Mir taqi mir ki shairy mein londay,Mugh Bachay Aur Ladkay |
میر کے کلام میں لونڈےاور مغ بچے
کاش میر ایسے شعر نہ کہتے
میر تقی میر کا شمار اردو
کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے ان کی شاعری غم کا تصویر خانہ ہے ۔شکستہ دلی اور زندگی
کی بے ثباتی ان کے کلام جابجا دکھائی دیتی ہے۔بلاشبہ ان کا کلام دریائے اشک ہے۔ تاہم
اس سے پرے ان کے ہاں ایک اور رنگ اس سے بالکل جدا اور آفاقی غم عشق کے برعکس
ہے جو ان کی شاعری میں جا بجا پھیلا ہوا ہے۔ دلی کے لونڈے، مغ بچے اورلڑکے میر کی ہر چھٹی
ساتویں غزل جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں ۔محبوب کے غم میں آنسو بہانے والے میر
تقی میر اپنی غزلوں میں لونڈوں کا تذکرہ مزے لے لے کرکرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اے
میر تو ہی ان کے عشق میں پامال ہو کر نہیں رورہا بلکہ ساری دہلی کا یہی حال ہے۔کہیں
وہ عطار کے لڑکے سے دوا لینے کا بیاں کرتے ہیں۔کہیں نرم شانہ لڑکوں کا بیان ہے.
mir taqi mir ki shaisy mein landay aur Mugh bachay.میر کی شاعری میں لونڈے |
اس میں شک نہیں کہ اردو
شاعری فارسی شاعری کے زیر اثر وجود میں آئی چنانچہ فارسی زبان سے خوبیوں کے ساتھ کئی ایک رزیل اور اخلاق سے گرے
ہوئے مضامین بھی اردو غزل میں شامل ہوگئے۔ان ہی میں سے ایک امرد پرستی بھی ہے۔
شعر و سخن میں گراوٹ کا
ایک سبب یہ بھی ہے کہ سترویں صدی میں ہندوستانی معاشرہ زوال پذیر تھا بادشاہتیں
اجڑ چکی تھیں۔اقدار مٹ رہی تھیں چنانچہ اس
دور کا کلام بھی اس سے متاثر ہوا۔ اس وقت کی شعری مجالس میں ایسے اشعار سنا کر فخر
محسوس کیا جاتا تھا جن میں نوجوانوں کے حوالے سے ہوس پرستی کا ذکر ہو۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے
معاشرے میں شاعری کو برا اور محزب اخلاق سمجھا جاتا آیا ہے۔مولانا الطاف حسین
حالی نے ایسے ہی شاعروں کے بارے میں کیا تھا کہ ہمارے شاعر جہنم کو بھر دیں گے۔اگر
چہ شاعری کو معاشرے کا آئینہ دار کہا جاتا ہے مگر گئے دور کے شعرا کا کلام پڑھنے
سے محسوس ہوتا ہے کہ معاشرتی بگاڑ میں جہاں اور عوامل کار فرما تھے وہیں شعری نے
بھی منہدم ہوتی ہوئی روایات کو گرانے میں خوب ہاتھ بٹایا۔
میر تقی میر کی شاعری میں لونڈے لڑکے اور مغ بچھے |
افسوس! اردو کے بڑے بڑے
شعراء نے اپنے کلام کو امرد پرستی جیسے موضوع سے داغدار کیا ہے۔ غم نگاری کے بے
تاج بادشاہ میر تقی میر کی شاعری بھی اسی لہر کا شکار ہوگئی۔ آئیے کلام میر سے چند اشعار دیکھتے ہیں۔
دست۔ آبروئے، زاہد علامہ
لے گیا
ایک مغ بچہ اتارکے، عمامہ
لے گیا
میر! ہر چند میں چاہا لیک
نہ چھپا عشق طفل۔ بدخو کا
نام اس کا لیا ادھر ادھر
اڑ گیا رنگ ہی مرے رو کا
ہنووز لڑکے ہو تم , قدر میری کیا جانو
شعور چاہیے ہے,امتیاز کرنے کو
میر تقی میر کی شاعری میں لونڈے مغ بچے |
کلام میر میں لوندڈے اور لڑکے اور بغ بچے ے کے اشعار |
اس کے علاوہ بھی کثیر
تعداد میں ایسے اشعار کلیات میر میں موجود ہیں۔اردو ادب کا عام قاری میر کے جس رنگ
کا دلدادہ ہے وہ ان کا غم عاشقی ہے۔کاش میر تقی میر ایسے اشعار اپنے کلام میں شامل
نہ کرتے جس سے بطور آفاقی شاعر ان کی قدرومنزلت میں کمی آتی ہے۔