ارسطو کا تصور المیہ۔ارسطو کے نظریات |
ارسطو کی کتاب بوطیقا کے مطابق تصور المیہازمنہ قدیم کے معروف ماہر منطق، فلسفی ارسطو Aristotleکا تعلق یونان کے شہر
اسٹیگر سے تھا۔وہ عظیم فلسفی افلاطون کا شاگرد تھا۔ ارسطو کئی ایک کتب تحریر کیں
جو وقت کی دست برد کا شکار ہوگئیں۔ تاہم اس کی مشہور زمانہ کتاب بوطیقا ہر دور میں
اہل دانش کے لیے مرکز توجہ رہی ہے۔جدید دور میں بھی مختلف زبانوں کے اہل علم نے اس
کتاب کی تشریح و تو ضیح میں کتب در کتب تحریرکی ہیں۔ سب اس امر پر متفق ہیں
کہ اس کتاب کی افادیت ماضی کی طرح آج بھی برقرار ہے۔ بوطیقا میں ارسطو نے اپنے
استاد افلاطوں کے خیالات اور نظریات کی تردید کی ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ
شاعری اور ڈرامہ بے وقعت نہیں اور ان کے انسانی معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔ان کی مدد سے قدرت کے اسرار و رموز جاننے میں مدد ملتی ہے۔۔افلاطوں نے اعتراض
کیا تھا کہ شاعری جزبات ابھارتی ہے اورچوں کہ جذبات انسان کی عقل پر منفی اثرات
ڈالتے ہیں۔ اس کی سمجھ بوجھ چھین لیتے ہیں اس لیے قابل مذمت ہے۔اس نے اس نے
اپنی کتاب الجمہوریہ میں کہا تھا کہ اس کی جمہوریہ میں شاعروں ادیبوں کے لیے
کوئی جگہ نہیں ہے۔افلاطون نے اپنی کتاب میں شاعری پر جو اعتراضات کیے اس کا جواب
دینے کے لیے قدرت نے اسی کے شاگرد کی صورت میں ارسطوکو مقرر کردیا۔ ارسطو نے اپنی
کتاب بوطیقا میں ان تمام اعتراضاتپر مدلل بحث کی ہے۔ چون کہ اس وقت فنون
لطیفہ میں ڈرامے کا دودورہ تھا اور یہی افلاطونPlato کا ہدف تنقید بھی تھا۔چناں چہ ارسطو نے حزنیہ ڈرامے پر بحث
کی ہے۔یاد رہے کہ اس دور میں ڈرامے شاعرانہ زبان میں ہوتے تھے۔ارسطو کا فلسفہ تھا
کہ ڈرامہ نگار ایک سنجیدہ عمل کی نقل اتارتا ہے اور زندگی کے کسی خاص پہلو کو
موضوع بنا تا ہے تب اس میں اپنی طرف سے رنگ آمیزی بھی کرتا ہے تاکہ دیکھنے والوں
میں دل چسپی کا عنصر بھی پیدا ہو۔اگر وہ زندگی کے کھردرے حقائق یوں ہی دنیا
کے سامنے رکھ دے تو لوگ اسے دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔یوں اس میں دیئے جانے والے
پیغام کا رنگ ابھر کر سامنے نہیں آئے گا۔اس دور میں ڈرامے بڑی بڑی شخصیات پر
بنائے جاتے تھے۔اور ڈراموں کا اختتام المناک ہوتا تھا۔ارسطو نے اپنی کتاب میں صرف
سنجیدہ ڈرامے پر بات کی ہے اور اسے پر اثر بنانے کے طریقوں پر روشنی ڈالی ہے۔ارسطو
ڈرامہ میں انسانوں کی فعال زندگی کا منظر پیس کرکےانسانی فطرت کے راز کھولتا ہے
اور قوانین فطرت تک رسائی پا لیتا ہے۔ اسی باعث شاعری اس کے نزدیک کم تر نہیں بل
کہ ایک اہم سرمایہ قرار پاتی ہے۔اس کی خیال تھا کہ کوئی واقعہ خواہ وہ کتنا ہی اہم
کیوں نہ ہو اس وقت تک اعلی ڈرامے کی صورت اختیار نہیں کر سکتا جب تک اس میں ایسے
عناصر نہ پائے جائیں جوآفاقی حیثیت کے حامل ہوں۔اسی طرح اس کا یہ بھی نکتہ نظر
تھا کہ ڈرامہ صرف اعلی شخصیات کی زندگی پر بنا یا جاسکتا ہے اور اس کا اانجام جس
قدر المیاتی ہو گا ۔ڈرامہ اسی قدر گہرے اثرات کا حامل ہو گا۔گو یا اس کے نزدیک ایک
عام آدمی کا حادثے کا شکار ہو جانا کوئی المیاتی پہلو نہیں رکھتا اس کے برعکس میں
اگر ایک بادشاہ یا اہم شخصیت کے ساتھ کوئی حادثہ یا الم ناک واقعہ پیش آئے تو
اہمیت رکھتا ہے اور ڈرامے کا موضوع بننے کے قابل ہےاس کی تحریروں سے یہ بات
کھل کر سامنے آتی ہے کہ شاعری ایک سنجیدہ اور فلسفیانہ عمل ہے۔اور یہ حقیقت تک
پہنچنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ارسطو نے ڈرامہ کے لیے جو بنیادی عناصر بیان کیے
ہیں وہ آج بھی جدید ڈارامہ کی بنیاد تصور ہوتے ہیں ۔اگر ان اہم نکات کو ڈرامہ
کاری کے دوران درخور اعتنا نہ سمجھا جائے تو ڈرامہ کام یابی سےہم کنار نہیں ہو
سکتا۔ |