Ticker

6/recent/ticker-posts

Poet.Ehsan Ghuman|احسان گھمن|نقش خاک کا شاعر

Poet Ehsan Ghumman Best Poetry book Naqash E Khak



Best urdu Poetry Book Naqsh E Khak

Ashfaq Shaheen

نقش خاک اردو کے جواں فکر شاعر احسان گھمن کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ احسان گھمن کا تعلق گجرات کے مضافاتی قصبے جلالپورجٹاں سے ہے۔ شعبہ صحت سے وابستہ ہیں۔ نقشِ خاک81 غزلیات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کا فلیپ پر مشہور شعرا قمر رضا شہزاداور افضل گوہر نے لکھا ہے۔ جبکہ بیک پر عباس تابش کا تبصرہ دیا گیا ہے۔ خوبصورت گیٹ کی حامل  یہ کتاب تازہ کاری کی خوبصورت مثال ہے ۔ان کی شاعری ایک بار پھر  اس بات کا عملی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ مضافات میں خوبصورت ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ احسان گھمن کی غزل جدید لہجے کی عمدہ مثال ہے ۔ان کے کلام کی بڑی خوبی  اچھوتا پن اورندرت ہے۔ جس کا احساس ان کا کلام پڑھتے ہوئے بار بار ہوتا ہے۔ وہ تخیل اور الفاظ  کے تال میل سے  طلسماتی منظر تشکیل دے دیتے ہیں۔ ان کے کلام سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ جدید شاعری کے رجحان پر گہری نظر رکھتے ہیں کے ساتھ ساتھ شعر کی جدید کرافٹ سے پوری طرح آگاہ ہیں اور تخلیق کے لیے یہ تمام آلات بروئے کار لانے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں ۔ان کے پہلے مجموعہ کلام میں دل میں اتر جانے اور دیر تک ذہن میں رہنے والے اشعار بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔یہ اشعار زبان زد عام ہونے اور قبولیت کی سند پانے کے حامل ہیں

احسان گھمن کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے عباس تابش رقم طراز ہیں۔

 ’’ احسان گھمن کی کی شاعری پڑھتے ہوئے میں کئی بار رکا اور اس کی تخلیقی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے سرشار ہوتا رہا ۔احسان گھمن کی شاعری اپنی مٹی سے جڑی ہوئی ہے۔ جس سے وہ کئی نئے جہان منی نکلتا نظر آتا ہے ‘‘

قمر رضا شہزاد نےایسا انھیں تخلیق کارقرار دیا ہے جو شہروں سے دور غزل کے ایسے پھول کھلا رہا ہے جس کی خوشبو لوگوں کے دل میں اتر کرا نہیں سرشار کر رہی ہے ؛جبکہ افضل گوہر نے ان کی شاعری بڑاوصف سماجی مسائل کا ادراک اور بیان میں نیا پن قراردیا ہے۔ آئیے ان کے کلام سے انتخاب دیکھتے ہیں

میں حیران تھا منظر کی حیرانی پر

 پر پھول کھلے تھے بہتے ہوئے جب پانی پر


 میرے کپڑے دیکھ کے مٹی بول پڑی

گاس اگائو میری بھی عریانی پر پر


یاد کرو جس رات اکٹھے بیٹھے تھے

گھنٹوں چلی تھی رات کی رانی پر


 میں نے تو اک کنکر ہی بس پھینکا تھا

 اور یہ دریا اترا ہے طغیانی پر


 میں نے جب تاروں پر تیرا نام لکھا

چاند ہنسا تھا میری اس نادانی پر


 کوہ وفا سے پیار کے چشمے پھوٹے جب

کتنے دریا نکلے ایک روانی پر


دیکھے ہیں کچھ دیکھے بھالے لوگ یہاں

کس نے گھر آباد کیا ویرانی پر


 میں نے ایک سجدے میں رات گزاری ہے

 یوں ہی نہیں یہ یہ چاند بنا پیشانی پر

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

عجب ہی چیز کوئی میکدے میں گھومتی ہے

میں گھومتا ہوں تو ہر شے نشے میں گھومتی ہے


 یہ بھید مجھ پہ کھلا بھی تو اک طواف کے بعد

 زمین خود بھی کسی دائرے میں گھومتی ہے


 نہ جانے کون و مکان کس طرح ہوئے روشن

دیے کی لو تو ابھی طاقچے میں گھومتی


میں اس لیے کوئی مورت بناتا رہتا ہوں

 کہ تیری شکل میرے حافظے میں گھومتی ہے


 ستارہ کوئی بھی باہر نکل نہیں سکتا

یہ کائنات کسی حاشیے میں گھومتی ہے


 سرو پڑھتے ہوئے دیر ہی نہیں کرتی

 یہ ایک جو گرد اب راستے میں گھومتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔