Ticker

6/recent/ticker-posts

علامہ اقبال کے کلام میں خودی کا تصور|Allama Iqbal Aur Khudi ka Tasawur

 

علامہ اقبال کے کلام میں خودی کا تصور.iqbal ka tasawar e Khudi

علامہ اقبال کی شاعری میں تصورخودی

ڈاکٹر: آصف جاہ کاروانی

اگرچہ علامہ اقبال کی جملہ نگارشات کا مرکزی خیال خودی ہے تاہم انہوں نے اپنے نظریات دیگر فلاسفہ کی طرح بل تفصیل اور بالترتیب کہیں بیان نہیں کیے منظومات میں اسرار خودی رموز بے خودی گلشن راز جدید اور بال جبریل کے ساقی نامہ میں ان کا ایک ہلکا سا خاکہ پیش کیا گیا ہے اسرار خودی اور رموز بے خودی کے دیباچوں میں ڈاکٹر نکلسن کو اسرار خودی کے انگریزی ترجمہ کے سلسلے میں انہوں نے خط لکھا تھا اس میں تصورخودی کی بعض خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن ان میں تفصیلات آتے نظریہ کم ہے خودی کی اہمیت اور استحکام پر زیادہ زور ہے اپنی تمام تصانیف میں صرف انگریزی خطبات موسوم بہ ریکنسٹرکشن آف ریلیجیئس تھاٹ ان اسلام میں اقبال نے نظریں حیثیت سے خودی کی تفصیلات سے بحث کی ہے لیکن چونکہ ان خطبات کا براہ راست تعلق فلسفہ سے نہیں ہے بلکہ مذہبی فکر کی از سر نو ترتیب سے ہے لہذا ان میں بھی نظریں آیا ہے خودی کی تفصیلات پر بالترتیب روشنی نہیں ڈالی گئی۔علاوہ ازیں ان کے خطبات میں علامہ اقبال نے اپنے نظریات کے مغربی ماخذ کو نظر انداز کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کا جامع تصور قائم کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ انیس سو اٹھائیس میں اقبال نے غلام بھیک نیرنگ کو ان کے خطبات کے ترجمے کے بارے میں لکھا تھا باقی لگ رہا لیکچروں کے ترجمے کا کام سو یہ کام ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور ازبس مشکل ضرور ہے ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر نہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کردیا جائے اور اگر پرانی تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے میرا کام فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خواں دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا

 

اس مقالے میں علامہ اقبال  کی نگارشات اور ان کے تخیل کے مشرقی و مغربی معاشرت اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے فلسفہ خودی یا تصورخودی کے نظریہ پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اقبال کے نزدیک جملہ موجودات کی اصل قوت تخلیق ہے جس کو وہ انتہائی خودی الٹیمیٹ ایگو کہتے ہیں۔

پیکرِ ہستی زآثار خودی است

ہرچہ می بینی زاسرار خودی است

اپنے انگریزی لیکچروں میں وہ کہتے ہیں شعوری تجربے کے امید پہلوؤں کا تزکیہ کرنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تجربہ کا انتہائی ممبہ ایک با شعور قوت تخلیق ہے جس کو میں نے انتہائی خوشی کا نام دیا ہے

گر چشمی کشائی بر دل خویش

درون سینہ بینی منزل خویش

علامہ اقبال کا خیال ہے کہ اس انتہائی خودی کو قرآن پاک میں ایک مکمل شخصیت تصور کیا گیا ہے اور اس کی غرض سے اللہ کا مخصوص نام دے کر یہ تعریف کی گئی ہے کہ اللہ ایک ہے ۔وہ بے نیاز ہے اور وہ کسی سے نجات نہ گیا نہ کوئی اس سے جنا گیا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

اس تعریف کی تائید میں دلائل پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں انتہائی خودی

 ہی زمان نے مجرد میں رہتی ہے زمان مجرد میں رہنا انتہائی خودی کا اثبات ہے اور خودی کے اثبات کے معنی انا ہیں یا خودی چوں کہ شخصیت کا دوسرا نام ہے لہذا واضح ہو گیا کہ خدا ایک شخصیت ہے چونکہ انتہائی خودی کا دائرہ عمل زما  ہے جو ایک حرکی عضویہ ہے۔اور ایک مکمل ہنوز کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔لہذا نہ تو انتہائی خودی کی کوئی ضد ہو سکتی ہے اور نہ وہ جامد و ساکت ہو سکتی ہے بلکہ اسے ایک بے مثال کو تخلیق ہی شکل میں تصور کیا جا سکتا ہے ہے جو کہ انتہائی خوشی کی کوئی ضد نہیں اس کا کوئی مدمقابل نہیں اس لئے اس کا تخلیقی عمل خارجی نہیں داخل ہو گا اور وہ بازیابی کے متضاد رجحان سے پاک ہو گئی۔انتہائی خودی چوں کہ بازیابی کے متضاد رجحان سے مبرا ہے لہذا اس کی ذات ہر نقص سے پاک ہو گئی اور اس کی شخصیت کا حامل ہو گی اس طرح وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ انتہائی خودی ایک شخصیت ہے کامل ،خود مرکوز ،بینظیر اور بازیابی کے وصف سے پاک ان کا خیال ہے کہ یورپ کے جدید سائنٹفک اور فلسفیانہ تجربوں اور دریافتوں سے بھی خدا کے اس تصور کی تصدیق ہوتی ہے۔

لیکن شخصیت کا تصور کردار کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا انتہائی خودی اگر شخصیت ہے تو اس کا کچھ کردار بھی ہونا چاہیے علامہ اقبال کے خیال میں فطرت انتہائی خودی کا کردار ہے جس کی تصدیق وہ اس حدیث سے کرتے ہیں

تو ہر کو برا مت کہو

وہ کہتے ہیں ہیں انتہائی خودی کے لیے فطرت کی وہی حیثیت ہے جو انسانی خودی کے لئے کردار ادا کرتی ہے ہے فطرت کا مطالعہ خدا کے کردار کا مطالعہ ہے ہے فطرت کا مطالعہ کرنے سے انتہائی خودی کا تصور بھی قائم کیا جا سکتا ہے اور اس کا قرب بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

خدا کو شخصیت تصور کر لینے سے یہ دقت پیدا ہوتی ہے کہ اسے لامحدود کیسے سمجھا جائے اقبال اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں خدا کو محدودیت کے لحاظ سے لا محدود تصور نہیں کیا جاسکتا روحانی معاملات میں محض مکانی بڑائی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ ہمادی اور مکانی لامحدودیت کو بھی نہیں کہا جا سکتا جدید سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ فطرت کوئی ساقط اور جامد شے نہیں جو لامحدود خلا میں واقع ہو بلکہ وہ باہم متعلق واقعات کا نظام ہے جس کے باہمی تعلقات سے زمانہ مقام کا تصور پیدا ہوتا ہے۔

گویا یہ اس حقیقت کو پیش کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زمان و مکاں وہ معنی ہے جو فکر نے انتہائی خودی کے تخلیقی عمل کو دے دیے تھے باالفاظ دیگر زمان و مکان کی خودی کے امکانات ہیں جن کا کچھ حصہ ہمارے زمان و مکاں کی شکل میں ہمارے پیش نظر ہے۔انتہائی خودی کے باہر اور اس کے تخلیقی عمل کے علاوہ نظماں ہے نہ مکاں لہٰذا انتہائی خودی نہ تو مکانی لامحدودیت کے لحاظ سے لامحدود ہے اور نہ پابند مکاں انسانی خودی کی طرح محدود ۔اس کی لا محدودیت کا دارومدار اس کے تخلیقی عمل کے لامحدود امکانات پر ہے جن کا نام مکمل مظاہرہ ہماری کائنات ہے مختصر م یہ کہ خدا کی لامحدودیت داخلی ہے نہ خارجی انگریزی (لیکچر صفحہ 65)

شخصیت کے سلسلہ میں ایک اعتراض یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ  خودی انتہائی ہو یا محدود غیر خودی کے بغیر اس کا تصور کیسے قائم ہو سکتا ہے نیز اگر انتہائی خودی کے باہر کوئی شہر نہیں ہے تو پھر اسے خودی کیسے تصور کیا جا سکتا ہے اس اعتراض کے جواب میں اقبال کہتے ہیں حقیقت کی اس نوعیت کے بارے میں جس کا انکشاف شعوری تجربے سے ہوتا ہے منطقی استدلال سے رائے قائم کر لینے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔شعوری تجربے کا تزکیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حقیقت ابدی ایک باشعور زندگی ہے جسے زندگی کے تجربے کی روشنی میں ایک عضو کل ہی تصور کیا جا سکتا ہے جو خود مرکز بھی ہے اور مرکزی نقطے کا حاصل بھی شو کی زندگی کا یہی خاصہ ہے لہٰذا حیات ابدی کو  بھی خودی ہی تصور کیا جا سکتا ہے ( انگریزی لیکچر 78)

علامہ اقبال انتہائی خودی کے چار اوصاف بتاتے ہیں یعنی خالقیت علمیت ابدیت اور قدرت مطلقہ

خالقیت

عام طور پر لوگوں میں یہ خیال رائج ہے کہ کائنات کی تخلیق کا عمل ایک مخصوص گزشتہ واقع ہے خدا نے کن کہا اور یہ کائنات ہوگئی۔ اقبال کہتے ہیں قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ خدا ہر روز اپنے آپ کو کسی نئے کام میں مصروف رکھتا ہے اور اس آیت کا ذکر کرتے ہیں کہ خدا کا تخلیقی عمل اب بھی جاری ہے وہ اس تفسیر کی تائید میں جدید سائنس کا نظریہ اضافیت پیش کرتے ہیں جس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کائنات کوئی ٹھوس شے نہیں بلکہ باہم متعلق واقعات کا ایک نظام ہے جس میں اضافہ ہورہا ہے وہ کہتے ہیں۔

ہمارے شعوری تجربے کا تزکیہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ زمان و مکاں اور موجودہ بالذات انتہائی خودی کی مدمقابل حقیقتیں نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو خدا کی تخلیق زندگی کو سمجھنے کے عقلی طریقے ہیں اس طرح علامہ اقبال اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ چونکہ اس کائنات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ خدا کا تخلیقی عمل مسلسل جاری ہے ۔

اقبال کا خیال ہے کہ انسان جس میں میں خود ی نسبتا مکمل ہوچکی ہے الہیت کی قوت تخلیق میں ایک ٹھوس مقام رکھتا ہے۔ خدا کی جملہ تخلیقات میں صرف وہی اس قابل ہے کہ اپنے خالق کی تخلیقی زندگی میں باشعور شرکت کر سکے۔

2.ابدیت

علامہ اقبال کا خیال ہے کہ انتہائی خودی کی ابدیت کا مسئلہ سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے وقت کی نوعیت معلوم کر لی جائے وقت کی صحیح نوعیت معلوم کرنے کے لیے اپنے شعوری تجربے کا نفسیاتی تزکیہ ضروری ہے اس وجہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری خودی کے دو رخ ہیں کارگزار ۔۔۔اور ۔۔۔قدرافزا۔۔کار گزار صورت میں وہ اپنی فوری فوری ضروریات کے پیش نظر کو آج اور کل میں تقسیم کر لیتی ہے یہ شماری وقت ہے جو حقیقی وقت نہیں ہے لیکن قدر افزا صورت میں اسے ماضی حال اور مستقبل ایک مسلسل ہنوز معلوم ہوتا ہے ہے یہ زمان مجردہے جو حقیقتی وقت ہے جس کو ہم ہم ابدیت کہتے ہیں اگر ہم اپنے شعوری تجربے کی رہنمائی قبول کرلیں اور ہمہ گیر خودی کو زندگی کے مشابہ تصور کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ابدی ایک طرف شماری وقت میں رہتی ہے اور دوسری طرف زمان مجرد میں۔

3.علمیت

محدود خودی کی حالت میں علم کے معنی استدلالی معلومات ہیں جن کا تعلق کسی موجود بالذات شے سے ہوتا ہے۔لیکن علامہ اقبال کے خیال میں انتہائی خودی کی علمیت کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کیونکہ اس کا مد مقابل کوئی نہیں ہے ہمہ گیر خودی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو غیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اس میں فکر و عمل عمل علم اور عمل تخلیق سے ہوتے ہیں لہذا ایسی خودی جو دانا بھی ہے اور موضوع معلوم کی اصل بھی اس کی علمیت کی نوعیت کسی طرح بھی استدلالی نہیں ہوسکتی انتہائی خودی چونکہ زمان مجردمیں رہتی ہے جہاں ماضی حال اور مستقبل مل کر ایک ابدی ہنوز کی  شکل اختیار کرلیتی ہے لہذا اسے کائنات کے ماضی اور حال اور مستقبل کے تمام واقعات کا علم ہونا چاہیے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ یہ خیال ای حد تک تک درست ہے لیکن اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کائنات ایک کامل نظام ہے جس کا مستقبل پہلے سے متعین ہے جس کے واقعات وقت کے تسلسل کو بدلا نہیں جا سکتا۔

علامہ اقبال کے خیال میں انسانی خودی لامحدودیت کے لحاظ سے بحثیت حیاتی وحدت ابھی نامکمل ہے یہ ضرور ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خود مرکوز موثر متناسب اور یکتاو

وحدت بننے کی متمنی ہے اسے کامل وحدت بننے کے لیے ابھی بہت سے ماحول سے گزرنا ہو گا ابھی زندگی کی موجودہ منزل پر یہ اس کے لئے مشکل ہے کہ وکشا کش کی حالت کو مستقل طور پر بغیر سستائے برقرار رکھ سکے تو خفیف اشغال بھی اس کی وحدت کو توڑ کر اسک کی قوت انتظامیہ کو زائل کر سکتا ہے۔