Poet Rehman Amjad Murad Ki ktab |
سیالکوٹ ایک مردم خیزسر زمیں ہے۔ جس نے اردو ادب
کو بیش قیمت شخصیات عطا کیں ۔اردو ادب کے حوالے سے اس شہر کا نام عالمی سطح پر
درخشاں ہے۔اسی مٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اور خوب صورت شاعر رحمان امجد مراد ہیں ۔ان
کا شمار سیال کوٹ کے سینئیر شعرا میں ہوتا ہے۔زیر نظر کتاب صحرا سے نکلتی آنکھیں
ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ یہ کتاب غزلوں پر مشتمل ہے۔عمدہ سرورق کا حامل یہ
جمموعہ کلام المراد پبلی کیشنز نے سیال کوٹ سے چھاپا ہے۔2016 میں شاعی ہونے والی
اس کتاب کی ضخامت158صفحات پر مشتمل ہے اوراس کے ابتدائیصفحات میں عبد الرزاق
کنورکا مضموں بڑا شاعر یا بڑا انساناعر احمان امجد کا دیباچہ زندگی کی شاہراہ شامل
ہیںکتاب کے فلیپ پر شاعر نی اپنی مجتخب غزلیات کو جگہ دی ہے۔رحمن امجد مراد کے اس
کے علاوہ دو مجموعے’’ سمندر نہیں سنبھالا گیا‘‘ اورــ خط بھی لکھا کروــ شائع ہو کر
اور عوام سے پزیرائی حاصل کر چکے ہیں ۔رحمن امجد مراد جس طرح خود سادہ اور حساس ہیں اسی طرح ان کی شاعری میں بھی سادگی
اور بے ساختگی پائی جاتی ہے ۔ وہ اہنے اشعار میں معاشرے میں پائی جانے والی محرومیوں
ظلم و ستم کا بیان کرتے ہیں،جو سامنے دیکھتے ہیں اس کو لفظوں کی صورت دے دیتے ہیں
ان کے اشعار شدت جذبات کی خوب صورت مثال ہیں ۔ ان کی سلہ نگاری کے باعث ان کے پیغام
کی ترسیل قاری تک فوری طور پر ہو جاتی ہے۔ رحمان امجد مراد کسی قسم کی فلسفیانہ
موشگافیوں میں نہیں ۔ ان کی شاعری کا ایک اور رنگ رنگ محبت کے روایتی جذبات ہیں۔کہیں
کہیں وہ احباب کے رویوں سے بھی شاکی دکھائی دتے ہیں۔فن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے
وہ کتاب میں شامل اپنی تحریر میں رقم طراز ہیں
’’شاعری ستائش کے لئے نہیں ہونی چاہئے بلکہ شاعر
کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے ‘‘
مزید لکھتے ہین کہ ایک تخلیق کار معاشرے کی آنکھ
ہوتا ہے اور معاشرے کا اظہار کا وسیلہ ہوتا ہے چنانچہ جو کچھ انسان معاشرے میں دیکھے
اور جو کچھ وہ محسوس کرے وہ سب اسے وہ سب میں ڈھال دینا چاہیے اس کے بعد اگر کوئی
اس کی تعریف کرے یا نہ کرے اس سے اسے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ سیالکوٹ سے تعلق
رکھنے والے رحمن امجد مراد ایک فعال ادبی ادبی شخصیت ہیں۔ وہ سیالکوٹ کے علاوہ
مختلف شہروں میں منعقدہ مشاعروں میں تواتر سےشرکت کرتے ہیں ۔ وہ گل بخشالوی کی قائم
کردہ کھاریاں کی معروف تنظیم قلم قافلہ کے مستقل شاعر ہیں ۔ مرادکہتے ہیں کہ زندگی
میں جب دکھ درد آنکھوں میں اترتا ہے تو وہ شعر کہنے پر مجبور ہو جاتے امجد مراد کی
شاعری سے انتخاب احباب کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے
میرے سفرکو میرے راستوں نے بانٹ لیا
میرا خیال بھی کچھ دوستوں نے بانٹ لیا
میں سنگ میل سرِ رہگزار منزل کا
قدم قدم پہ مجھے فاصلوں نے بانٹ لیا
یہ شیرمارا تو میں نے تھا آپ نے جنگل میں
مگر یہ کیا کیاکہ اسے ہرنیوں نے بانٹ لیا
وہ ساتھ ساتھ میرے کھاآگئے اجالے بھی
اندھیرا بھی تو میرا ساحروں نے بانٹ لیا
اگل اگل کے انہیں تھک گیا سمندر جب
تمام لاشوں کو پھر ساحلوں نے ساحلوں نے بانٹ لیا
زمین پہ جتنے بھی تھے ظابطے وہ میرے تھے
میرا اثاثہ میرے دشمنوں نے بانٹ لیا
میں چاہتا تھا کہ ہو قتل میرے ہاتھوں مراد
میرا جنوں یہ میری وحشتوں نے بانٹ لیا
۔۔۔۔۔
مجھے دیوار میں پتھر کی طرح رکھا گیا
اور تجھے سیپ میں گوہر کی طرح رکھا گیا
حکمران وہ رہا سالار کی صورت میرا
اور مری سوچ کو لشکر کی طرح رکھا گیا
پارسا بھی رند بھی کرنے لگے میرا طواف
جب بھی میخانے میں ساغر کی طرح طرح رکھا گیا
خود سے بچھڑے ہوئے گزری ہیں کئی صدیاں مجھے
میں کئی صدیاں کھلے در کی طرح رکھا گیا
پھر بلندی کو مری چھو نہ سکا کوئی بھ ہاتھ
مجھ کو اس تاج میں ایک پل کی طرح رکھا گیا
دربدر میں ہوا تاوان کی صورت پہلے
کوٹ کی جیب میں پھرزر کی طرح رکھا گیا
کرہ ارض نے تسلیم کیا مجھ کو مراد
میں سمندر تھا سمندر کی طرح رکھا گیا
مجموعہ کلم سے کچھ مطلعے ملاحظہ فرمائیں
گماں یقین ہوگیا میں
کتنا کتنا حسین ہو گیا
آخری بار میں اٹھاؤں گا
سر سردار اٹھاوں گا
نئےہیں لوگ مگر ضابطے پرانے ہیں
میں دربدر ہو میرے رابطے پرانے ہیں
جلتا ہوا زمین پہ صحرا ہوں سوچئے
میں پتھر کے دور کا پیاسا ہوں سوچئے
مثل چراغ روشنی کرتا رہا ہوں میں
اب تک تلاش زندگی کرتا رہا ہوں میں
وقت کی سوچ پرانی میں کوئی اور نہ تھا
صرف حیرت تھی حیرانی میں کوئی اور نہ تھا
حد سے گزر گیا ہے دیا سرکشی میں آج
پاگل ہوئی پھرے ہے ہوا برہمی میں آج
ایک مٹایا دوسرا پیدا کیا
کس اس لیے یہ سلسلہ پیدا کیا
امیر شہر نے جب شہر سے نکالا تھا
پھر اس کے بعد میں اس شہر کا حوالہ تھا
تم آئینہ ہو دوستی پتھر سے مت کرو
کرنی بے وفائی تو منظر سے مت کرو
میرا جنون مری سرکشی نہ لے جانا
میرے مزاج سے تم برہمی نہ لے جانا
گھر کی دیواروں کے چہرے روتے ہیں
بھوک سے جب یہ پھول سے بچے روتے ہیں
میری سوچ کا دریا بہنے والا ہے
اس میں اک اک چہرہ بہنے والا ہے
مجھ پر شام ہمیشہ بھاری ہوتی ہے
تنہائی کچھ ایسے طاری ہاتی ہے
اس کی آنکھوں میں قیامت کے سبھی منظر تھے
آج فٹ پاتھ پہ روتا ہوا بچہ دیکھا