Ticker

6/recent/ticker-posts

Poet Latief Saif Gujrat|شاعر لطیف سیف.گجرات

Poet Latief Saif Gujrat Pakistan.Jadoon diyan Tere Nak Lar Gaian Akhian..Ka shair



 پنجابی شاعر لطیف سیف کی شاعری


اردو اور پنجابی کے خوبصورت شاعر محمد لطیف سیف مرحوم کا تعلق گجرات کے نواحی گاؤں سوک کلاں ہے۔ انہوں نے بڑے شہروں سے دور رہتے ہوئے ایسی خوبصورت شاعری تخلیق کی کہ ان کے گیت پاک وہند میں مشہور ہوئے ۔ان کا ایک پنجابی گیت تو ان کی پہچان بن گیا جس کے بول ہیں:

 

جدوں دیاں تیرے نال لڑ گیاں اکھیاں

سونگ تیری ہودیاں سوں وی نہ سکیاں

 

یہ خوبصورت گیت منیر وزیر آبادی ، ترنم ناز ، لتا منگیشکر اور ان کے علاوہ کئی گلوکاروں نے گایا۔ لطیف سیف کے اور بھی کئی گیت  مشہور ہوئے۔ آڈیو کیسٹ کے دور میں ان کے بہت سے البم جاری ہوئے۔  لطیف سیف  ایک سادہ مزاج اورانسان سے محبت کرنے والے شاعر تھے۔ محبت کے سوا انہیں کچھ آتا ہی نہیں تھا۔ ان کی کتاب اشک بہاتی تنہائی ان کا اولین مجموعہ کلام ہے۔ وزیرآباد سے تعلق رکھنے والے اپنے وقت کے معروف شاعر سید صائم علی نے سیف کی  کتاب میں شامل اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ:


 

’’سیف کے ابھرتے ہوئے جذبات اور ان کی بہت سی خوبیوں کے علاوہ ان کے اخلاقی محاسن کا میں دل سے معترف ہوں ۔ان کی محنت اور استقامت نے انہیں اس مقام پر پہنچایا  کہ ان کی گانے اور غزلیں ہندوستان اور پاکستان کے معروف گلوکاروں نے گائیں‘

 

مشہور گیت کار شاعر ایس ایم صادق لکھتے ہیں :

’’ اشک بہاتی تنہائی میں آپ کو وہ سب کچھ ملے گا جو آپ پڑھنے چاہتے ہیں ‘‘

لطیف سیف کی شاعری میں محبت کا روایتی رنگ اپنے جوبن پر ملتا ہے

 

وہ ایک عاشق صادق کی طرح محبوب کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں، اسے اپنی وفا کا یقین دلاتے ہیں اور بعض اوقات محبوب کے رویے سے خفا ہو کر اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ ایسے شخص سے محبت کیوں کی جو ایسا سنگ دل اور لاپرواہ ہے۔ لطیف نے زیادہ تر کلام گائے جانے کے لیے لکھا گیا لہذا اس میں ترنم کا دریا بہتا ہوا نظر آتا ہے۔انہوں نے زندگی کا ایک حصہ بیرون ملک بسلسلہ روزگار بھی گزارا۔ان کی  شاعری میں وطن سے دوری اور گھر سے جدائی کا دکھ بھی ملتا ہے۔ ہے ان کی شاعری میں غریبوں سے ہمدردی اور غیر منصفانہ نظام کے ظلم کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ان کے کلام سے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔


Poet Latief Saif Gujratشاعر لطیف سیف

 

غریبوں کو ہر دم ستاتی ہے دنیا

ستم اس طرح بھی یہ ڈھاتی ہے دنیا

 

خوشی چھین لیتی ہے غم خوار بن کر

رلا کر ہمیں کھلکھلاتی ہے دنیا

 

محبت جتاتی ہے مطلب کی حد تک

مگر بعد میں چھوڑ جاتی ہے دنیا

 

یہ کیا کچھ نہیں کرتی شہرت کی خاطر

بڑے ہی فسانے سناتی ہے دنیا

 

بدلتے رہے سیف انداز اس کے

نئے رنج دے کر رلاتی ہے دنیا

۔۔۔۔۔۔۔

 

بے وفا ہیں حسن والے دل لگانا سوچ کر

اشک پینا بھی پڑیں گے مسکرانا سوچ کر

 

ہے وہ دولت کا پجاری کیسے آئے گا یہاں

اے دل نادان اپنا گھر سجا نا سوچ کر

 

چھوڑ دیں گے راہ میں ہی دو قدم چلنے کے بعد

ان کی جانب ہاتھ اپنا تم بڑھانا سوچ کر

 

دل جلے ہیں تم کو بھی یہ راکھ نہ کر دیں کہیں

دل جلوں پر  قہقہے اب تم لگانا سوچ کر

 

عشق کے ہیں بادشاہ ہم آج تم یہ جان لو

جان تم پر وار دیں گے آزمانا کر سوچ کر

 

آنا جانا ہے رقیبوں کا وہاں پر ہر گھڑی

کوچہ جاناں میں جانا ہے تو جانا سوچ کر

 

روز مرتے ہیں ہزاروں حسن کی اس سیف سے

اس گلی میں آ کے یارو سر اٹھانا سوچ کر

 

۔۔۔۔۔

 

اپنی قسمت میں وہ سویرا ہے

جس کے چاروں طرف اندھیرا ہے

 

ہم سمجھتے ہیں جس کو موت و حیات

ایک ناگن ہے اک سپیرا ہے

 

دل مضطر سکون پائے جہاں

ہم فقیروں کا ایسا ڈیرہ ہے

 

لوٹ جانا ہے ایک دن سب کو

مستقل کب یہاں بسیرا ہے

 

چار جانب ہے آتشیں پہرہ

ہم کو مایوسیوں نے گھیرا ہے

 

ساری دنیا میں بے مثال ہے جو

حسن تیرا ہے عشق میرا ہے

 

لاکھ مدوجزر رہیں برپا

سیفتیرا ہے سیف تیرا ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

غموں کا فسانہ جو ہم نے سنایا

کہا اس نے ہنس کے بڑا لطف آیا



 

بجھایا اسی وقت تیز آندھیوں نے

میرے گھر میں جب بھی دیا جگمگایا

 

گریں ٹوٹ کر بجلیاں میرے دل پر

میری بے بسی پر وہ جب مسکرایا

 

رہے اس کے لب پر تبسم ہمیشہ

مجھے رنج و غم دے کر جس نے رلایا

 

نہیں جس کی تعبیر دنیا میں کوئی

مجھے زندگی نے وہ سپنا دکھایا

 

اسی نے مرے دل میں خنجر اتارا

جسے میں میں نے بڑھ کر گلے سے لگایا

 

نشاں سیف کا کوئی باقی رہے کیوں

اسی واسطے اس نے مدفن مٹایا