Ticker

6/recent/ticker-posts

Ghulam Hamdani Mushafi ki Shairy|غلام ہمدانی مصحفی کی شاعری

غلام ہمدانی مصحفی کی شاعری کا انفرادی رنگ۔ghulam hamdani mushafi

غلام ہمدانی مصحفی کی شاعری کا انفارادی رنگ۔مصحفی حواس خمسہ کا شاعر

غلام ہمدانی مصحفی کی شاعری کا انفرادی رنگ

فراق گورکھ پوری کے مطابق مصحفی حواس خمسہ کا شاعر ہے

مولانا محمد حسین آزاد نے  غلام ہمدانی مصحفی کے بارے میں کہا تھا کہ ان کا کوئی اپنا شاعرانہ رنگ نہیں ہے۔وہ میرو سودا اور دیگر بڑے شعرا کے رنگ میں لکھتے ہیں۔ایک عرصہ تک اردو کے قارئین اور ناقدین اسی رائے کے قائل رہے لیکن وقت نے بتا یا کہ مولانا محمد حسین آزاد کی دیگر آرا کی طرح یہ نکتہ نظر بھی غلط ثابت ہوا اور ایک وقت آیا کہ ناقدین  یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ غلام ہمدانی مصحفی کا اپنا اسلوب ہےاور وہ کسی بھی بڑے شاعر سے کم نہیں ہیں۔اس سلسلہ میں سب سے اہم تحریر اردو ادب کے معروف شاعر اور نقاد فراق گورکھ پوری کی ہے ۔انہوں نے مصھفی کو میر تقی میر کے بعد اہم شاعر قرار دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں

’’مصحفی کے اشعار میں ایک مانوس اور معصوم حسرت اور درد ملتا ہے۔چوں کہ میر کی جذباتی اور نفسیاتی انایت مصحفی میں نہیں ہے اس لیے مصحفی کے ہاں ایک رکی رکی سی معصوم حیرت ،ایک دبی بے چارگی کی مسکراہٹ اوپر کے دانتوں تلے ہونٹ دبانے کی ادا ملتی ہے۔‘‘

مصحفی کی شاعری میں رنگ وصورت اور نکھار کے ذکر کی وجہ سے فراق گورکھ پوری   نے ان کی شاعری کو تصویر خانہ قرار دیا ہے۔اگر چہ ان کے ہاں غم و اندوہ کا بیا ن ہے مگر  یہ غم میر تقی میر جیسا گھمیر نہیں ہے اور نہ ہی مصحفی یاسیت کی حد تک جاتے ہیں۔ان کے ہاں در د کی ایک زیریں لہر  تو ہے لیکن وہ وہ خارجیت کے تابع ہے۔وہ جذبات کی شدت کے قائل نہیں ہیں۔یہی چیز ان کے کلام کو میر تقی میر کے رنگ سے جدا کرتی ہے۔اسی طرح ان کی شاعری میں خارجیت انشا اور جرات کی خارجیت سے جداا ہے۔ چوں کہ مصحفی کا دور انشا اور جرات کا زمانہ تھا اور باامر مجبوری ان کو اس دور کے  شعری معرکوں میں شامل ہونا پڑتا تھا لیکن ان کے ہاں پھر بھی اخلاقیات کی پاس داری پائی جاتی ہے۔وہ جرات اور انشا کی طرح جذبات کی رو میں بے مہار نہیں ہوتے۔غلام ہمدانی مصحفی کے کلام میں جابجا محبوب کے ظاہری جمال کا نقشہ کھنچا ہوا ملتا ہے ۔وہ اپنے محبوب کے بھیگے ہوئے جسم کی بات تو کرتے ہیں لیکن  اس میں انشا کی طرح  اخلاقایت کی حد پار نہیں کرتے بلکہ محبوب کے رنگ حنا اور پانی میں ڈوبے ہوئے پائوں کی خوب صورتی کی حد تک رہتے ہیں۔اسی لئے فراق گورکھ پوری نے انہیں حواس خمسہ کا شاعر کہا ہے۔یوں ان کا انداز دوسروں سے جدا ٹھہرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کے سرمست مدح خواں ہیں۔اور  محبوب کی بے وفائی پر آننسو بہانے کی بجائے اس کے حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس کے پیکرجمال کی تصویریں کھنچتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں فضا کھٹن آمیز نہیں ہے۔مصحفی کی شاعری میں نہ تو غم کی ٹیس بلند آہنگ ہے نہ ہی محبوب کی تعریف و توصیف ایک خاص حد سے تجاوز کرتی ہے۔یہی نفاست ان کی اصل فنکاری ہے۔گویا غلام ہمدانی مصحفی اپنی طرز کے جدا شاعر ہیں اور ان کے بارے میں مولانا محمد حسین کا تجزیہ مبنی بر حقائق نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بعد آنے والے بیشتر ناقدین نے  منصفانہ تبات کی ہے۔یوں لگتا ہے کہ آزاد کے بعد آنے والے تنقید نگاروں نے مصحفی کے کلام کا مطالعہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی اور آزاد کی باتوں کوالفاظ بدل کر لکھ دیا ہے۔