Ticker

6/recent/ticker-posts

Haider Ali Aatish Ki Shairi|حیدرعلی آتش|شعری خصوصیات

Haider Ali Aatish ki Shairy

حیدر علی آتش۔دبستان دہلی یا دبستان لکھنئو کا نمائندہ شاعر

اردو کے مشہور و معروف شاعرحیدر علی آتش haider ali aatish کا شمار اردو کے نامور کلاسیکل شاعروں میں ہوتا ہے ۔آپ کے والد خواجہ علی بخش بچپن میں ہی وفات پاگئے ۔ آتش ابتدا میں نواب محمد تقی خاں کے دربار سے وابستہ ہوئے اور ان کے ساتھ ہی لکھنئو چلے آئے۔ جہاں اس وقت انشاء اور غلام ہمدانی مصحفی شاعری کے میدان میں اپنے جوہر دکھا رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان کی اردو شاعری میں سوقیانہ پن اور اخلاقی گراوٹ پر تھی۔نوابوں کو خوش کرنے کے لئے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی خاطرشعرا اخلاق سے گرے ہوئے مضامین مین باندھنے میں لگے ہوئے تھے ۔ اس دورمیں حیدر علی آتش نے اپنی شاعری میں اخلاقی اقدار کی پاسداری کو رواج دیا وہ قلندرانہ مزاج شاعر تھے جو اپنی شاعری میں اس بات کا درس دیتے ہیں کہ مال و دولت کی بجائے آخرت کا سوچنا چاہیے اور انسان کو کو معیار پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ دنیا کو عارضی چیز قرار دیتے ہیں ۔اگرچہ حیدر علی آتش کو لکھنؤ کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو دبستان دہلی کے شعرا کے کلام میں ملتی ہیں۔ لکھنوی انداز تحریر بناوٹی اور مشکل پسند ہے جبکہ حیدر علی آتش کا کلام کلام سہلِ ممتنع کی خوبصورت مثال ہے ۔ ان کی شاعری میں روایتی عشق و محبت کا بیان بھی بڑی خوبصورتی سے پایا جاتا ہے ۔ وہ اپنے محبوب کی اسی طرح تعریف کرتے ہیں جس طرح میر تقی میر۔اگر میر اپنے محبوب کے کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دیتے ہیں تو حیدر علی آتش اسے پھول کے روبرو بٹھاتا دینے کی بات کرتے ہیں حیدر علی آتش کی شاعری میں میں عشق مجازی کا تذکرہ ملتا ھے لیکن وہ محبوب کی تعریف میں حد سے تجاوز نہیں کرتے ۔وہ عشق مجازی میں بھی پاکیزگی اور خلوص نیت کے قائل ہیں ہیں ۔حیدر علی آتش کی شاعری کی ایک اور بڑی خوبی رجائت ہے۔ وہ مستقل مزاجی کے ساتھ حالات کے ساتھ نبردآزما ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے شعروں میں یہی بات وہ اپنے قاری سے بھی کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر پاؤں تھک جائیں تو تب بھی انسان کو رکنا نہیں چاہیے اگر وقت آجائے تو سر کے بل بھی چلتے رہنا چاہیے کیونکہ کہ بہت سی مشکلوں میں سے گزر کر انسان سے مراد پاتا ہےاور منزل مقصود پر پہنچتا ہے۔ حیدر علی آتش کی شاعری کا ایک اور خوبصورت پہلو شاعری میں داخلیت ہے اسی وصف نے ان کی شاعری کو کو ابتذال سے بچایا ہے ہے اور دلی جذبات کے اظہار کی صورت پیدا کی ہے۔اگرچہ وہ زندگی کے مسائل سے پریشان مگرپریشانی میں یاسیت اور قنوطیت کی حد تک نہیں پہنچتے۔ بل کہ ایک نشاطیہ انداز اور خوشی و سرمستی کا عنصر بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ اسی ادا سے وہ میر سے  الگ اپنا مقام بناتے ہیں ۔دبستان لکھنو کا شاعر کہلاتے ہوئے بھی دبستان لکھنو سے جدا انداز اور علیحدہ رنگ ڈھنگ رکھتےہیں کیونکہ کہ ناسخ اس کے پیروکاروں کا طرز نگارش اور مشکل پسندی کی مثال ہے اور حیدر علی آتش کی سہل نگاری اس سے بالکل مختلف ۔ اسی لیے کسی نے سچ کہا ہے کہ خواجہ حیدر علی آتش کی شاعری دبستان دہلی اور دبستان لکھنو کا سنگم ہے۔ان کی شاعری میں میں دونوں دبستانوں کی خصوصیات پائی جاتی ہیں