|Khwaja Mir Dard Ki Ghazalخواجہ میر درد کی غزل تصوف اور تغزل کا بہتریں امتزاج |
خواجہ میر درد کی غزل
میر درد کی غزل تصوف اور تغزل کا بہترین امتزاج ہے۔
خواجہ میر درد ایک صوفی شاعر ہی نہیں بلکہ ان کی شاعری میں
عشقیہ رنگ بھی پایا جاتا ہے۔اردو ادب کے نقادوں نے ان کے صوفیانہ اسلوب کا اس قدر
ذکر کیا ہے کہ ان کی شاعری کا یہ خوب صورت پہلو دب کر رہ گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان
کی شاعری تصوف اور عشق مجازی کا ایک خوب صورت امتزاج ہے۔انہوں نے غزل میں تصوف کا
رنگ اس طرح بھر دیا ہے کہ اس سے غزل کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ان کے دور میں جس سوقیانہ
شاعری کا رواج تھا اور جس طرح اخلاق سے گرے ہوئے موضوعات شعرو غزل میں شامل ہورہےتھے۔انہوں
نے اپنے خاص رنگ کا استعمال کرتے ہوئے غزل کا دامن داغدار ہونے سے بچانے کے لیے خاص
کردار ادا کیا۔اگر درد کے دیوان کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے
کہ ان کی شاعری میں عشق مجازی پوری آب و تاب سے جلوہ فرما ہے۔ان کے کلام کا ایک
بڑا حصہ تصوف کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں۔
درد کی عشقیہ شاعری کو صرف معرفت کی علامت اور تمثیل ہی
نہہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اس میں دنیاوی رنگ بہت نمایاں نظر آتا ہے۔
یہ درست ہے کہ تصوف نے ان کی عشقیہ شاعری میں بھی ایک سنجیدہ
رنگ پیدا کیا ہے۔ان کے کلام میں دنیاوی محبوب کا رنگ ماحظہ کریں
آنسو جو میرے انہوں نے پونچھے کل
دیکھ رقیب جل گیاتھا
ان کے کے اکثر اشعار پڑھ کر یہ یقین ہوجاتا ہے کہ ان کا
محبوب گوشت پوست کا چلتا پھرتا انساں ہے۔گویا وہ صوفی تو تھے لیکن ان کا دل لطیف
جذبات سے خالی نہیں تھا۔
محبوبوں کی خوش اسلوبیاں
والی غزل کے اشعار اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ حسن کے
معاملات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ان کے کلام میں محبوب کے روایتی ناز و نخرہ کے
ساتھ ساتھ ساتھ اردو غزل کے وہ روایتی مضامیں بھی پائے جاتے ہیں جو مجازی شاعری کا
طرہ امتیاز چلے آتے ہیں۔ پر ان کے ہاں اردو غزل کے دیگر شعرا کی طرح دل کا کھو
جانا،محبوب کے پاس رہ جانا ،اورمحبوب سے کہنا کہ میرا دل تجھے میرے جانے کے بعد
میری یاد دلایا کرے گا سب کچھ راویتی ہے۔
اردو غزل میں محبوب کی آنکھوں کا تذکرہ شعرا کا دل پسند
موضوع رہا ہے۔محبوب کی آنکھوں کو میخانہ کہنا،آنکھوں آنکھوں میں دل کا مدعا
کہنا،ترچھی نظروں سے محبوب کا عشق کو گھائل کر دینا ،مجازی عشق سے مزین غزلیات میں
ہر شاعر نے اپنے اپنے ڈھنگ سے استعمال کیا ہے۔یہ تمام موضوعات خواجہ میر درد کے
کلام میں بھی دیکھنے کو ملتے ہہیں
ترچھی نظروں سے دیکھنا یہ
بھی اک بانکپن کا بانا ہے
درد کے درج بالا شعر کو کسی طور بھی عشق مجازی کی ذیل میں
نہیں رکھا جاسکتا۔
میردرد کا تصورمحبوب
میر دردکا تعلق ایک
علمی خاندان سے تعلق تھا اس لیے ایک خاص وضع داری ان کی طبیعت کا حصہ تھی۔یہی وجہ
ہے کہ ان کی شاعری میں مجازی محبوب بھی خاص وضع کا حامل ہے۔ان کے ہاں عشق میں سطحیت
کی بجائے خاص رکھ رکھائو اوت تہذیب کا احساس ہوتا ہے۔ان کا محبوب بازاری نہیں ہے
بل کہ وہ شرم و حیا کی خوبیوں سے متصف ہے۔ان کے ہاں عاشق اور معشوق سلیقہ مند اور
باہمی تعلق میں توازن برقرار رکھنے کے قائل ہیں۔وہ راہ عشق میں ضبط نفس کے حق میں
ہیں تا کہ ان کے معشوق کے کردار پر آنچ نہ آئے۔یہی ایک عاشق صادق کی دلی خواہش
بھی ہوتی ہے۔
ہر چند نہیں صبر تجھے درد لیکن اتنا بھی نہ مل کہ وہ بدنام کہیں ہو
میر درد کے کلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے بارے
میں پائی جانے والی یہ رائے صداقت نہیں رکھتی کہ ان کے ہاں صرف تصوف اور عشق حقیقی
ہی پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاں یہ رنگ غالب ہونے کے باوجود کلام درد میں روایتی غزل
کی چاشنی سے انکار ممکن نہیں ہے۔