Wali Dakni Ki ibtdai Zndgi aur Khimat.ولی دکنی کی شاعری اور ادبی خدمات |
ولی دکنی کا
تعارف
ولی دکنیwali dakni کا شمار اردو کے ابتدائی شاعروں میں ہوتا ہے۔اگر چہ ان سے پہلے بھی
اردو شاعری کے نمونے دست یاب ہیں لیکن کلام کی خوب صورتی اور دل کشی کے حوالے ولی
کواردو کے ابتدائی شعرا میں خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔انہوں نے اردو میں فارسی
تراکیب کو رواج دیا بل کہ اردو غزل کو ایسا رنگ دنے کی سعی کی جو بالاخر اردو غزل
کا طرہ امتیاز قرار پایا۔
ولی دکنی کی پیدائش
اردو کے مشہور و معروف
شاعر ولی دکنی کے وطن کی نسبت متضاد آرا
ملتی ہیں۔گجرات والے انہیں بھارت کی ریاست گجرات سے بتاتے ہیں جب کہ حیدرآباد کے
تحقیق کار ان کی پیدائش کا سلسلہ دکن سے جوڑتے ہیں۔تا ہم بعض مشہور روایات کے مطابق
وہ عبداللہ قطب شاہ کے دور میں 1667کو اورنگ آباد پیدا ہوئے۔اگر چہ ولی
دکنی کی عمر کا زیادہ تر حصہ احمد آباد بسر ہوا مگر انہوں نے دہلی کا سفر بھی
کیا۔دہلی کے سفر سے پہلے ان کی شاعری کا رنگ ڈھنگ کچھ اور تھا۔وہاں ان کی ملاقات سعد
اللہ گلشن سے ہوئی۔سعد اللہ گلشن ان کے کلام سے بے حد متاثر ہوئے۔انہوں نے ولی
کو مشورہ دیا کہ پرانے فارسی کے مضامین کو ریختہ میں لانا چاہیے۔یوں ولی دکنی نے
ریختہ گوئی کی ابتدا کی۔ان کی شاعری سے غزل کے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ولی دکنی سے
پہلے کے شعرا کہ جن میں قلی قطب شاہ اور امیر خسرو اگر چہ قابل ذکر
ہیں ۔مگر ان کی زباں اور ولی کی زبان میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔
ولی دکنی کی شاعری کی خصوصیات،زبان و بیاں
۔ولی کی زباں کافی حد تک
دور حاضر کی لسانی ساخت سے ملتی جلتی ہے۔دکن میں ولی سے قبل اردو غزل اس لیے بھی
روایت نہ بنا سکی کہ دکن کی ریاستوں پر فارسی کا اثر تھا۔یہی وجہ ہے کہ دکن میں
غزل کے ابتدائی ایام میں خارجیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔دکن میں اردو شاعری کو
ایسے شاعر کی ضرورت تھی جو اسے غزل کے رنگ سے ہم رنگ کردے۔اور پھر یہ قرعی ولی دکنی کے نام نکل آیا۔انہوں نے اردو
کو زبان اور بیان کے نئے سانچوں سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ولی دکنی
کی غزل میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو آنے والے ادوار میں غزل کی خاص پہچان
بنیں۔ولی نے ہندی ۔فارسی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اظہار کی
نئی راہ نکالی۔ان کے کلام میں مختکف زبانوں کے ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو باہم
ربط رکھتے ہیں اور ان کے کلام میں بے میل محسوس نہیں ہوتے۔انہوں نے ہندوستانی زبانوں
کے ایسے الفاط برتے ہہیں جو عام فہم ہیں اور قاری کو تفہیم میں دقت محسوس نہیں ہوتی
۔یہی وجہ ہے کی صدیاں گزرنے کا باوجود ان کا کلام عام فہم ہے اور ان کے زیادہ تر
الفاظ ہماری روز مرہ بول چال کے محسوس ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ولی دکنی اردو زبان
اور غزل کا ایسا معمار تھا جس نے زبان و
ادب کے آنے والے صورت گروں کے لیے ایک عالی شان عمارت کی داغ بیل ڈالی۔اردو کی وہ
غزل جسے معیار تصور کیا جاتا ہے ؛فارسی کی خوب صورت تراکیب کا مرقع ہے۔میر ،غالب
حسرت داغ سمیت بڑے شعرا نے جس فارسی زبان کا استعمال کرکے غزل کو بام عروج پر
پہنچا یا اسی فارسی کو پہلے ولی دکنی نے برت کر دکھایا۔ان کے کلام کے مطالعہ ہے یہ
بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ولی کے کلام پر فارسی کے گہرے اثرات ہیں۔شاعری میں یہ
رنگ ان سے پہلے شعرا کے ہاں نہیں ملتا۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں.
خط شب رنگ رکھتا ہے عداوت
حسن خوباں سے
کہ جوں خفاش ہے دشمن شعاع
آفتابی کا
نہ بوجھو اب ہوا ہے کم
سخن وہ دلبر رنگیں
لب تصویر پر ہے رنگ دائم
لاجوابی کا۔