Khwaja Mir Dard.Ek Sufi shair|خواجہ میر درد ایک صوفی شاعر |
خواجہ میر درد صوفی شاعر
خواجہ میر درد کی شاعری کی خصوصیات
عظیم شاعر میر درد کو اردو میں صوفیانہ شاعری
کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔آپ دبستان دہلی کے تیں بلند پایہ شاعروں میں سے
مانے جاتے ہیں۔خوجہ میر درد 1720 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق ایک دینی
گھرانے سے تھا۔
میر درد کا شاعری میں صوفیانہ مقام بڑے بڑے شعرا
اور نقادوں نے تسلیم کیا ہے۔میر حسن نے اپنی کتاب تذکرہ الشعرا میں لکھا ہے
’’ان کا دل اسرار خدائی کا مخزن ہے‘‘
قائم نے ’’مخزن النکات‘‘ میں خواجہ میر درد کے
بارے یوں لکھا ہے کہ
’’ان کا دل اسرار الہی کا گنجینہ اور سینہ انوار الہی کا لا متناہی خزینہ ہے۔‘‘
اردو کے خدائے سخن میر تقی میں در د کے بارے یوں
رقم طراز ہیں کہ
وہ اہل عرفاں کے قافلہ کے خضر ہیں۔
خواجہ میردرد ایک صوفی
خواجہ میر درد کی شاعری کی بڑی خوبی ان کا
صوفیانہ رنگ ہے۔اسی خوبی نے انہیں اردو کے دیگر شاعروں سے ممتاز کیا اور انکے کلام
کی پاکیزگی کے باعث انہیں نیک نامی حاصل ہوئی۔میر درد کا گھرانہ شاعروں کا گھرانہ
تھا اور ان کا خان دان صوفیا کا خاندان تھا۔ان کئے والد خواجہ ناصر بھی شاعر تھے
اور عندلیب تخلص کرتے تھے۔ان کے والد اس دور کے اہم صوفیا میں شامل تھے۔ان کی
خانقاہ میں لوگ دور دور سے روحانیات کی پیاس بجھانے آتے تھے۔خواجہ میر درد نے بھی
اپنی عمر خانقاہی نظام میں ہی بسر کی۔یہی وجہ ہے کہ اس دور کے دیگر شعرا سے الگ ان
کے کلام کا اپنا ہی رنگ ڈھنگ ہے۔میر درد نے تصوف کو دکھاوے کے طور پر نہیں اپنایا
بل کہ اپنی رندگی پر لاگو بھی کیا۔وہ باعمل صوفی تھے۔ان کے کلام میں خدا کی قدرتوں
کے اظہار،زندگی کی بے ثباتی،آخرت کی فکر اور زندگی اور موت کا فلسفہ پایا جاتا
ہے۔وہ انسان سے محبت کا درس دیتے ہیں۔اور بتاتے ہیں کہ اگر انسان کی پاس دیکھنے
والی آنکھ ہو تو خدا ہر جگہ جلوہ گر نظر ٓتا ہےجدھردیکھتے
خواجہ میر درد باعمل اور رجائیت پسند صوفی
خواجہ میر درد نے صوفییانہ رنگ کو شاعری تک
محدود نہیں رکھا بل کہ اسے اپنی عملی زندگی پر بھی لاگو کیا۔یوں کہاں جا سکتا ہے
کہ درد صوفی پہلے تھے اور شاعر بعد میں اور ان کی شاعر کا رنگ اصل میں ان کی ذات
کا عکس ہے۔خواجہ میر درد ٖصوفی ہونے کے باوجود مردم بیزار اور زندگی سے اکتائے
ہوئے نہیں تھے۔ان کا رنگ زندگی سے منہ موڑنا نہیں سکھاتا بل کہ انسان کو عملی
زندگی سے جڑنے اور فرائض کی ادائیگی کی ترغیب دیتا ہے۔
میر درد کی شاعری میں عشق
اردو شاعری میں دوعظیم شعرا ایسے مل جائیں گے جن
کا کلام پڑھتے ہوئے اگر عشق کی بات آئے تو پڑھنے والااسے سے عشق الہی مراد لیتا
ہے۔ان میں سے ایک میر درد ہیں اور دوسرے علامہ اقبال ہیں۔خواجہ میر درد ایک خدا سےلو
لگانے کا درس دیتے ہیں اور اسی کے عشق میں دکھ سہنے انسانی حیات کا اصلمقصد قرار
دیتے ہیں۔
درد کی شاعری میں تجسس کا رنگ
ہر بڑا فلاسفر زندگی کو اپنے ڈھنگ سے دیکھتا ہے
اور کائنات کے مظاہر پر نظر کرتے ہوئے قدرت کے اسرار رو رموزسمجھنے کی کوشش کرتا
ہے۔یہی اسے اس کے اصل تخلیق کار کی طرف لے جاتا ہے۔خواجہ میر کی شاعری میں مظاہر
قدرت کے حقائق جاننے اور موت حیات کا فلسفہ سمجھنے کی کاوش قدم قدم پر نظر آتی
ہے۔وہ حیران ہوتے ہیں کہ انسان کہاں سے آتا ہے اور پھر کہاں چلا جاتا ہے۔
خواجہ میر درد صوفیا کے اس سلسلے سے تعلق رکھتے
ہیں جن کا اس امر پر یقین ہے کہ دنیا میں ہر طرف خدا ہی کی ذات جلوہ گر ہے۔درد کے
ہاں مختلف اشعار میں بار بار اسی امر کا تذکرہ ملتا ہے اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی
یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں انسان کی بگڑی بنانے والی ذات صرف خدا کی ہے ۔اگر وہ طاقت
نہ دے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔وہ کہتے ہیں کی خدا ہماری آنکھوں کی روشنی کی طرح
ہے وہ راستہ دکھاتا ہے تو ہم آگے بڑھتے ہیں۔