Ticker

6/recent/ticker-posts

ترقی پسند تحریک اور ادبی خدمات|Taraqi Pasand ki Tehreek Adbi Khidmat

ترقی پسند تحریک اوراس کی ادبی خدمات .Traqi Pasand Tehreek Aur us Ki adbi Khidmat

 

ترقی پسند تحریک اوراس کی ادبی خدمات

ترقی پسند تحریک کے موضوع پراردو میں ایک مفصل ، بھر پوراور معیاری تحریر

مصنف: علی احمد فاطمی

اس میں شک نہیں کہ ترقی پسند تحریک بیسویں صدی میں زبان و ادب کی سب سے بڑی تحریک ہے لیکن ترقی پسند احساس و شعور تو ادب سے ہمیشہ ہی رہا ہے اردو کی کلاسیکی ودینی شاعری میں ایسے جرات مندانہ اور صوفیانہ طرز کے اشعار کی کمی نہیں لیکن ان کا تعلق اس نوع کی ترقی پسندی سے نہ تھا جو ترقی پسند تحریک کی خصوصی دین تھی تاریخی و سماجی حوالوں سے ایسا ممکن بھی نہ تھا یہ ترقی پسندی یا روشن خیالی تو اس رواداریوں انسان دوستی کا حصہ تھی جو ابتدا ہی سے اردو شاعری کے رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی لیکن اس کی جڑیں مذہب اور تہذیب میں پیوست تھیں۔ سردار جعفری نے اسے ایک طرف بھگتی تحریک اور دوسری طرف یورپ کے مسٹی سزم Mysticismسے وابستہ کیا ہے اردو شاعری اور شاعروں کی ابتدا ہی سے زاہد خشک، ناصح اور محتسب سے ٹھنی رہی ہے۔ اسی نے آگے چل کر انسانی وحدت کے گیت گائے اور انسانی عظمت کے بھی اور چونکہ اس وقت تک سماجی اور مادی شکل وہ رونما نہ ہوئی تھی جسے بعد میں اقبال جیسا مذہبی فکر رکھنے والا شاعر بھی اپنائے بغیر نہ رہ سکا اس لئے ان شاعروں کی آوازیں وحدت اور عظمت تک محدود رہیں۔ تاہم ان کی افادیت اور عظمت سے انکار ممکن نہیں اس روایت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کل کی حقیقت آج میں اور آج کی حقیقت کل میں تبدیل ہو جاتی ہے ماضی کے کندھے پر بیٹھ کر حال کو اپنے یوں بڑا سمجھنے لگتا ہے جیسے باپ کے کندھے پر بیٹھ کر بیٹا اپنے آپ کو باپ سے بڑا سمجھنے لگتا ہے غالب کا دارورسن ہی ترقی پسند شعرا کے یہاں مختلف استعاراتی نظام میں جھلکا

حالی، شبلی وغیرہ سے ہوتے ہوئے جب یہ سلسلہ اقبال تک پہنچتا ہے تو ان کی نظم نگاری انیسویں صدی کا نچوڑ اور بیسویں صدی کا شعور بن کر ابھرتی ہے اور کئی رنگ ایک ساتھ ابھرتے ہیں روایتی تصوف نے  مرد مومن یا مرد کامل کی شکل اختیار کی۔

اقبال پہلے شاعر ہیں جن کے یہاں باقاعدہ انقلاب کی گونج سنائی دیتی ہے اسی طرح پریم چند کا سیدھا سادہ انسان پہلے وطن پرستی کا راستہ اختیار کرتا ہے اس کے بعد اخلاقیات کے حوالے سے بڑے گھر کی بیٹی اور نمک کا داروغہ جیسی کہانیاں لکھتا ہے اس کے بعد تحریک آزادی سے وابستگی اور گاندھی جی کی دوستی نے اور آگے بڑھا کر حقیقت اور اشتراکیت کی کہانیاں لکھوائیں۔ نئی بیوی،نجات اور کفن جیسی شاہکار کہانیاں ۔۔۔۔۔اور اور کہانی پہلی بار سرمئی ماحول اور گلابی محل سے نکل کر پگ ڈنڈی، چوپال کھیت اوراوسارے میں آئی اور ہندوستانی دیہات کی ارضیت اور ثقافت نے ایک نئی جمالیات کو پیش کیا نتیجے میں پورا اردو ادب قدامت اور جدیدیت کے دوراہا پر آکھڑا ہوا۔ اس کشمکش کے درمیان سجاد ظہیر دنیا کی سیاست اور اشتراکیت کی حقیقت لیے ہوئے ہندوستان کے ادب میں داخل ہوئے ترقی پسند اور روشن خیال ادیبوں اور شاعروں کی انجمن بنائی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین۔ اور واضح طور پر اعلان کیا

اس وقت ہندوستانی سماج میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور جاں بلب رجعت پرستی جس کی موت لازمی اور یقینی ہے اپنی زندگی کی مدت بڑھانے کے لئے دیوانہ وار ہاتھ پاؤں مار رہی ہے پرانی تہذیبیں ڈھانچوں کی شکست و ریخت کے بعد اب تک ہمارا ادب ایک گونہ فراریت کا شکار رہا ہے اس سے گریز کرکے کھوکھلی روحانیت اور بے بنیاد تصور پرستی میں پناہ ڈھونڈتا رہا ہے جس کے باعث رگوں میں نیا خون آنا بند ہو گیا ہے اور ادب شدید قسم کی ہیئت پرستی اور گمراہ کن منفی رجحانات کا شکار ہوگیا ہے۔ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھرپور اظہار کریں اور ادب میں سائنسی عقلیت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ترقی پسند تحریکوں کی حمایت کریں ہماری انجمن کا مقصد اور ادب اور آرٹ کو ان رجعت پرست طبقوں کے چنگل سے نجات دلانا ہے جوساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں دھکیل دینا چاہتے ہیں ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا موثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ۔

 

ہرچند اس اعلان نامہ پر پریم چند،عبدالحق، جوش اور حسرت جیسے اکابرین نے نے دستخط کئے اور بعد میں اقبال اور ٹیگور جیسے عظیم شاعروں اور دانشوروں نے بھی اس موقف کی حمایت کی لیکن سچ یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ اعلان نامے آئے اور یہ انجمن قائم ہوئی وہ انسانی تاریخ کا ایک نہایت پر آشوب زمانہ تھا۔ جہاں ایک طرف عالمگیر کساد بازاری کی وجہ سے ہندوستان کی نوآبادیاتی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی تھی وہیں دوسری طرف سامراجیت اور مذہبیت نے ایسا ماحول بنا رکھا تھا کہ عقل پرستی اور روشن خیالی کی گنجائش کم کم ہی نظر آتی تھی اس کا ہنگامہ انگارے کی شکل میں رونما ہو چکا تھا اس مجموعہ میں شامل ترقی پسند تحریک  کےجرات مند ادیبوں کو نہ اس وقت کوئی نعمت تھی اور نہ بعد میں جب ان پر مقصدیت افادیت، خطابت اور نعرے بازی کے حوالے سے طرح طرح کے الزام لگائے گئے لیکن سچ یہ ہے کہ بڑا ادب اور ادیب اکثر ناہموار ماحول ہی پیدا کرتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کی بنیاد بظاہر نہ ہار ماحول میں پڑی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پودا تھا جو مناسب موسم ، مناسب ہاتھوں کے ذریعے لگایا گیا اور یہ مناسبت صرف ہندوستان تک محدود نہ تھی اگرچہ یہ ایک تاریخی حیثیت ہے کہ اس تحریک کی نشونما میں تحریک آزادی کا بڑا رول رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے ڈانڈے دنیا بھر کی تحریکوں سے بھی ملتے ہیں ۔حقیقت میں یہ عالمگیر جدوجہد کا حصہ تھی پوری دنیا کی عوامی طاقتیں ظلم اور فسطائیت کے خلاف پرچم بلند کر رہی تھی ایسے میں ساری دنیا کے ادیب قلمکار دانشور اور ان کی ہمنوائی کر رہے تھے۔ جولائی انیس سو پینتیس میں پیرس میں ہونے والی ادیبوں کی عالمی کانفرنس میں ادب اور کلچر کے تحفظ کے لیے برطانیہ یورپ کے ادیبوں نے ایک ساتھ قدم اٹھائے اور ساری دنیا کے ادیبوں کو بیدار کر کیا ۔قلم کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی گئی ایسی صورت میں خیالی تفریحی اور مصنوعی ادب کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی ۔عوام سے وابستگی ان کے دکھ درد میں شرکت نے بہت کچھ بدلا زندگی کے پامال موضوعات کی طرف سب کی نگاہیں اٹھنے لگی۔ مزدوروں اور کسانوں کی حمایت ہونے لگی انقلاب کی آوازیں گرم ہونے لگیں۔ اشتراکیت نے حقیقت کا تصور بدلہ حسن کا معیار بھی بدل گیا ۔

 

راست طور پر عوام سے رشتہ کرنے کی وجہ سے عوامی مسائل آئے اور موضوعات جس سے اردو ادب نابلد تھا ادب عالیہ کا حصہ بننے لگے ۔بدصورتی میں حسن تلاش کیا گیا ظاہر ہے کہ یہ ایک مشکل عمل تھا ایک طرف صدیوں کی روایتی جمالیات سے انحراف کرنا اور دوسری طرف کھردری جمالیات کو پیش کرنا جس سے اردو کا قاری واقف اور مانوس نہ تھا ۔اس کے باوجود یہ ہوا کہ بدصورت اور غریب دھنیا اردو ناول کی تمام خوبصورت ہیروئنوں کو روند کر لازوال کردار بن گئی جس نے آگے بڑھ کر چمن، لاجونتی، سوگند گندھی، سوریا جیسے لافانی کردار دیے۔

اردو ادب کی کھوکھلی رومان پرور دنیا میں رومانوی حقیقت یا حقیقی رومانویت کے بادل منڈلا ئے اور اردو شاعری کا محبوب اور معشوق جو چلمن کی آڑ سے جاگیردانہ تہذیب کی زوال پذیر صورتحال کو کن انکھیوں سے دیکھ رہا تھا اچانک اپنے آپ کو تمام قید و بند سے آزاد کر کے پہلے جنگل کی شہزادی بنا پر فتنہ ایک خانقاہ اور اس کے بعد سماج کے دوسرے شعبوں میں جاکر دفتر، اسکول، کھیت، چوپال میں رچ بس گیا۔

غرض یہ کہ اشتراکیت نے پر پھیلائے۔حقیقت بے باک اور تہہ دار ہوئی اور پھر یہ فلسفہ بھی سامنے آیا کہ حقیقت جتنی تہہ دار ہوگی جمالیات اتنی ہی نازک ہوگئی ان سب نظروں میں اختلافات کے معاملات ابھرنے ہی تھے کہ روایتی اور فرسودہ نظام تبدیلیوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتا لیکن ترقی پسند ادیبوں کا اعلان تھا کہ وہ تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں اور یہ تبدیلی اپنے آپ نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کے پس پردہ جدلیاتی مادیت کا نظام کام کرتا ہے اسی لئے ترقی پسند تحریک  کےادیب اپنے آپ کو سماجی ذمہ دار بھی مانتے تھے تاہم ان کا ایک ایقان کہ وہ فن حسن اور افادیت تینوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور وہ چلے بھی جنہوں نے ترقی پسند عشقیہ رومانی شاعری کا مطالعہ نہیں کیا وہ بے گانا محض بے خبر بھیر ہے لیکن یہ بھی سچ ہے ترقی پسند شاعروں میں سماجی شاعری اور احتجاجی شاعری پر زیادہ زور دیا بحث و تمحیص سے یہ نتیجہ برآمد کیا کہ لمحاتی شاعری بہر حال مبہم شاعری سے بہتر ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے۔

 بقول ایلیا ہرن برگ :

 اگر اس مخصوص لمحہ میں ملک و قوم کی تقدیر کا فیصلہ ہو رہا ہو تو لمحاتی شاعری  دائمی شاعری کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی ہے۔

 سردار جعفری نے کہا تھا۔

ہمیں اس شاعری کی بھی ضرورت ہے جو ایک وقتی لمحہ کی ضرورت کو پوری کر رہی ہو اور اس شاعری کی بھی جو لمحاتی اور وقتی سطح سے بلند ہو کر دائمی قدر کی حیثیت بھی حاصل کر سکے ہر شاعر کی شاعری وقتی ہوتی ہے ممکن ہے کوئی اور اسے نہ مانے لیکن میں اپنی جگہ یہ سمجھتا ہوں اگر ہم گئے زمانے کا راگ الاپیں تو بے سرے جائیں گے آنے والے زمانے کا راگ جو بھی ہوگا وہ آنے والی نسلیں گائیں گی۔ ہم تو آج ہی کاراگ چھیڑ سکتے ہیں۔"

ترقی پسند ادیبوں شاعروں اور دانشوروں نے تنظیم اور تحریک کی مسلسل کانفرنسوں، رسالوں اور بحثوں وغیرہ کے ذریعے اپنا لائحہ عمل اور فکر و نظر کو بار بار واضح کیا۔ احتشام حسین نے کہا ادب میں ترقی پسندی زندگی کی ترقی پسندی سے الگ کوئی چیز نہیں اختر حسین رائے پوری نے اپنے ابتدائی اور انقلابی مضمون میں کہا زندگی کے مقاصد سے ہٹ کر ادب نہ اپنی منزل تلاش کر سکتا ہے نہ یہ ممکن ہے ایک انسان اور ایک ادیب کے فرائض اور مقاصد یکساں اور مشترک ہیں۔ مجنوں گورکھپوری نے ادب اور مقصد کے حوالے سے کہا بغیر مقصد کے کسی زمانے میں کوئی بھی ادب پیدا نہیں ہوا بے مقصد ادب کا وجود کم سے کم ہماری گردباد کی دنیا میں کبھی نہیں رہا میں مثالیں  اور بھی ہں مثبت مدلل اور مستحکم۔چنانچہ انہیں نظریوں کی بنیاد پر عصری مسائل سے راست طور پر وابستگی،حقیقت نگاری اور پامال موضوعات کی نمائندگی ہی ترقی پسند ادب اور ادیبوں کی سب سے بڑی دین ہے۔ جس نے نظریہ ادب ہی نہیں نظریہ حیات بدل کر رکھ دیا۔ یہ ترقی پسند تحریک  کےادیب ہی تھے جنہوں نے موت میں بھی تجدید حیات اور خزاں میں تجدید بہار کے خواب دکھائے اسی لیے ترقی پسند شعروادب میں یاسیت قنوطیت کی بجائے امید نشاط حیات کے عناصر بھرے ہوئے ہیں۔ فیض  کی زندہ نامہ ہو یا علی سردار جعفری کی پتھر کی دیوار مخدوم کی حویلی ہو یا مجاز کی آوارگی یا ساحر کے چکلے ان سب میں رجائیت ہے ایک مخصوص حرکت و حرارت ہے۔ سردار جعفری صاف طور پر کہتے ہیں:

 

میں اپنی شاعری کو نالہ نیم شبی اور آہ سحر گاہی نہیں بنا سکا ہوں میں اسے بیک وقت ستار کا نغمہ اور تلوار کی جھنکار بنانا چاہتا ہوں میں اپنی نالہ و بکا آہ و فریاد سے ان غموں سے بھری ہوئی دنیا کو اور زیادہ غمگین نہیں بنانا چاہتا ترقی پسند طاقتوں کا یہ تقاضہ ہے کہ فضا کو زہر سے صاف کر کے پاکیزہ کردیا جائے آج یہ شاندار جدوجہد دنیا کے ہر ملک میں ہو رہی ہے اور اس نے ساری دنیا کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔

فیض احمد فیض نے بھی دست صبا میں کہا تھا:

 

شاعر کا کام محض مشاہدہ نہیں مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے گرد و پیش کے مضطرب قطروں میں زندگی کے دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر اس کے بہاؤ میں دخل انداز ہونا اس کے شعورکی صلابت اور لہو کی حرارت پر"

 

یہ تھے وہ افکارونظریات جس نے ترقی پسند تحریک کو جلا بخشی اور اردو ادب آسمان سے اتر کر زمین پر کھڑا ہوا اب زمین کے اور عام انسان کے جو بھی مسائل تھے وہ ترقی پسند ادب کے مسائل تھے معاملہ جنگ کا ہو یا ظلم کا انتہا انقلاب کا ہو یا احتجاج کا، کلرک کا ہو یا چپڑاسی کا ،مزدور کا یا کسان کا ترقی پسند ادیبوں نے ان سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا چنانچہ کالو بھنگی اور منگو کوچوان جیسے لافانی کردار ترقی پسند ادب کی تاریخ کا حصہ بن گئے اور بھی بہت کچھ ہوا ۔

بقول پروفیسر قمر رئیس:

 

حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال میں ترقی پسند ادیبوں کے ہاتھوں اردو شعر و ادب کی مختلف اصناف میں جو وسعت تازگی اور رنگارنگی پیدا ہوئی مشاہدہ تخیل کی گہرائی اور نیرنگی آئی جو جاندار تجربے ہوئے وہ ملک کے عوام کی زندگی سے اسی قربت کا نتیجہ ہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے حقیقت نگاری کا جو تصور پیش کیا اس میں زندگی اپنی ساری گہما گہمی تہہ داری اور تنوع کے ساتھ ایک کل کے طور پر سمٹ آئیں اس سے اردو شعر و ادب میں نئی علامتوں اور نئے امکانات کے دروازے کھل گئے۔"

سجاد ظہیر اور دیگر ترقی پسند ادیبوں دانشوروں کی یہ کوشش بھی تھی کہ اس تحریک کے ذریعہ اردو زبان کے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادیبوں دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے ہر چند کہ مذہب اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہندوستان میں یہ ایک بے حد مشکل اور پیچیدہ کام تھا تاہم ان سب کی غیر معمولی کوشش کرے ان کے بڑے مقاصد نے ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ادیبوں کو ایک مقام اور محاذ پر متحد کر دیا جس سے ادبی لسانی جغرافیائی تقریب کی حدیں ٹوٹ گئیں لیکن ان سب کی بڑی مشکل اردو زبان و ادب کو ہی لے کر آئی تھی اس پر مدتوں سے امرائ،شرفا اورنوابین و سلاطین کا قبضہ تھا۔ متوسط طبقہ سے بالعموم اور نچلے طبقہ سے بالخصوص کوئی رشتہ نہ تھا لیکن سجاد ظہیر اور ان کے رفقاء کی انتھک کوشش اور سب سے بڑھ کر ملک و ملت کے ایک بڑے طبقے کے ترجمان کا راستہ دیکھ رہی تھی اردو کے مسلم ادیبوں نے ہندو کردار پیش کیے نیز تہواروں، دیوی دیوتاؤں پر سنجیدہ اور عمدہ نظمیں کہیں اور کہانیاں لکھیں اردو افسانے کے جاندار اور شاندار نسوانی کردار بھی مردوں نے ہی خلق کیے ہندو ادیبوں نے مسلمان کردار اور مسلمان تہواروں پر بھی تخلیقات پیش کیں ایک نیا مشترکہ کلچر پورے قومی اتحاد کے ساتھ پر پروان چڑھا جس نے ایک نئی عوامی تہذیبی ثقافت وقت کو جنم دیا۔

حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس تحریک کی پہلی کھیپ میں زیادہ تر ایسے ادیب و شاعر تھے جو ان گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے جن کا نچلے طبقہ سے تعلق نہ تھا لیکن ان کے سامنے اقبال اور پریم چند تھے۔ بطور خاص پریم چند ان کے آدرش تھے جیسے ہی ان سب نے پریم چند سے رابطہ قائم کیا اور تنظیم کی بات کی پریم چند نے فورا کہا

 

ہم اس تنظیم کا دل سے خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ زندہ تابندہ ہو ہمیں اصل میں ایسے ہی ادب کی ضرورت ہے اور ہم نے یہی آدرش اپنے سامنے رکھا ہے ۔

 

سچ یہ ہے کہ ترقی پسند ادیبوں میں پریم چند جیسے عظیم فنکار کو بھی نہ صرف متاثر کیا بلکہ ان میں فکری انقلاب بھی برپا کیا انگارے کی اشاعت کے بعد پریم چند کے آخری دور کے افسانوں میں جس طرح اشتراکیت نظر آنے لگی وہ اصل ترقی پسند تحریک ہی کی دین تھی۔ اقبال نے بھی مارکس مارکزم کی حمایت کی اور مارکس پر باقاعدہ نظم لکھی۔ حسرت موہانی بھی سرفروشانہ انداز سے تحریک سے وابستہ رہے۔

ترقی پسند تحریک کی اپنی کچھ کمزوریاں بھی تھیں جن کا اظہار مخالفین نے تو بار بار ہی کیا خود ترقی پسند ادیبوں اور نقادوں نے کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا کہ محاسبہ کرتے رہنا بھی ترقی پسند فکر کا ایک اہم جز تھا ممتاز حسین احتشام حسین مجنوں گورکھپوری وغیرہ کے متعدد مضامین ترقی پسند فکر و نظر کا محاسبہ کرتے نظر آتے ہیں سجاد ظہیر قدم قدم پر اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ

یہ ادب کی ایسی تحریک ہے جس کی بنیاد حب الوطنی انسان دوستی اور آزادی پر ہے اس کا مقصد ہرگز ہمارے پرانے تمدن اور اخلاق اور ان کے ادبی و فنی مظاہروں کو مسترد کرنا نہیں۔

انسانوں کی طرح تحریکوں کی بھی عمر ہوا کرتی ہے عملی طور پر تحریک اور اس کے عہد کے ترقی پسند ادیبوں کو جو رول ادا کرنا چاہیے تھا انہوں نے ادا کیا انیس سو پچاسی میں لندن کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں میں نے ممتاز ترقی پسند دانشور و فلاسفر سبط حسن سے سوال کیا کہ کیا ابھی تک کی پسند تحریک کی ضرورت ہے کہاں نہیں تحریک اپنا کام کر چکی اب تک کی پسند نظریہ ادبی فضا میں تحلیل ہو چکا ہے یہ جو نیا ادب ہے جو بظاہر ہو رہا ہے یہ دراصل ترقی پسند فکر و نظر کی توسیع ہے۔

بات کل کی نہیں آج بھی ترقی پسند تحریک کے اثرات واضح طور پر طے کیے جا سکتے ہیں اس کی ہی کہنے کی بجائے میں ایک جدید نقاد کی رائے پر اس مختصر مقالہ کو ختم کرتا ہوں جو فکری اعتبار سے ترقی پسند نہیں ہے ڈاکٹر یعقوب یاور اپنی بحث طلب کتاب ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری میں لکھتے ہیں ہیں۔

"ترقی پسند تحریک کی بدولت شاعری نے مواد اور موضوعات میں رنگارنگی کے آثار پیدا کیے اس عہد میں اردو شاعری میں بلحاظ تعداد جتنے تجربے ہوئے وہ اس سے بھی پہلے کبھی نہیں ہوئے آج اردو نظم کی جو صورت ہے اس کی نقش گری میں ترقی پسند تحریک کا بھی حصہ ہے نظم کو مقبول عام بنانے میں اس تحریک نے جو خدمات انجام دیں ان حقائق سے انحراف کے مترادف ہو گا اردو نظم اپنے وجود کی نئی صورت گری اور ارتقاء کی رفتار میں تیزی کے لئے ہمیشہ ترقی پسند تحریک کی احسان مند رہے گی.


(بشکریہ ترقی پسند تحریک سفر در سفر از علی احمد فاطمی)