Ticker

6/recent/ticker-posts

میرتقی میرکی شاعری میں غم|Mir Taqi Mir

Mir Taqi Mir Ki Poetry Main Ghum Ka rang


میر تقی میر کا شمار اردو کے عظیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ انہیں خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے۔ میر کے بعد آنے والے شاعر چاہے وہ مرزا غالب ہو چاہے داغ ہو ۔ کوئی اور  سب ہی نے میر تقی میر کی تعریف  اور ان کی برتری تسلیم کی ہے اردو کا یہ بلند مقام شاعر برطانوی ہندوستان کے علاقہ آگرہ Agra میں سترہ سو پینتیس میں پیدا ہوا ان ے والد کا نام محمد علی تھا لیکن وہ علی متقی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ انتہائی درویش شخصیت تھے۔میر تقی میر ابھی بچپن میں ہی تھے کہ ان کے والد کا سایہ ان کے سرسے اٹھ گیا اور اس کے بعد ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا یوں ان کی کفالت ان کے عزیز و اقارب کے ذمہ ہوئی جنہوں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا ۔ اس چیز نے میر تقی میر کو شروع ہی سے بہت حساس بنا دیا کہا جاتا ہے کہ اوائل عمری میں ہی انہیں کسی سے عشق ہوگیا اور محبت بھی ناکام ہوگئی۔ اس وقت ہندوستان میں میں وہ دور چل رہا تھا جب دلی اجڑ چکی تھی سلطنت کا جنازہ نکل رہا تھا۔ شعرا کہ جن کا دارومدار بادشاہوں کی تنخواہ پر تھا اور جو درباروں سے منسلک تھے وہ سارے کے سارے فارغ ہو چکے تھے ملازمتیں ختم ہو چکی تھیں ایسے میں میر تقی میر کو بھی دوسرے لوگوں کی طرح معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا۔  یہ تمام عوامل نے ان کے مزاج میں تبدیلی پیدا کی اورایک مستقل دکھ ،ایک مستقل غم ان کی زندگی کا روگ بن گیا اور یہی غم یہی دکھ ان کی شاعری میں ایک بڑے رنگ کے طور پر پر ابھر کر سامنے آیا اور اسی غم نے انہیں لازوال شاعر کا مقام دیا۔ میر تقی میر کی شاعری غم و الم کی داستان ہے وہ کہیں اپنے عشق کا مرثیہ بیان کرتے ہیں کہیں وہ اپنے زندگی کا نوحہ کہتےہیں۔ کہیں وہ دلی کے اجڑنے کی بات بتاتے ہیں

 

وہ ایک ناکام عاشق تھے اور یہ محرومی انہیں ساری زندگی تڑپاتی رہی ۔انہوں نے اپنے اشعار میں جابجا اب اس محرومی کا کا اظہار کیا ۔ تاہم وہ اپنے کرب اور دکھ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کا کلام پڑحنے والا اسے اپن غم اور اپنے عشق کی داستاں سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

میرے کے بارے میں مختلف روایات مشہور ہیں پر مولانا محمد حسین آزاد نے

اپنی کتاب آب حیاتAab E Hayat میں جہاں دوسرے شعراء کے بارے میں بہت سی کہانیاں تحریر کی ہیں : میر تقی میر کے بارے میں بھی ایسی داستانیں رقم ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ میر تقی میر بہت زیادہ حساس تھے اور مزاج دار تھے۔ آب حیات میں مولانا آزاد نے وہ مشہور واقعہ لکھا ہے کہ جس کہ کے مطابق جب ان کے پاس گاڑی کا کرایا نہیں تھا تو ایک آدمی نے ان کا کرایہ ادا کر دیا مگر جب گاڑی روانہ ہوئی تو اس سخص نے گفتگو شروع کی تب آپ نے منہ پھیر لیا اور کہا کہ میں اپنی زبان خراب نہیں کرنا چاہتا ۔اپنی اسی حساس طبعیت اور غمگین مجاج ہونے کی وجہ سے وہ کسی دربار سے منسلک نہ ہوئے اور اگر ہوئے بھی تو کچھ ہی عرصہ بعد اسے خیر آباد کہہ دایا میری تقی میر کی شاعری میں غم بعض اوقات یاسیت کی اور ناامیدی کی حد تک پہنچ جاتا ہے ۔تاہم یہ سچ ہے کہ میر تقی میر کے بعد میں آنے والے بہت سارے شعرا نے میر تقی میر کے رنگ میں اور شاعری میں ان کی پیروی کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔