مزراغالب کی کتاب اردوئے معلی کی ادبی اور تاریخی اہمیت بیان کریں۔ایم اے اردو |
مرزاغالب کی کتاب اردوئے معلی ادبی اور تاریخی اہمیت بیان کریں
اردوئے معلی کی ادبی اہمیت
مرزاغالب کی
کتاب اردوئے معلی کی ادبی اہمیت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ
اردو کے ابتدائی نمونوں کا جائزہ لیا جایے۔اس میں شک نہیں کہ اردو نثر نگاری کا
آغاز غالب سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔اردو شاعری کی طرح اردونثر کے
ابتدائی نمونے بھی قدیم دکن سے ہی ملتے ہیں۔جب اردونثر کی ابتدا اصلاحی تحریروں سے
ہوئی یہ مخطوطات دینی پندونصائح پر مبنی تھے۔جیسے بہمنی دور میں شیخ گنج العلم کی
تصنیفات ہیں۔ادرو کے فروغ میں اس کے بعد فورٹ ولیم کالج نے
حصہ ڈالا۔ فورٹ ولیم کالج میں نثر کے لیے منشی رکھے گئے تھے۔جن کا کام
ہی نثر تحریر کرنا تھا۔اس سے اردو کے نثر کے خزانے میں اضافہ تو ہوا لیکن قصے
کہانیوں کی حد تک۔اس نثر کا روز مرہ کی زندگی سے تعلق نہ تھا جیسا اردوئے
معلی کے خطوط میں ملتا ہے۔۔اگر چہ میر امن کی باغ و بہار
اور اس جیسی چند کتب دکی کی معاشرتی زیندگی اور روز مرہ بول چال کی خصوصیت رکی حامل
تھیں مگران میں عام زندگی کی سی بے تکلفی اور ظرافت نہیں تھی۔
اردو
میں مرزاغالب کے خطوط کی ادبی اہمیت اس لیے بھی
ہے کہ ان سے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔نثر ایک ایسی ادبی چاشنی سے ہمکنار ہوتی
ہے جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی۔اردو کے لیے یہ ایک نئی فضاتھی۔جس کا ابتدا کار
مرزاغالب تھا۔بعد میں آنے والوں نے غالب کی پیروی کی اور اردوزبان
کووسعت اور شہرت سے ہم کنار کردیا۔ان پیش رو مصنفین میں بلاشبہ غالب کے
معتقد اور ان کے احباب کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔جن میں سرسیداحمدخاں اور الطاف
حسین حالی شامل ہیں۔اگر مرزاغالب نے اردو میں
سہل نگاری کی داغ بیل نہ ڈالی ہوتی تو آج اردو زبان کی صورت مختلف ہوتی اور اسے
وہ پزیرائی اور مقبولیت بھی حاصل نہ ہوتی جو اس کے حصے میں آئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ شاعری کا میدان ہو کہ نثر نگاری کی بات ہو۔غالب
کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے غالب نے اپنی کتاب
اردوئے معلی کے خطوط میں اپنے خطوں میں مشکل الفاظ ترک کرکے آسان
الفاظ میں مدعا بیان کیا ہے۔اگر چہ غالب کےابتدائی دور کی تحریروں میں مشکل پسندی
کا رجحان پایا جاتا ہے۔ان کے اشعار بھی نامانوس الفاظ کے باعث جدید ادب کے قاری کے
لیے چیستان بن گئے ہیں لیکن آخری عمر میں اہنوں نے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ سہل
گوئی آنے والے ادوار میں دوام کا باعث ہوگی ۔چنانچہ ان کی آخری دور کی شاعری اور
نثر میں وہ بہائو اور روانی ہے کہ لمحہ موجود کی زباں معلوم ہوتی ہے۔
مرزاغالب سے پہلے مراسلات
میں طویل القاب و آداب کا رواج تھا ۔اسی طرح عبارت میں سیدھے سبھائو مدعا بیان
کرنے کی بجائے تمہید باندھنے میں صفحات کے صفحات لکھ دیے جاتے تھے۔
غالب نے مختصر،سادہ اور بے تکلف القابات کو رواج دیا۔ اردوئے معلی میں
ایسی بے شمار مثالیں مو جود ہیں۔
طنزومزاح مرزاغالب کی
گویا فطرت میں شامل تھا۔ اردوئے معلی ادبی تاریخ میں ناس لیے بھی اہم ہے کہ غالب
نے اپنے خطوں میں بات سے بات نکالی ہے۔ان کا مزاحیہ انداز خط پڑھنے والے کے لبوں
پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔
غالب سے پہلے اردو نثر کا
مطالعہ ایک تھکا دینے والا کام تھا۔ ان کی مکتوبات کی کتاب اردوئے
معلی پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی دل چسپ قصہ کہانی پڑھ رہے
ہوں۔مرزا غلاب کے جتنے خطوط کے مجموعے منظر عام پر آئے ان میں اردوئے معلی کو
منفرد اسلوب ہی کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے۔
اردوئے معلی کی تاریخی اہمیت
خطوط غالب کی ادبی اہمیت کے ساتھ ساتھ
ان کی تاریخی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔دلی اجڑنے کے مناظر اور امرا سے عام
آدمی تک کی بدحالی کا بیاں ان کے کی کتاب اردوئے معلی میں ملتا
ہے۔یوں یہ خطوط ادبی اثاثہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کے بھی
حامل ہیں۔غالب کےخطوط کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ کوئی ایسی تاریخ
نہیں جو کسی بادشاہ کے دربار میں بیٹھ کر لکھی گئی ہو یا آزادی کے بعد حقائق جمع
کیے گئے ہوں ۔وہ جو کچھ دیکھتے تھے اور اپنے اردگرد جو حالات پاتے تھے خط کی صورت
اپنے دوستوں کو اس سے مطلع کردیتے تھے۔ اردوئے معلی کے خطوط کی اکثریت ان کے
شاگردوں اور دوستوں کے نام ہے جن سے وہ کھل کے دل کی بات کہہ سکتے تھے
افواج کی کاروائیوں کی وجہ سے دلی شہر
کسی کھنڈر میں تبدیل ہوچکاتھا۔مارشل لا لگا ہوا تھا اور لوگ دہشت کے مارے گھر سے
باہر قدم نہیں نکالتے تھے۔ غالب بھی دلی میں مقیم تھے اور ان کی حالت بھی دوسروں
سے جدا نہ تھی۔ان کے خوں کے مجموعے اردوئے معلی میں شامل ایک خط میں
مرزاغالب اس امر کو یوں بیان کرتے ہیں
دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔سوار ہو
کر کہں جانا تو بڑی بات ہے۔گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔مجرم سیاست پاتے ہیں۔جرنیلی
بندوبت یازدہم مئی سے آج شنبہ پیجم تک بدستور ہے۔
دہلی میں فسادات میں اضافہ
ہوا تو عوام پر مزید سختی کردی گئی۔آنے جانے والوں کو سخت سزا دینے کے علاوہ کئی
لوگوں کے مکانات گرانے کے احکامات بھی جاری ہوئے اور دہلی میں بغیر اجازت مکانات
کی تعمیر کی بھی اجازت نہیں تھی۔وہ
اردوئے معلی میں ایک خط میں بتاتے ہیں
کہٹڑے دیبہ کادروازہ ڈھایا گیا،کشمیری
کٹڑے کی مسجد زمیں کا پیوند ہوگئی،سڑک کی وسعت دوچند ہوگئی۔
غالب اردوئے
معلی کتاب میں اپنے شاگرد مہدی حسین مجروح کو ایک خط میں کہتے
ہیں۔۔
یہ حکم نکلا کہ لوگ شہر کے باہر مکان
وکان کیوں بناتے ہین۔جو مکان بن چکے ان کو گرا واور آئندہ مکان بنانے کی ممانعت
کا سنا دو۔
دلی جامع مسجد کاقبضہ
جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے دہلی کی
مسجد میں آمد پر پابندی عائد کردی تھی تاکہ غدر کا سلسلہ روکا جاسکے۔
کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ مسجد واگزار کرا لی گئی ہے ۔ مرزاغالب
اردوئے معلی میں کہتے ہیں۔۔
جامع مسجد کے واگزار ہونے کی خبر مشہور
ہے،سچ ہو تو کیا دور ہے۔
ایک خط میں وہ اپنے دوست اور کرم فرما
نواب مصطفے خان کی رہائی کی بابت یوں بتاتے ہیں
نوان مصطفے خاں جو بہ میعاد سات برس قید
تھے۔ان کی تقصیر معاف ہوئی ہے ااور رہائی ملی ہے،جہاں گیر آباد کی زمین داری اور
دلی کی املاک اور پنشن کے باب مہں ہنوز حکم نہیں ہوا۔
اگر سچ کہا جائے تو
مرزاغالب کےخطوط کا مجموعہ گویا ان کا روزنامچہ ہے۔جس میں ان کی روز
مرہ زندگی کا عکس تو ملتا ہی ہے۔اس دور کے مسیاسی اور معاشرتی حالات سے بھی آگاہی
ہوتی ہے۔ اردوئے معلی ، اردو میں ادبی اہمیت رکھنے کے ساتھ ساتھ تاریخی
اہمیت کا بھی حامل ہے