میر تقی میر کی غزل میں غم.Mir Taqi Mir Ka Gham. |
Mir Taqi Mir Ki Ghazal Mein Gham
میر تقی میر کی غزل گوئی میں غم
اردو کے نام ور شاعر میر تقی میرPoet Mir Taqi Mir کو خدائے سخن بھی کہا جاتا
ہے۔وہ نہ صرف اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے بلکہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کی
مقبولیت کا وہی عالم ہے۔آج بھی سخنور میر کی برتری ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں جیسے
دہائیوں پپہلے۔بل کہ ان کی پیروی پر فخر کا اظہار کرتے ہیں ۔مولوی عبد الحق نے سچ
ہی کہا تھا کہ
’’ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا فارسی
میں‘‘
اگر دنیا کے بڑے سخن وروں کا تذکرہ لکھا جائے تو میر
تقی میر کے ذکر کے بغیر ادھورا کہلائے گا۔ان سے بعد میں آنے والے اساتذہ نے اشعار
میں بھی ان کی فنی دست گاہ تسلیم کی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ میرتقی میر کے
کلام میں وہ کون سی خوبی ہے جو انہیں بقائے دوام بخشنے کا باعث ہوئی ہے۔
ان کی شاعری میں غم کی لہر وہ خوبی ہے جس کو ان کی
شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت کہا جاسکتا ہے۔انسان کی زندگی میں دواحساسات بنیادی
حیثیت رکھتے ہیں ۔ایک غم اور دوسرا خوشی۔یہ دونوں جذبے ہی شعری کا بنیادی موضوع
بھی ہیں۔ بعض شعرا مزاح کا رنگ اختیا کرتے ہیں اور بعض غم و اندوہ کو اپنی شاعری
کا مرکز و محور بنا لیتے ہیں۔قدیم فلاسفروں اور دانش وروں کا کہنا ہے کہ ایسا ادب
جس میں غم کی کیفیت پائی جائے گہرا اثر رکھتا ہے اور اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔ارسطوAristotle نےبھی اسی نکتہ نظر کا
قائل تھا ۔اس نے اپنی کتاب بوطیقا Bautikaمیں اسی پرخاصی بحث کی ہے۔ غم کے جذبات کا دل ہپر گہرا اثر ہوتا
ہے ۔ایسے میں ااگر میر تقی میر کی زندگی اور کلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات
روزروش سی عیاں ہے کہ ان کی زندگی اور اور انکی شاعر ایک دوسرے کا پر تو ہیں۔میر
کی ساری زندگی دکھ درد میں بسر ہوئی۔بچپن میں ماں باپ کا سایہ ان کے سر سے اٹھ
گیا۔اس کے بعد عزیزوں رشتہ داروں کی شقاوت کا سامنا کرنا پڑا۔میر کا عشق بھی ناکام
ہوا اور ان کی خانگی زندگی بھی ایسا اچھا تجربہ نہیں تھا۔اس وقت دلی فسادات کا
شکار تھا ۔ملک میں کساد بازاری کا دور دورہ تھا۔لوٹ کھسوٹ جاری تھی،نوابوں کی
گدیاں چھن رہی تھیں۔ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ میر تقی میر جیسا حساس آدمی
اردگرد سے متاثر نہ ہو پاتا۔چناں چہ ان کی شاعری میں دکھ درد کا پہلو درآیا تاہم
ان کے کلام میں گہرے غم کی لہر مصنوعی نہیں ہے ۔بل کہ جو ان پر بیتی انہوں نے خامہ
و قرطاس کی نظر کردی۔میر تقی میر کا دیوان غم اور آہوں سے بھرا پڑا ہے۔اردو میں
کسی اور شاعر نے آنسو بہانے پر اتنے اشعار نہیں کہے نہ ہی دل کے درد کا ایسے بیاں
کیا ہے۔ جتنے کہ میر تقی میر کے دیوان میں ملتے ہیں۔میر ایک درد مند دل لے کر دنیا
میں آئےتھے زمانے کی ٹھیس نے اس دل میں مزید درد بھر دیا۔ان کے اس درد کا درماں
اپنوں نے بھی نہ کیا تو غیر تو پھر غیر تھے۔ اگر چہ میر تقی میر کی زندگی مصائب کا
شکار رہی لیکن یہی غم و اندوہ انکی کو شعری کی دنیا کا شہنشاہ بنا گیا۔ آج میر کی
عظمت کی ایک اہم وجہ ان کا وہی رنگ ہے۔ جس نے ان کی زندگی میں زہر گھولے رکھا۔جب
تک اردو زباں رہے گی درد دل رکھنے والے ان کے شعروں کو ایسے ہی گنگناتے پھریں
گے۔خود میر نے کہا تھا کہ ان ریختوں کو لوگ گلیوں میں پڑھتے پھریں گے ان کی باتیں
ہمیشہ یاد رہیں گی۔آنے والے ادوار میں انکے معتقد شعرا ان کی پیروی بھی کرتے رہیں
گے ۔