علم عروض ،وزن، بحر، تقطیع |
علم عروض کیا ہے۔وزن، بحر، تقطیع سے کیا مراد ہے۔
تحریر: اشفاق شاہین
علم عروض
عروض عربی زبان کا لفظ ہے۔
عروض کا تلفظ: ع پر زبر ،ر پر پیش اورو اور ض ساکن ہیں۔
عروض کے لفظی معنی
مختلف لغات میں اس کے مختلف معانی تحریر ہیں۔ جن میں
مکہ،مصرعہ اول کے آخری رکن کا نام،شعری اوزان کو جانچنے کا علم،وہ علم جس کے ذیعے
شعر کے اوزان،بحور اور زحافات کے اصول بیان ہوں۔
علم عروض کی تعریف
یہ شاعری میں وزن اور بحر کا علم ہے اس کے ذریعے شعر کو
مروجہ اصولوں کے تحت جانچا، پرکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر گیان چند جین عروض کی مختصر تعریف یوں کرتے ہیں
عروض بہ عین مفتوح شعر کے وزن کے علم کو کہتے
ہیں۔1
شاعری کے علم عروض کی ابتدا کیسے ہوئی
علم عروض کی ابتدا کے متعلق مختلف کتابوں میں مختلف روایات
ملتی ہیں۔ عام طور پر کہاجاتا ہے کہ اس کا ایجاد کرنے والا ایک عرب خلیل بن احمد
تھا۔ ۔وہ مختلف زبانوں کا ماہر تھا۔ شہکار عروض و بلاغت میں انور مینائی لکھتے ہیں
خلیل بن احمد 100 ہجری میں پیدا ہوا اور 170 ہجری
میں وفات پا گیا۔اس سے پہلے باضابطہ عروضی علم کا پتہ نہیں چلتا۔2
چوں کہ وہ مکہ کا رہائشی تھا اس اور عروض مکہ کو کہتے تھے
چنانچہ شہر کے نام کی نسبت سے اس علم کو علم عروض کہا جانے لگا۔کچھ مورخین کا کہنا
ہے کہ عرض کرنے کےمعنی جانچنا ہوتا ہے اور اس علم کے ذریعےشعر کو جانچاجاتا ہے
اس لیے اس کانام عروض رکھا گیا ہے۔اس علم کی ابتدا کے متعلق یہ دل چسپ قصہ مشہور ہے کہ خلیل بن احمد کا گزر ایک دن جب بازار سے گزر ہوا ، اس نے لوہا یا
چاندی کے ورق کوٹنے کی آواز سنی تو کہا کہ اس سے ایک علم ظاہر ہوتا ہے۔ اوراس نے
اسے عروض کا نام دے دیا۔بعض کتابوں میں یوں تحریر ہے کہ خلیل نے بازار میں دیگیں ٹھیک
کرنے والے لوہاروں کے ہتھوڑے کی ضرب سے پیدا ہونے والی مختلف آوازوں سے مختلف
بحور کے افاعیل بنائے۔روایت ہے کہ خلیل بن احمد نے آوازیں سن کر انہیں دہرانا
شروع کردیا ۔اس کے بیٹے نے گھر میں جب یہ حالت دیکھی تو سمجھا کہ اس کا باپ دیوانہ ہو گیا
ہے۔
بعض اہل فکر علم عروض کی بنیاد علم موسیقی کو قرار دیتے
ہیں۔قدر بلگرامی اپنی کتاب قواعد العروض میں اس علم کے ڈانڈے موسیقی سے جاملاتے
ہیں۔وہ لکھتے ہیں۔
اصل یہ ہے
فن عروض علم موسیقی سے پیدا ہوا ہے۔جب تار پر مضراب لگائیں تو اس کو نقرہ
کہتے ہیں۔اس سے جو جھنکار پیدا ہوگی اس کی جگہ حروف متحرک قائم کر لو اور جہان اوس
کی آواز کو ٹھہراو ہو اس کا نام ساکن ہے۔3
یہی وجہ ہے کہ کئی شعرائے کرام جن کو علم عروض پر دسترس
نہیں ہوتی وہ گنگنا کر اپنے کلام کی اصلاح کرتے ہیں۔
خلیل کے حوالے سے جو مختلف داستانیں بیان کی جاتی ہیں وہ تھوڑے بہت ردو بدل کے ساتھ ایک ہی ہیں۔
سیدحسن کاظم اپنی کتاب سراج العروض میں شاعری کے علم کی
ابتدا کے بارے میں یوں تحریر کرتے ہیں۔
خلیل بازار صفاریں میں جاتا تھا کی طشت پر ہتھوڑے
کی ضرب سے جھنکار سنائی دی۔خلیل فرط خوشی سے اچھل پڑا اور بے اختیار اس کے منہ سے
یہ نکلا کہ بخدا اس میں کچھ چیز معلوم ہوتی ہے۔موسیقی کے فن میں اس کی مہارت نے اس
آواز کو پیرائیہ موزونیت بخشا اور اس کے وزن کو فا و عین والام یعنی فعل پر کہ حرف عربی کا مدار تھا اسی پر قرار دیا۔4
یہ سب باتیں دل چسپ سہی لیکن حکایات رنگین کے سوا کچھ نہیں
ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ خلیل بن احمد سے پہلے بھی صدیوں سے شاعری ہورہی تھی ۔ قدیم
ادوار کے شعرا کسی اصول کے تحت ہی کلام
لکھتے ہوں گے۔لہذا یہ کہنا کہ خلیل اس کا موجد تھا درست نہیں ہے۔ہاں یہ کہا
جاسکتا ہے کہ اس نے شاعری کے مروجہ قواعد و قوانیں کو مزید بہتر کیا۔
علم عروض میں بحر کیا ہے
بحر کی جمع بحور ہے۔مختلف لغات میں لفظ بحر کے مختلف معانی
درج ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں
سمندر،کھاڑی، خلیج،جنگی بیڑہ،بحریہ،بڑا دریا،شعر کا وزن ۔
بحر کی تعریف
وہ مروجہ اوزان جن پر شعر کا وزن درست کرتے ہیں بحر
کہلاتے ہیں۔
علم عروض کے موجد خلیل احمد نے پندرہ بحور ایجاد کیں۔اور اس
کے بعد سولہویں بحر ،متدارک ابو الحسن اخفش نے اخذ کی۔مرزا یاس عظیم آبادی اپنی
کتاب چراغ سخن میں لکھتے ہیں۔
اس کے بعد سولہویں بحر متدارک ابو الحسن اخفش نے
نکالی۔پھر اہل فارس نے تین بحریں ایجاد کیں۔ایک بحر قریب جس کا موجد یوسف نیشاپوری
ہے دوسری جدید کا موجد بزر جمہرہے۔تیسری مشاکل اس کے کا نام معلوم نہیں۔یہ سب ملا
کر انیس ہویئں۔5
اگرچہ اردو کے تمام عروض دان اس بات پر متفق ہیں کہ خلیل نے پندرہ بحریں ایجاد کیں اور یہ بھی سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ مروجہ بحور کی تعداد انیس ہے۔لیکن یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ اردو کے بیشتر شعرا نے صرف کچھ گنی چنی بحور میں ہی شاعری کی ہے۔
اردوشاعروں کی پسندیدہ بحریں
دور حاضر کے بڑے بڑے شعرا کے کلام پر نظر کی جائے
تو اکثر نو دس سے بحور سے آگے نہیں بڑھے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ
استعمال ہونے والی بحریں رواں دواں ہیں اور ان کا آہنگ آسان اور شاعروں نیزقارئین کے
مزاج کے مطابق ہے۔اور ان میں ادائے مطلب کی بھی آسانی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جتنے
بھی اشعار زباں زد عام ملیں گے وہ سب کے
سب ان بحور میں ہیں جن کا ردھم عام فہم اور بار بار کا استعمال کیا ہوا ہے۔میر،غالب سے لے کر دیگر
کلاسیکل شعرا تک شاید ہی کسی کا کوئی شعر جو اس نے نا مانوس بحر میں لکھا ہو کسی
کو یاد رہا ہو۔متاخرین کی شاعری بھی تصویر کا یہی رخ دکھاتی ہے۔
اردو میں استعمال ہونے والی بحور فارسی اور عربی سے آئی
ہیں۔عربی زبان کا اپنا مزاج ہے ۔اس کا اپنا منفرد لہجہ ہے جس کو مد نظر رکھ کہ یہ
صوتی آہنگ ترتیب دیے گئے تھے۔اسی طرح فارسی کا اپنا رنگ ڈھنگ ہے۔اردو ہندوستان
میں بنی،بڑھی اور پھولی پھلی لہذا اس کا مزاج اپنا ہے۔ہندوستان کے لوگ جس آہنگ سے
آشنا ہیں وہ عربی نہیں ہے۔جس طرح ہندو پاک کی دھنیں اپنا الگ ردھم رکھتی ہیں اسی
طرح شاعری میں بھی کچھ جدا سی موسیقیت جو یہاں کے مزاج سے ہم آہنگی رکھے قبولیت
پاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو میں عربی کی وہی بحریں قبولیت عام کی حقدار ٹھہری
ہیں جن کی موسیقیت سے یہاں کے لوگ
آشنا ہیں۔ہمارے یہاں کی غزلوں اور گیتوں
میں جو بحریں وافر طور پربرتی گئی ہیں ان میں بحر ہزج ،بحر رمل اور بحر خفیف، بحر
مجتث ،بحر متقارب،بحر متدارک شامل ہیں ۔آپ کو اردو کا کوئی بھی شاعر
ایسا نہیں ملے گا جس نے ان بحور میں طبع ازمائی نہ کی ہو ۔اردو شاعری کے بڑے خزانے کی عالی شان عمارت ان ہی بحور کے ستونوں پر کھڑی ہے۔پنجابی کلام کا بڑا حصہ بھی بحر متدارک اور متقارب بحور پر مشتمل ہے یہ دونوں بحور بالخصوص ہندی میں کثرت
سے برتی جاتی ہیں۔اس کی بڑی وجہ بھی یہی
ہے کہ ایک تو یہ اپنے ردھم کے حوالہ سے اردو ،ہندی نثرکے قریب تر ہیں اور دوسرےعوام کے ذہنوں میں ان کو موسیقیت رچی بسی ہے۔پنجابی
کے بڑے بڑے صوفی شعرا نے ان ہی بحور میں شاعری کی ہے۔ مرزا غالب جو کہ اردو میں مشکل پسندی کے حوالے سے خاص شہرت
رکھتے ہیں ۔ان کے کلام کا بڑا حصہ بھی اردو میں کثرت سے استعمال ہونے والی عام فہم بحور پر ہی مشتمل ہے۔ان کے زیادہ تر مشہوراور ہر دل عزیز اشعار بھی مذکورہ بالا بحور میں
ہی ملیں گے۔
حق بات تو یہ ہے کہ سنگلاخ زمینوں،مشکل بحور میں طبع ازمائی
صرف عروضی استادی دکھانے کے لیے ہی کی جاتی ہے۔اردو شاعری میں فقط چند غزلیں ہوں گی
جو مشکل اور نامانوس بحور میں ہوں اور عوامی مقبولیت کا درجہ پاسکی ہوں۔یوں بھی ہے
کہ مشکل پسندی کے شوق میں لفظ سیدھے کرتے ہوئے تخیل اور روانی کا جنازہ نکل جاتا
ہے۔گویا دل کی بات پہنچانے کے لیے عام فہم ردھم یعنی بحور ہی استعمال ہوتی ہیں۔اس پر وہی مثال
صادر آتی ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ،دکھانے کے اور۔دور حاضر میں شعرا مشکل
بحروں کو خیر آباد کہ چکے ہیں۔
بحر کی اقسام
بحر سالم :بحر سالم
اس بحر کو کہا جاتا ہے جس میں بحر کے اصل ارکان استعمال کیے گئے ہوں۔یعنی
افاعیل میں کمی بیشی نہ لائی گئی ہو۔مثال کے طور پر پر بحر ہزج جس کے افاعیل درج
ذیل ہیں۔
مفاعیلن۔۔۔۔مفاعیلن۔۔۔۔مفاعیلن۔۔۔۔مفاعیلن
غیر سالم بحر:ایسی بحر جس کے ارکان میں کوئی حرف کم یا
زیادہ کیا گیا ہو۔
مفاعیلن۔۔۔۔مفاعیلن۔۔۔۔مفاعیلن۔۔۔۔مفاعیلان
مفردبحر اور مرکب بحر
اردو کی مروجہ انیس بحور میں سے سات بحریں مفرد اور باقی
بارہ بحور مرکب ہیں۔
مرکب بحر:وہ بحر کہ جس میں مختلف افاعیل یعنی بحروں کے
ارکان شامل ہوں۔مثال کے طور پر
مفعول۔۔۔۔۔ فاعلات۔۔۔۔ مفاعیل۔۔۔۔ فاعلن
مفرد بحر:جس میں ایک ہی بحر کے بنیادی ارکان جنہیں افاعیل
بھی کہتے ہیں استعمال ہوں۔مثال کے طور پر
فاعلاتن۔۔۔۔۔فاعلاتن۔۔۔۔۔فاعلاتن۔۔۔۔۔فاعلاتن
اردو میں درج ذیل انیس بحور مستعمل ہیں۔جو درج ذیل ہیں
اردو میں مفرد بحور
.1بحر ہزج
مفاعیلن ۔۔۔اوپر اور نیچے والے مصرع میں چار چار دفعہ
2.بحر رمل
فاعلاتن۔۔۔اوپر اور نیچے والے مصرع میں چار چار دفعہ
3.بحررجز
مستفعلن۔۔۔۔۔ اوپر اور نیچے والے مصرع میں چار چار دفعہ
4.بحر متقارب
فعولن۔۔۔۔۔ اوپر اور نیچے والے مصرع میں چار چار دفعہ
5.بحرکامل
متفاعلین۔۔۔۔۔ اوپر اور نیچے والے مصرع میں چار چار دفعہ
6.بحر متدارک
فاعلن۔۔۔۔ اوپر اور نیچے والے مصرع میں چار چار دفعہ
7.بحر وافر
مفاعلتن۔۔۔۔ اوپر اور نیچے والے مصرع میں چار چار دفعہ
مرکب بحور کے ارکان
8.بحر مضارع
مفاعیلن۔۔فاع لاتن۔۔۔۔۔۔۔شعر کے دونوں مصاریع میں دو دو دفعہ
9.بحر منسرح
مستفعلن۔۔مفعولات۔۔۔۔۔۔۔ شعر کے دونوں مصاریع میں دو دو دفعہ
10.بحر مقتصب
مفعولات مستفعلن۔۔۔۔۔ شعر کے دونوں مصاریع میں دو دو دفعہ
11.بحر مجتث
مستفعلن۔۔۔فاعلاتن۔۔۔ شعر کے دونوں مصاریع میں دو دو دفعہ
12.بحر مدید
فاعلاتن۔۔۔فاعلن۔۔۔۔۔ شعر کے دونوں مصاریع میں دو دو دفعہ
13.بحر طویل
فعولان۔۔۔مفاعیلن۔۔۔۔۔ شعر کے دونوں مصاریع میں دو دو دفعہ
14.بحر بسیط
مستفعلن۔۔۔۔فاعلن۔۔۔۔ شعر کے دونوں مصاریع میں دو دو دفعہ
15.بحر سریع
مستفعلن۔۔۔۔مستفعلن۔۔۔۔مفعولات شعر میں دو دفعہ
16.بحر خفیف
فاعلاتن ۔۔۔۔مستفعلن۔۔فاعلاتن۔۔۔ شعر کے میں دو دفعہ
17.بحر جدید
فاعلاتن۔۔۔۔فاعلاتن۔۔۔مس تفع لن۔۔۔۔۔ شعر میں دو دفعہ
.18بحر قریب
مفاعیلن۔۔۔مفایلن۔۔۔فاع لاتن۔۔۔۔۔ شعر دو دفعہ
19.بحر مشاکل
فاع لاتن۔۔۔۔۔مفاعیلن۔۔۔۔۔۔مفاعیلن۔۔۔۔۔۔ شعر دو دفعہ
ان بحور کے علاوہ بھی ہیں جن میں عریج اور عمیق ہیں۔
اردو شاعری میں وزن
عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کا پہلا حرف متحرک ہے آخری دو ساکن
ہیں۔
مختلف لغات میں اس کے معنی یوں درج ہیں
تول،بوجھ،قدر،وقعت۔ترازو کے ایک پڑے میں رکھے گئے باٹ،جانچ ،پرکھ،
شاعروں کی تقطیع کا پیمانہ
اردوشاعری میں وزن کی تعریف
کسی شعر میں اس بحر کے افاعیل کی تعداد کو وزن کہا
جاتا ہے۔علم عروض کی رو سے غزل اور نظم کے ہر مصرع کا وزن یعنی اس میں افاعیل کی
تعداد ایک جیسی ہونی چاہیے مثال کے طور پر
ہمیں کتنی محبت ہے انہیں جا کر بتا ناہے
وفا کی بات کرنی ہےذرا نزدیک لانا ہے
یہ شعر بحر ہزج میں ہے۔اور اس بحر کا رکن مفاعلین اوپر مصرع میں چار بار اور نیچے کے مصرع میں بھی
چار بار آیا ہے ۔یعنی شعر میں آٹھ دفعہ مفاعیلن استعمال ہوا ہے۔یہی اس کا وزن
کہلائے گا۔اور اس میں بنیادی رکن بغیر تبدیلی کے مکمل اور آٹھ بار آیا ہے۔اس کے
وزن کو عروض کی زبان میں مثمن سالم کہا جائے گا۔یوں بحر کا نام شامل کر کےاس کے وزن اور بحر کو یوں تحریر کریں ۔
بحر ہزج مثمن سالم
یاد رہے کہ جس بحر کے جو ارکان غزل یا نظم کے پہلے مصرع میں
استعمال ہوجائیں وہ تمام اشعار میں اسی طرح آئیں گے۔ہاں بعض صورتوں میں شاعر اپنے
محدود اختیارات استعمال کرتے ہوئے غزل کے کسی مصرع یا شعر کے آخر میں ایک ادھ
حرف علم عروض کے اصولوں کے تحت کم زیادہ کر سکتا ہے ۔مثال کے طور پر گر کسی شعر
میں فاعلاتن چار بار آرہا ہے تو کسی بھی مصرع کے آخر میں شعر ایک حرف کم کرکے
فاعلات بھی لاسکتا ہے۔اس کی بیسیوں بل کہ سینکڑوں مثالیں اردو شاعری میں موجود
ہیں۔
شاعری میں تقطیع
تقطیع عربی زبان کا لفظ ہے۔ اورقطع سے نکلا ہے۔تقطیع کے
لفظی معانی درج ذیل ہیں
کاٹنا،ٹکڑے کرنا،چیر پھاڑ ،توڑ توڑ کے پڑھنا،شعر کے اجزا
کسی بحر کے ارکان کے برابر کرکے وزن کرنا ۔
تقطیع کی تعریف
کسی شعر کے اجزا کو بحر کے ارکان کے برابر لاکر اس
طرح جانچنا کہ متحرک کے سامنے متحرک اور ساکن کے مقابل ساکن آئے تقطیع کہلاتا ہے۔
کندن لال کندن اپنی کتاب ارمغان عروض میں لکھتے ہیں
تقطیع کے لغوی معنی ٹکڑے کرنا ،عروض کی
اصطلاح میں شعر کے اجزا کو بحر کے ارکان پہ تولنے کے ہیں۔6
تقطیع ہی در اصل وہ اہم طریق ہوتا ہے جس سے کسی شعر کے علم
عروض کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کے بارے جانچ کی جاتی ہے۔مثال کے طور پر کوئی شعر
جس بحر میں ہے اس کے ارکان کے ایک ایک حرف کے برابر تمام حروف کو اس طرح لایاجاتا
ہے کہ شعر کے سارے حرف افاعیل یعنی بحر کے ارکان کے مطابق آجائیں۔کسی ایک بھی حرف
کے بحر کے رکن کے مطابق پورا نہ اترنے سے سارا شعر بے وزن اور بے بحر قرار پاتاہے۔اس
امر کو واضح کرنے کے لیے ایک سادہ سی مثال دی جاسکتی ہے کہ جب بھی بازار میں کچھ
خریدنے جائیں دکان دار ترازو کے ایک پلڑے میں ساماں اور دوسرے پلڑے میں باٹ رکھتا
ہے ۔اور جب تک ترازو برابر نہ ہو وزن پورا نہیں ہوتا۔علم عروض میں موجود ہر بحر کا
رکن اپنا مخصوص وزن رکھتا ہے اور شاعر ان اوزان کو باٹ کے طور پر استعمال کرتے
ہوئے اپے اشعار ان افاعیل کے مقابل رکھتا ہے ۔اگر وہ پورے نہ اتریں تو دوبارہ سے شعر درست
کر کے اس کا وزن جانچتا ہے۔اس سارے عمل کو تقطیع کہاجاتا ہے۔علم عروض میں تقطیع کے
کچھ قاعد و ضوابط بھی رکھے گئے ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔
ائیے کچھ اشعار کی تقطیع کرتے ہیں۔
شعر:
اس لیے کا ٹے گئے ہیں ۔ بات کی تلوار سے
ہم کہ مرتے ہی کہاں تھے دھات کی تلوار سے
اشفاق شاہین
یہ شعر بحر رمل میں ہے اور بحر رمل کا سالم رکن فاعلاتن ہے اور
اس کا ایک رکن آخر سے حذف شدہ ہے۔اس شعر کا وزن ہے
فاعلاتن۔۔۔فاعلاتن۔۔۔۔۔۔فاعلاتن۔۔۔۔۔۔۔فاعلن
تقطیع:
اس لیے کا ٹے
گئے ہے بات کی تل وار سے
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
ہم ک مرتے ہی
کہاں تے دھات کی تل وار سے
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
ہیں کا نون غنہ تقطیع کے اصولوں کے مطابق شامل تقطیع نہیں
ہوتا۔اسی طرح کہ کی ہ بھی حذف کر دی جاتی ہے۔
اب اس غزل کے آگے آنے والے تمام اشعار اسی بحر اور وزن کے
مطابق ہوں گے۔
مزید مثال
وہ پھیلا ہے تو دریا ہوگیا ہے
سمٹ جانے پہ قطرہ ہوگیا ہے
کاوش پرتاپ گڑھی
یہ شعر بحر ہزج میں ہے۔اس کا رکن مفاعیلن ہے
وزن :مفاعیلن۔۔۔مفاعیلن۔۔۔فعولن
تقطیع:
و
پیلا ہے ت دریا ہو گیاہے
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
سمٹ جانے پ قطرہ ہو گیا ہے
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
چوں کہ تقطیع صوتی انداز کو مد نظر رکھ کے کی جاتی ہے۔یعنی
جس طرح شعر بولا جائے اسی طرح تقطیع عمل میں آتی ہے۔یعنی جو حروف بولے جائیں صرف
وہی تقطیع میں شامل ہوتے ہیں اس لیے اوپر والے شعر میں وہ کا ہ اور تو کا تقطیع
میں شامل نہیں ہو گا۔حرف پھ اصل میں ایک ہی حرف پ مانا جاتا ہے۔
کسی شعر کی تقطیع کے اس کے علاوہ بھی کئی طریق ہیں۔جن میں
کسی شے کو ہاتھ سے بجا کر ،مصرعہ کو گنگنا کر یا اردو کے مروجہ افاعیل کی جگہ کوئی بھی ان کے ہم وزن الفاظ کر کھ کر بار بار
دھرایا جا تا ہے ۔
کتابیات
1.ڈاکٹر گیان چند جین،ااردو کا اپنا عروض،مغربی
پاکستان لاہور،1991
2.انور مینائی،شہکار عروض و بلاغت،یونٹی پرنٹرز،بنگلور،1995
3.قدر بلگرامی،قواعدالعروض،لکھنئو
4.سید کاظم حسن عروض،سراج العروض،ناشر سید ارشاد کاظم
رکسوار ضلع الہ آباد2001
5.مرزا یاس عظیم آبادی،قواعد العروض، مجلس ترقی ادب
لاہور،1996
6.کندن لال کندن،ارمغان عروض،49ونود باپوری ،لااجپت نگر،نئی
دہلی،2014