Ticker

6/recent/ticker-posts

نظیراکبرآبادی پہلا عوامی شاعر|نظیراکبرآبادی کی نظم نگاری

نظیراکبرآبادی پہلا عوامی شاعر|نظیراکبرآبادی کی  نظم نگاری ۔Nazir Akbar aabadi awami shair
نظیراکبرآبادی پہلا عوامی شاعر 


نظیراکبرآبادی (Nazir Akbar Abadi)کو اردو نظم پہلا عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔اگرچہ ان سے قبل دکن میں قلی قطب شاہ کے زمانے میں اردو نظم نگاری کے شواہد ملتے ہیں۔مگر ان نظموں میں صرف ناصحانہ انداز ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی نظم میں پہلی بار اسے عوامی روزوشب سے آشنا کیا۔ڈاکٹر انورسدید اپنی کتاب اردوکی تحریکیں میں لکھتے ہیں

نظیر کی عطا یہ ہے کہ اس نے عوامی زبان کو عوام میں پھیلایا اور اس کا دائرہ اثر وسیع کیا۔

عوامی شاعر نظیراکبرآبادی کی شعری خصوصیات جاننے اور مقام و مرتبہ کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ نظیر اکبر آبادی کے دور اور اس وقت کے حالات پرنظر کی جائے۔

نظیراکبرآبادی کا بچپن اور حالات زندگی

آپ کا اصل نام شیخ ولی محمد تھا۔ اٹھارھویں صدی کے وسط میں آگرہ جنم لیا۔ عمر بھر شعبہ تعلیم سے منسلک رہے۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ آگرہ میں گزرا۔یہ وہ وقت تھا جب نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی عسکری سرگرمیاں زوروں پر تھیں ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اپنے پنجے پوری طرح ہندوستان میں گاڑ چکی تھیں۔اس عوامی شاعر نے کئی سازشیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔جب احمد شاہ ابدالی کے حملے عروج پر رھے تب نظیراکبرآبادی کے گھر والے نقل مکانی کرکے دلی سے آگرہ چلےآئے ۔یہ وہ شہر تھا جو دلی کے بعد مرکزی حیثیت کا حامل تھا کئی مغل بادشاہوں نے تواسے داراسلطنت بنایا لیکن زوال کے دورمیں بربادی کے حوالے سےیہ تایخی شہر دلی سے پیچھے نہ رہا۔جاٹوں نے اس شہر کو خوب لوٹا۔اگر چہ نظیراکبر آبادی کی نظم نگاری میں زندہ دلی کا عنصر نمایاں ہے مگر ہندوستان میں قتل اور غارت گری کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔موت اور ناامیدی کا عنصر بھی کہیں کہیں درآتا ہے ۔

نظیراکبرآبادی بطور عوامی شاعر

عوامی موضوعات

نظیر اکبر آبادی نے اپنی شاعری کے لیے عوامی موضوعات کا انتخاب کیا۔اس وقت اگر چہ غزل کا سکہ چل رہا تھا کہ اس میں وہی صدیوں پرانے اورگھسے پٹے مضامین باندھے جارہے تھے۔نظیر اکبر آبادی نے نہ صرف الگ پیرائیہ اظہار کا انتخاب کیا بل کہ ایسے موضوعات بھی انتخاب کیے جو تروتازہ،عوامی دلچسپی کے حامل اور جیتی جاگتی زندگی کا حصہ تھے۔لہذا عوام کا ان کی شاعری کی طرف راغب ہوجانا اور نظیر اکبر آبادی کا عوامی حلقوں کے دل میں گھر کرکے عوامی شاعر قرار پانا قدرتی بات تھی۔اردو کے معروف نقاد ڈاکٹررام بابو سکسینہ ان کے اچھوتے عنوانات پر بات کرتے ہوئے اپنی کتاب تاریخ ادب اردو میں لکھتے ہیں۔

نظیر کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ معمولی چیزوں کے بیان میں ایسی دل چسپی پیدا کردیتا ہے جو دوسروں کے اعلی مضامیں میں نہیں پائی جاتی۔

وہ آگے چل کر مزید کہتے ہیں کہ

جب غزل کی یک رنگی اور قصیدہ کی لفاظی سے جی اکتاجائے تب ایسے مضامین بہت پسند آتے ہیں۔

نظیراکبر آبادی نے اس وقت نظم  لکھی جب غزل معراج سخن کا معیار بن چکا تھا۔ان کے تمام ہم عصر  غزل کہہ رہے تھے۔نظم نگاری کو کوئی مقام و مرتبہ حاصل نہیں تھا چناں چہ نہ صرف ان کے دور میں ان کا مذاق اڑایا گیا بل کہ اس کے بعد ایک عرصہ تک نقاد اور ادب کے تذکرہ نگار انہیں شاعر ہی نہ مانتے رہے۔البتہ عوامی حلقوں میں سن کو بہت پذیرائی ملی۔احتشام حسین رقم طراز ہیں کہ

نظیراکبرآبادی نے عوامی جذبات کی ترجمانی کی اور عوام نے ہی انہیں زندہ رکھا۔

یہ سچ ہے کہ  آنے والے ادواور نے انہیں ان کو اردو نظم کا امام قرار دیا اور انہیں بلند مقام و مرتبہ سے نوازا۔

نظیراکبرآبادی کی شہرہ آفاق نظمیں برسات کی بہاریں،آدمی نامہ وغیرہ ایسے ہی موضوعات پر مبنی ہیں جن سامنا عام آدمی کو آئے روز ہوتا ہے۔یہی عوامی نظم نگاری آگے چل کر جدید نظم کی بنیاد بنی۔آج کی نظم کم و بیش انہیں خوبیوں کی حامل ہے  جو نظیراکبرآبادی کی نظم نگاری کا طرہ امتیاز ہیں۔

عوامی زبان کا استعال

قدیم اردو غزل اپنے مخصوص موضوعات کے ساتھ ساتھ گنی چنی تراکیب اور الفاظ کی قدید میں رہی ہے۔اسے شعرا غزل کی ٹکسالی زباں کہتے تھے اور تغزل کے لیے بنیادی ضرورت قرار دیتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ گنے چنے موضوعات اور مخصوص زباں نے غزل کو خاص نقصان پہنچایا ہے۔اردو غزل کم و بیش ایک ڈیڑھ صدی بعد اس قید سے آزاد ہوئی مگر اردو نظم نگاری کو نظیر اکبر آبادی نے پہلے ہی دن سے عام بول چال کی خوبیوں سے مالامال کردیا تھا۔اس عوامی شاعر نظم نگاری کے لیے ہندوستانی معاشرے کے ان الفاظ کو چنا جو روزمرہ بول چال کا حصہ تھے۔معروف ناقد رام بابو سکسینہ اپنی کتاب تاریخ ادب اردو میں ان کے بارے میں یوں لکھتے ہیں

موجودہ دور کی فطری اورقومی شاعری جس کی ابتدا مولانا آزاد اور حالی سے کہی جاتی ہے اس کے پیش رو نظیراکبرآبادی تھے۔

عوامی موضوعات کا انتخاب

نظیراکبرآبادی وہ پہلے اردو کے عوامی شاعر ہیں جنہوں نے نہ اپنی شاعری میں نہ صرف عام بول چال کے الفاظ استعمال کیے بلکہ معاشرے کی عام باتوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ان کے ہاںمیلوں ٹھیلوں کا بیان،برسات کے دنوں میں عام آدمی کی مشکلات،چھتوں کاٹپکنا،ہولی اوردیگر تہواروں کو اپنی نظم نگاری کا موضوع بنایا ہے۔یہ تمام امور عام آدمی کے لیے غزل کی فرسودہ  فضا کے مقابلے میں زیادہ پرکشش تھے۔

نظیر اکبر آبادی کی نظموں کا فنی جائزہ

اگرچہ نظیر کی شاعری عوامی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے مگر ان کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فکری و فنی حوالے سے اپنے ہم عصر شعراء سے کسی طور کم نہیں تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ عوامی نبض شناس بھی تھے انہوں نے نظم نگاری کے لیے نظم کو جو ئیت انتخاب کی اور جو بحور چنیں وہ عام قاری کے مزاج کے مطابق اور ازبر ہوجانے والی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام گلی گلی پڑھاسناجاتاتھا۔بعض مقامات پر وہ وزن پورا کے کے لیے اضافی الفاظ بھی استعمال کرلیتے ہیں مگر اس فن کاری کے ساتھ کہ پڑھنے والے کو گماں بھی نہیں گزرتا کہ یہ لفظ بھرتی کے ہیں ۔مثال کے طور پر ان کی نظم تسلیم و رضا کا آخری بند ۔۔

ان کے تو جہاں عجب عالم ہیں نظیر عجب آہ

یہاں چھ مصرعوں میں آہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو محض وزن پوراکرنے

ے لیے ہے۔فنی حوالے سے نظیراکبرآبادی کی نظموں میں مسدس اور مخمس کے پیمانے ان کی پسندیدہ ہئیت قرارپاتے ہیں۔

نظیراکبرآبادی کی نظموں میں پندونصائح

ان کی نظم نگاری کی ایک اہم خوبی مقصدیت ہے ۔انہوں نے اپنی عوامی شاعری میں کھلنڈرے انداز میں بات کرتے ہوئے ہمیشہ مقصدیت کو اولیت دی ہے۔ان کی نظم تسلیم و رضا،آدمی نامہ،بنجارہ نامہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔جن میں زندگی کی  حقیقت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ انسان کو محبت،انسانیت اور اخلاقیات پر مبنی رویے اپنانے چاہیں۔انہوں نے بتا ہے کہ اصل انسان وہی ہیں جو صرف خدا کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔ان کی نظم بنجارہ نامہ دنیاکی عارضی اور ناپائیدار زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسان پر یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ اچھے اعمال ہی آدمی کا توشہ ان کا کلام ایسے درخت کی مثال ہے جس کی جڑیں  زمیں میں پیوستہ ہیں۔اسے نہ تو وقت کی آندھی ہلا سکی اور نہ ہی مختلف ادوار مین ناقدین ادب کی آراء ان کی نظم نگاری کی اہمیت ماند کر سکیں۔بل کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے فکروفن کی اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا۔دور جدید میں نظیراکبرآبادی کو ان کے نظم نگاری کی وجہ سے عوامی شاعر اور اردو کاپہلا نظم گو شاعر کا مرتبہ حاصل ہے۔