ بندی سے مراد یہ ہے کہ عشق کے معاملات کو شعروں میں نظم کیا جائے۔اس سے
مراد یہ بھی ہے کہ کسی واقعے کو حسن و خوبی کے ساتھ بیان کیا جائے۔غزل کے ایسے
اشعار جس میں عاشق اور معشوق کے نجی معاملات بیان ہوں معاملہ بندی کے اشعار کہلاتے
ہیں۔محبوب کے سامنے سے گزرے ہوئے بات کر جانا ،ہاتھ دبا دینا،محبوب کو سوتا جان کر
پاوں چوم لینا، اسی زمرے میں آتا ہے۔یہ ایسا مقام ہے کہ جہاں ذرا سی لغزش ہوس اور
جسم پرستی کی طرف لے جاتی ہے۔حسرت موہانی
معاملہ بندی کے اشعار میں بھی محتاط رہتے ہیں۔وہ مقام ادب سے آگے قدم نہیں بڑھاتے۔
حسرت موہانی کی نمایاں شعری خصوصیات پر ای تحیری |
حسرت
موہانی نے اپنی شاعری میں معاملہ بندی کے جو اشعار نکالے ہیں۔وہ حسن اور عشق کے
نجی معاملات ہونے کے باوجود سطحی جذبات کی آلودگی سے پرے ہیں۔ان میں وہی متانت اور
وضعداری جھلکتی ہے جو حسرت کی شاعری کی خاص خوبی ہے۔
حسرت کے کلام کی سادگی اور سلاست
حسرت
موہانی نے اچھی شعر کی خوبی اپنے ایک شعر میں یہ بتائی ہے کہ وہ سنتے ہی دل میں
اتر جاتا ہے۔ان کا سارا کلام اس خوبی سے معمور نظر آتا ہے۔اردو غزل پر چوں
کہ فارسی شاعری کا گہرا اثر ہے چنانچہ اردو کلام میں فاری الفاظ پر مشتمل تراکیب
کی بھرمار ہے۔اردو کے استاد شعرا نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ شاعری
میں عربی فاسی کے مشکل الفاظ استعمال کیے جائیں ۔بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کو
اپنی مشکل پسندی پر نازرہا۔لیکن حسرت موہانی کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ان کی
شاعری پیچیدہ تراکیب اور نامانوس الفاظ سے پاک ہے۔وہ سادہ اردو زبان میں
تحریر کرتے ہیں۔یہ بھی ان کا خاص رنگ ہے ۔اس خوبی کے باعث کم سوجھ بوجھ رکھنے والا
قاری بھی ان کی شاعری کو سمجھ سکتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ان کے کلام
کی ایسی خصوصیات نے انہیں آنے والے زمانے کا شاعر بنادیا ہے۔