داستاں فسانہ عجائب میں رکب علی بیگ سرور کی کردار نگاری پر ایک تجزیاتی مضمون۔ |
فسانہ عجائب کے کرداروں کی خوبیاں اور خامیاں
فسانہ عجائب کے کرداروں کا تنقیدی جائزہ
کیا رجب علی بیگ سرور فسانہ عجائب کی کردار نگاری میں
کامیاب رہے ہیں۔
اردو میں اگرچہ بہت سی داستانیں لکھی گئیں لیکن جن کو ادب
میں خاص مقام حاصل ہوا ،ان کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ان چند اہم داستانوں
میں سے ایک فسانہ عجائب ہے۔ اس کے مصنف
اپنے دور کے مشہور ادیب رجب علی بیگ سرور تھے۔ یہ داستان جہاں زبان و بیاں کا ایک
الگ اسلوب رکھتی ہے وہیں اس دور کی معاشرت کی بھی عکاس ہے۔ ۔فسانہ عجائب میں ضمنی
کہانوں کی بھرمار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں بہت سے کردار پائے جاتے ہیں۔کسی بھی
قصہ کہانی میں پلاٹ کے ساتھ ساتھ اس کے کردار بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے
ہیں۔بہترین کردار نگاری نہ صرف کہانی کی دل چسپی بنائے رکھتی ہے بلکہ اس کے تاثر
میں بھی اضافہ کا سبب ہوتی ہے۔اس سے مصنف کی فنی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہے۔اگر
فسانہ عجائب کے کرداروں پر بات کی جائے تو اردو ادب کے مختلف نقاد اس سلسلہ میں متضاد
آراء دیتے نظر آتے ہیں۔بعض کے خیال میں مصنف رجب علی بیگ سرور کردار نگاری میں
کامیاب رہے ہیں جب کہ بعض کے خیال میں ان کے کردار بے عمل اور بے کار ہیں۔آئیے
دیکھتے ہیں کہ داستاں فسانہ عجائب میں اہم کردار کون کون سے ہیں اور فنی و فکری
حوالے سے ان میں کیا خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔
فسانہ عجائب کا ہیرو شاہزادہ جان عالم
داستانوں کہ ایک بنیادی خوبی یا خامی یہ ہے کہ ان میں مرکزی
کردار شہزادوں اور شاہزادیوں کے پائے جاتے ہیں ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قصیدہ
کی طرح داستانیں بھی بادشاہوں کو خوش کرنے اور ان سے مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے
تحریر کی جاتی تھیں۔ فسانہ عجائب کا ہیرو بھی ایک ایسا ہی کردار ہے ۔اس میں اس دور
کے شہزادوں میں پائی جانی والی تمام عادتیں موجود ہیں ۔وہ عاشق مزاج ہے،عیاش
ہے،شراب نوش ہے اور بے وقوف ہے۔یہ شاہزاہ بھی ہر اردو یا فارسی داستاں کے شاہزادوں
کی طرح بڑی دعاوں سے پیدا ہوا۔ شاہزادہ جان عالم اپنے باپ کے بڑھاپے کی اولاد ہے۔ایک
بار رستے میں اسے ایک بولنے والا توتا پسند آتا ہے۔شاہزادہ جان عالم وہ توتا (طوطا)خرید
لیتا ہے۔وہ ایک روز اس بولنے والے توتے سے
ملک زرنگار کی شہزادی کے حسن کی تعریف سن لیتا ہے۔توتا شہزای انجمن آرا کی
تعریف انداز سے کرتا ہے کہ شاہزادہ جان عالم دل جاں سے عاشق ہو کر نکل پڑتا ہے۔اس
طرح جان عالم کا کردار داستان کے آغاز ہی سے ایک روایتی کردار ثابت ہوتا ہے۔
محبوب کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے وہ کئی جگہ
عیش و عشرت میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے۔داستاں میں جگہ جگہ اس کی بے وقوفی کے واقعات بھی
ملتے ہیں۔اگر چہ فسانہ عجائب میں اسے رجب علی بیگ نے بہت فعال دکھانے کی کوشش کی
ہے لیکن پیش کیے گئے واقعات اسے احمق ہیرو ثابت کرتے ہیں۔وہ کبھی جادوگرنی کے آگے
بے بس ہو جاتا ہے کبھی اس کا وزیر زادہ اسے بندر بنا دیتا ہے اور خود اس کی جگہ لے
لیتا ہے۔شہزادہ جان عالم کا کردار ایک عیاش،بے وقوف اور حسن پرست شخص کا کردار
ہے۔رجب علی بیگ سرور نے اصل میں جان عالم کی صورت میں اس دور کے شہزادوں کی تصویر
کشی کی ہے اور اس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ یہاں وہ ایک بات بھول گئے کہ جب شاہزادہ جان عالم کو بندر بنا یا جاتا ہے
تب وہ بہت عقل مندی کی باتیں کرنے لگتا ہے۔رجب علی بیگ سرور کو چاہیے تھا کہ ہر حالت
میں شاہزادہ جان عالم کی عقل و فہم کی سطح ایک سی رکھتے۔کیوں کہ بھیس بدلنے یا
قالب تبدیل کرنے سے عقل اور شعور کی سطح میں تبدیلی نہیں آتی۔مزید یہ کہ شہزادہ
کو حددرجہ عیاش دکھایا گیا ہے۔وہ اپنی پہلی بیوی کو پرانے مک میں چھوڑکردوسرے ملک
میں مزید دوعورتوں سے شادی کرلیتا ہے۔وہ ایک رات ملکہ مہرنگار کے ساتھ گزارتا ہے
اور دوسری رات شہزادی انجمن آرا کے ساتھ بسر کرتا ہے ۔فسانہ عجائب میں یوں تحریر ہے:
اب یہ معمول ٹھہرا ایک شب انجمن آرا کی
،دوسری رات ملکہ کی ملاقات کی ٹھہری(فسانہ عجائب ص 190 ،نقوش،اردوبازار۔لاہور)
فسانہ عجائب کا کردار ماہ طلعت
ماہ طلعت اس داستاں کے ہیرو شاہزادہ جان عالم کی پہلی بیوی
ہے۔اسے اپنے حسن پر بہت غرور ہے۔جب شاہزادہ جان عالم کے توتے سے اپنے حسن کے بارے
میں سوال کرتی ہے جواب نہ ملنے پر بہت غصہ میں آجاتی ہے۔۔وہ حسین ہو نے کے ساتھ
ساتھ روایتی شہزادیوں کی طرح بہت غصہ خور اور بد مزاج بھی۔ شاہزادہ جان عالم اس کے
حسن پر فدا ہے ۔جب شہزادہ اپنی نئی محبوب کی تلاش میں چل نکلتا ہے اس وقت کہانی سے طلعت آرا کا کردار ہی ختم ہو جاتا
ہے۔اگررجب علی بیگ سرور چاہتے تو وہ فسانہ عجائب داستان میں طلعت آرا کا کردار
مزید بڑھا سکتے تھے ۔ماہ طلعت کی خود پسندی سے داستاں میں دل چسپی کا ایک اور پہلو
پیدا ہو سکتا تھا۔یہ مختصر مگر کہانی کو آگے بڑھانے ولا ایک ضمنی کردار قرار دیا
جاسکتا ہے۔
ملکہ مہر نگار فسانہ عجائب کا ایک اہم کردار
ملکہ مہر نگار داستان کا ایک مضبوط کردار ہے۔یہ کردار
داستاں میں اس وقت شامل ہوتا ہے جب شاہزادہ جان عالم مصیبت اٹھانے کے بعد ایک جنگل
میں داخل ہوتا ہے۔مہر نگار ایک خوب صورت اور عاشق مزاج ملکہ ہے۔وہ جان عالم کو
دیکھتے ہی اس کے حسن پر عاشق ہوجاتی ہے۔وہ اسے اپنے ساتھ محل لے جاتی ہے تاکہ اس
کی میزبانی کر سکے۔داستاں میں ملکہ مہر نگار کا کردار بہت بے باک دکھایا گیاہے۔ پہلی
ملاقات میں دوچار باتوں کے بعد وہ شہزادہ جان عالم کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ساتھ
چلنے لگتی ہے۔گویا وہ شہزادے سے بھی زیادہ عیش کی طلب گار ہو۔وہ شراب کی رسیا ہے
اور شہزادے کو اپنے ہاتھ سے شراب کا گلاس دیتی ہے۔ فسانہ
عجائب میں مہر نگار کا کردار یہ دکھانے کے لیے
کافی ہے کہ اس دور کی شاہی خواتین شراب اور عشق بازی اور جنسی میل ملاپ کی کس قدر تمنائی
تھیں۔مرزا رجب علی بیگ سرور کا یہ کردار بھی اس حوالے سے داستان کا ایک کامیاب
کردار ہے کہ اس دور کی شاہی زندگی کا عکاس ہے۔اردو کے بعض نقاد اسے داستاں کا ہیرو
بھی بتاتے ہیں۔تاہم اگر اس دور کی دیگر داستانوں کے کرداروں کے مقابل رکھ کر دیکھا
جائے تواس میں کوئی بھی نیا پن نظر نہیں آتا۔ ایسے فرسودہ اور پینے پلانے اور
عیاشی کی ہوس سے بھرے کردار اردو کی داستانوں میں جا بجا نظر آتے ہی۔ یہ کردار
داستانوں میں موجود مہم جو شہزادوں کی تھکن دور کرتے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:
فسانہ عجائب میں ہرجگہ لکڑیاں گیلی ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ فسانہ عجائب کی ہر شے بے لطف اور بے
اثر ہے۔
وزیر زادہ فسانہ عجائب کا منفی کردار
وزیر زادہ کا کرداراگرچہ منفی ہے لیکن یہ ایک متحرک کردار
ہے۔وہ زادہ اس داستاں کے ہیرو شاہزادہ جان عالم کا دوست ہے۔وہ داستاں کے آغاز میں
اس کے ساتھ نکلتا ہے اور پھر کسی ہرن کا پیچھا کرتے غائب ہو جاتا ہے۔داستان میں اس
کے بعد وہ تب دکھائی دیتا ہے جب جان عالم ،شہر زرنگار کا سفر اختیار کرتا ہے۔یہ
کردار ایک مفاد پرست دوست کا کردار ہے۔جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دوستوں کو
نقصان پہنچا تے ہیں۔وزیر زادہ کسی جادوئی عمل سے شہزادہ جان عالم کو بندر بنا دیتا
ہے۔وہ خود اس کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔وزیر زادہ انجمن آرا کے حسن کا عاشق ہو
چکا ہے۔وہ شاہزادہ جان عالم کی اس محبوبہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ۔یہ کردار اپنے
اندر یہ سبق رکھتا ہے کہ بظاہر وفادار دکھائی دینے والے لوگوں سے ہوشیار رہنا
چاہیے ۔اسی طرح دوسوں پر اندھا بھروسہ بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے۔یہ کردار منفی ہونے
کے باوجود داستان پڑھنے والے کو دعوت فکر دیتا ہے۔مرزا رجب علی بیگ سرور اپنی
داستاں فسانہ عجائب میں یہ حقیقی کردار بطریق احسن تشکیل دے پائے ہیں۔جب یہ داستاں
لکھی گئی وہ دور ہندوستان میں سیاسی زوال کا دور تھا ۔اس زمانہ میں شاہی محلات میں شہزادے شہزادیاں اور وزیر و
بادشاہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو تیارہتے تھے۔یہ ایک ایسا ہی کردار ہے جو شہزادے
کا روپ دھار کر جان عالم کو قتل کرانا چاہتا ہے تاکہ بادشاہت حاصل کرسکے ۔اسے
داستاں کا جیتا جاگتا کردار کہا جاسکتا ہے۔
انجمن آرا فسانہ عجائب کی ہیروئن
ملک زر نگار کی شہزادی انجمن آرا فسانہ عجائب کا ایک مرکزی
کردار ہے۔ جس کا حسن دور دور تک مشہور ہے۔انجمن آرا کا ذکر شاہزادہ جان عالم توتے
کی زبانی سنتا ہے اور اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔انجمن آرا کا تذکرہ تو داستاں
کے ابتدائی صفحات ہی سے شروع ہوجاتا ہے لیکن اس کردار کی آمد داستان کے درمیان
میں ہوتی ہے۔جہان آرا بے مثال حسن کی مالک شہزادی ہے۔مصنف رجب علی بیک سرور نے
داستاں میں اس کے حسن کی کی جی بھر کے
تعریف کی ہے۔وہ جس قدر خوب صورت ہے اتنی ہی خوب سیرت بھی ہے اور سمجھ دار بھی۔وہ
جب شہزادہ جان عالم کے ساتھ ملکہ مہر نگار کے محل پہچتی ہے تو اس سے ملنے کی خواہش
ظاہر کرتی ہے۔اور بادشاہ سے کہتی ہے:
اگر اجازت دیجے تو ملکہ کی ملاقات سے مسرور
ہوں۔
وہ یہ جانتی ہے کہ ملکہ مہر نگار ا سی کے عاشق شہزادہ جان
عالم سے عشق کرتی ہے۔ایسے میں کوئی باحوصلہ عورت ہی اپنے رقیب سے ملنے کا فیصلہ کر
سکتی ہے۔یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔وہ ایک رات ملکہ مہرنگار کے پا س ٹھہرتی
ہے اور دوسرے دن آکر شہزادہ جان عالم سے اپنی سوتن کی تعریف ان الفاظ میں کرتی ہے:
اس خلق و مروت کی عورت آج ک نہ دیکھی نہ سنی(فسانہ عجائب ص190مرتبہ ،رشید حسن
خاں)
چڑی مار کی عورت :ایک خدا ترس کردار
یہ اگر چہ داستاں کا ایک عام کردار ہے۔لیکن اس نکتہ نظر سے
اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایک حساس عورت کا کردار ہے۔جب بندر کے روپ میں جان عالم کو
چڑی مار اسے اپنے گھر لاتا ہے، اسے مار دینا چاہتا ہے۔ تب اس کی بیوی اسے منع کرتی
ہے۔داستاں میں موجود دیگر نسوانی کردارزیادہ تر عشق و محبت میں ڈوبے یا نفسانی
خواہشات کا شکار نظرآتے ہیں۔یہ مختصر کردار داستاں پڑھنے والے کو اپنی طرف
کھینچتا ہے اور اس کے اندر نیکی کا جزبہ ابھارتا ہے۔یہ داستاں میں شامل بہت سے
کرداوں پر بھاری ہے۔یہ کردار عام زندگی کا زندہ اور چلتاپھرتا کردار معلوم ہوتا
ہے۔
بندر کا کردار
یہ کردار دراصل شہزادہ جان عالم کا دوسرا روپ ہے۔یہ روپ اس نے خود نہیں اختیار
کیا۔وزیز زادہ اسے جادو کے زور سے انسان سے بندر بنا دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں حیرت
کی بات یہ ہے کہ شہزادہ جان عالم جو کہ عام زندگی میں ایک احمق شخص ہےاور داستاں
میں طرح طرح کی حماقتین کرتا ہے۔ بندر بن کر وہ کسی فلسفی جیسا بن جاتا ہے۔وہ بہت دردبھری
تقریر کرتا ہے۔مرزا رجب علی بیگ سرور بندر کا کردار تو جان دار بناگئے ہیں لیکن یہ
بھول گئے ہیں کہ جان عالم بےوقوف ہے۔ لگتا ہے کہ یہ کردار داستان کو طول دینے کے لیے
تخلیق کیا گیا ہے۔بہرحال اس کردار سے وزیرزادے کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
توتے (طوطے)کاکردار
کہانی میں سرگرمی کا بنیادی محرک وہ توتا ہے جو شاہزادہ جان
عالم کو انجمن آرا کے حسن کا قصہ سناتا ہے اور شہزادہ اپنےملک سے محبوبہ کی تلاش
میں پڑتا ہے۔داستان کے سارے واقعات اسی کے تعریفی کلمات کے نتیجہ میں پیش آتے ہیں۔قدیم
داستانوں میں مافوق الفطرت کردار بکثرت پائے جاتے ہیں۔اڑنے والا گھوڑا،اڑنے والا
قالین،جن،پری،بات کرنے والا توتا ایسے ہی فرضی کردار ہیں جو ہر داستاں کا بنیادی
جزو رہے ہیں۔جس طرح کئی داستانوں میں بولنے والے
توتے (طوطے)ملتے ہیں۔اسی طرح ایک
کردار مرزا رجب علی بیک سرور نے اپنی داستاں فسانہ عجائب میں بھی تخلیق کردیا ہے،اس کردا میں کوئی نیا پن نہیں
ہے۔
مذکورہ داستاں کئی ضمنی کہانیوں پر مشتمل ہے جن میں شاید
درجن سے زیادہ کردار پائے جاتے ہیں لیکن درج بالا کرداروں کے علاوہ ان میں کوئی
اور ایسا قابل ذکر نہیں ہے۔
مرزارجب علی بیگ کی
لکھی ہوئی داستاں فسانہ عجائب
اگر چہ اردو کی مشہور داستانوں میں سے ہے لیکن اس میں کردار نگاری کے حوالے سے کوئی
انفرادیت نہیں ہے۔۔سبھی کردار اور ان کا عمل روایتی ہے۔یہ بات ضرور ہے کہ فسانہ عجائب کے کردار خاص طور پر
شاہی کردار اس دور کی شاہی زندگی اور سوچ کے آئینہ دار ہیں اور اس نکتہ نظر سے
مرزا رجب علی بیگ سرور کو کامیاب کردار نگار کہہ سکتے ہیں۔
تحریر:اشفاق شاہین