molana muhammad hussain aazad ki kitab aab e hayat ki adbi ahmiat likhain |
Molana muhammad hussain aazad Ki kitab Aab e Hayat ki adbi ahmiat
مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب آب حیات کی تاریخی و ادبی اہمیت
درج ذیل ہے۔
آب حیات مولانا محمد حسین آزاد Molana muhammad hussain
aazad کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔یہی کتاب ان کے حقیقی
اندازتحریر کا حوالہ بھی ہے۔گرچہ آب حیات کی تاریخی اور ادبی اہمیت سے
انکار ممکن نہیں بل کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ تنقیدی اور تحقیقی خوبیوں کی بھی حامل
ہے۔اس سے پہلے بھی شاعروں کے تذکرے اور ادبی تایخ کی کتابیں تحریر کی جاتی رہی ہیں
لیکن تذکرہ میں مرقع نگاری اور قصہ گوئی جیسے انداز بیاں کے موجد صرف مولانا
محمد حسین آزاد ہی ہیں۔اسی لیے اردو کے معروف محقق اورمولانا آزاد کے دوٹوک
تنقید نگارحافظ محمود شیرانی لکھتے ہیں
یہ اگر چہ تاریخ ہے مگر اس کاڈھنگ افسانے کاسا ہے یہ اگر چہ نثر ہے
مگر اس کا لطف نظم کاسا ہے۔
آب حیات کی ادبی اہمیت(Aab e Hayat Ki Adbi ahmiat
یہ کتاب اپنے انداز تحریر کی وجہ سے وجہ ایسا تذکرہ ہے کہ جس میں
افسانوی رنگ پایا جاتا ہے۔اردو کے مشہور نقاد اور محقق ڈاکٹر رام بابو سکسینہ اپنی
کتاب تایخ ادب اردو میں لکھتے ہیں۔۔
اس کی اصل خوبی اسکا بے مثال طرزعبارت ہے۔جس کی نقل کرنے کی کوشش سب
کرتے آئے ہیں
گویا مولانا محمد حسین آزاد نے آب حیات Aab e Hayat لکھ کر اردو میں
ایک نئی طرز کا اضافہ کیا ہے۔یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں بیک وقت تذکرہ،تاریخ اور
افسانہ یا داستاں کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
نثر میں شاعری کا انداز
آب حیات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ کتاب قدیم لکھنوی انداز تحریر
کی یاد دلاتی ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد اپنی عبارت کو دلکش اور مترنم بننے کے
لیے فقرات میں قافیہ اور ردیف کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اں کی نثر میں شاعری
جیسا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔اور اس کی ادبی اہمیت کا ایک نیا پہلو پیدا ہوجاتا
ہے۔اردو کے نقاد رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں
آزاد نثر میں شاعری کرتے اورشاعری میں نثر لکھتے ہیں۔
مولانا محمد حسین آزاد ) (Molana muhammad hussain
aazad کی ہر تحریر ان کی اسی عبارت آرائی کی مثال ہے۔تاہم ان کی آب
حیات میں اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
مرقع نگاری
آب حیات کی ادبی خصوصیات میں سے ایک مولانا محمد حسین
آزاد کی منظرنگاری ہے۔وہ کسی واقعہ کی تصویراپنے الفاظ میں ایسے عمدہ انداز
سے کھینچتے ہیں کہ پڑھنے والےکووہ نظارہ اپنی آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتاہے۔انہوں
نے اپنی کتاب آب حیات میں شعراء کے مشاعرہ میں آنے کے انداز کوں یوں بیان کیا یے
شاعروں کے شعر سنانے اور ان کے چلنے پھرنے کے انداز کو یوں تحریر کیا ہے کہ وہ
ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتے ہیں۔وہ تذکرہ نگار اور تاریخ نگار ہونے کے
ساتھ ساتھ ایک اچھے کہانی کار بھی ہیں۔یہ تمام چیزیں ان کی تحریرمیں ساتھ ساتھ
چلتی ہیں۔یہ ان کی کتاب آب حیات کی ادبی اہمیت کا ایک پہلو ہے کہ انہوں نے پرانے
دور کے ادیبوں شاعروں کو زندہ جاوید کردیاہے نئے دور کے پڑھنے والے۔ بھی میرتقی
میراور مرزاغالب کو ان کی کتاب میں چلتا پھرتادیکھ سکتے ہیں۔
آب حیات کا تخیلی پہلو
مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب آب حیات پر جدید دور میں بہت
تنقید کی گئی ہے۔ان کے بیان کیے گئے واقعات اور نظریات کو جھوٹا اور من گھڑت بتایا
گیاہے۔اس کے باوجود اس کتاب کا انداز بیاں ایسا دل نشیں ہے اور آزاد نے شعراکے
خاکے ایسے تیا کیے ہیں کہ ان پر زچ کا گماں ہوتا ہے۔تنقید نگاروں۔ کی باتیں اور
حقائق سچ مان لینے کے باوجود مولانا محمد حسین آزاد کی مرقع نگاری پر
یقین کرنے کو جی چاہتاہے۔اردوکے مشہور ادیب،محقق اور تذکرہ نگار مولانا شبلی
نعمانی کی اس بات سے اتفاق کرنے کو جی چاہتا ہے کہ
آزاد گپیں ہانکتا ہے تو بھی وحی معلوم ہونے لگتی ہے۔
آب حیات کی تاریخی اہمیت
اردو کی اس معروف کتاب کی قدروقیمت وقت کے ساتھ کم نہیں ہوئی اور نہ
ہی اس کی تحریر پر ہونے والی تنقید نے اس کا اثر کم کیا ہے۔اب کا یہ شاہکار 1880کو
منظر عام پرآیا۔یہ وہ وقت تھا جب ادبی اور تہذیبی سطح پر انقلاب کی ابتدا ہوچکی
تھی۔اردو ادب پر انگریزی لٹریچر کی چھاپ گہری ہو رہی تھی اور اس تبدیلی کے بڑے رہ
نما سرسید اور ان کے دوست احباب تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب آب حیات کے مصنف مولانا
محمد حسین آزاد دہلی سے نقل مکانی کرکے لاہور آچکے تھے۔انجمن پنجاب کی بنیاد
پڑ چکی تھی اور مولانا آزاد اور الطاف حسین حالی اس تنظیم کے تحت مشاعرے کررہے
تھے۔یہ دو تہذیبو ں کے سنگم کا زمانہ تھا۔ جب مغلیہ بادشاہت ختم ہوگئی تھی اور
انگریزی تہذیب کے روشنی پھیل رہی تھی۔اس نئی تہذیب نے جہاں ہندوستانیوں کی روزمرہ
زندگی پر گہرے اثرات ڈالے وہیں علوم و فنون کو بھی نئی راہ ملی۔ادبی سطح پر تذکرہ
نگاری کی روایت دم توڑ رہی تھی اور اس کی جگہ ادبی تاریخ لے رہی تھی۔آب حیات کو
اگرچہ مکمل طور پر ادبی تاریخ نہیں کہا جاسکتا لیکن آب حیات کی
تاریخی سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔اس میں شعری تاریخ کی خوبیاں بھی موجود
تھیں۔اسی لیے ڈاکٹراحسن فاروقی نے لکھا تھا کہ۔۔۔
آب حیات میں کچھ ایسی باتیں ضرور ہیں جوعام تذکروں میں نہیں ملتیں
اور تاریخوں ہی کا طرہ امتیاز ہیں۔
اس کتاب میں جن شاعروں کا ذکر ہے ان کا لباس چال ڈھال،مشاعرہ گاہوں
کی مرقع نگاری اور شاعروں کے حالات زندگی تمام ایسی چیزیں ہیں جن سے ماضی کے
رسوم و رواج وقت کے تقاضوں،رجحانات کا پتہ چلتاہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس دور کی زبان
اور اسلوب کی باتیں ہیں۔گویا آب حیات بدلتی روایات کا آئینہ ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب آب حیات کو لکھے ہوئے ایک صدی
سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔اس کتاب پر تنقیدی آراء کے باوجود آب حیات کی تاریخی اور
ادبی اہمیت کم نہیں ہوسکی ہے۔آج بھی اس کتاب کو ادب کے پڑھنے والے اسی شوق سے
پڑھتے ہیں۔یہ کتاب اردو کے اعلی درجے کے امتحانات کے سلیبس میں بھی شامل ہے۔جب تک
اردو زبان زندہ رہے گی تب تک مولانا محمد حسین آزاد کی آب حیات بھی
پڑھی جاتی رہے گی
Molana muhammad hussain aazad urdu k maroof adeeb hain.kitab Aab e
Hayat apni Tareekhi Aur Aadbhi ehmeat ki waja se aj bhi urdu adab main
khas muqam rakhti hai.Molana Muhammd Hussain Azad ki ibarat apny khas adbi
andaz ki waja sa pechani jati hai. Aab e Hayat Kitab Main Azad ne Purae Shairon
ko nai zindgi di hai. Molana muhammad hussain aazad ny un ki apni ktab mein alfaz ki
madad se shairon ki chalti phirti tasveerain bna di hain.