Ticker

6/recent/ticker-posts

Mir۔Hasas Shair|آگےکسو کےکیا کریں۔میرتقی میر۔حساس شاعر

میر تقی میر ایک حساس شاعر

اردو شاعری مین میر تقی میر کا مقام بہت بلند ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود د ان کی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی بل کہ دور جدید میں شعرا ابھی تک میر کے اندا ز کی تقلید کرتے ہیں۔میر تقی میر کے اجداد کا آبائی وطن حجاز تھا۔ جہاں سے وہ ہجرت کر کے ہندوستان ان کی ریاست گجرات میں آئے۔ بقول  میر تقی میر ’’ان کے بزرگ فوج میں شامل ہوگئے گئے۔ میر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ درویش انسان تھے اور وہ بہت حساس طبیعت کے مالک تھے۔ وہ صرف اپنے آپ تک محدود رہتے تھے، کسی سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے اسضمن میں کئی کہاں سننے کو ملتی ہیں۔ ان کی یہ حساس طبیعت ان کے حالات کی پیدا کرتی تھی۔اپنے اسی مزاج کی وجہ سے وہ اپنے دور کے دیگر شاعروں کی طرح کسی دربار سے مستقل طور پر منسلک نہ ہوئے، اگر کہیں کسی دربار سے جڑے بھی تو بہت کم مدت کے لئے۔ میر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی مزاج دار تھے ، انتہائی انا پرست تھے تھے ان کے اشعار بھی اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے۔حساسیت نے انہیں بہت انا پرسے بنا دیا تھا۔کہ نہ انہوں نے کسی نواب کی خوشامد کی نہ کسی کے لیے قصیدہ لکھا۔ ان کا بڑا مشہور شعر ہے کہ آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے۔ اردو کے کے مشہور شاعر مرزا غالب اپنی انا کے حوالے سے مشہورتو ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میر مرزا غالب بادشاہ کے دربار سے منسلک تھے۔ ان سے ماہانہ لیتے تھے اور ان کی کی مدح میں قصیدہ لکھتے تھے اور بار بار بادشاہ کو جیب ڈھیلی کرنے کا کہتے تھے۔اسے یاد دلاتے تھے کہ اس نے کافی عرصیہ سے انہیں کچھ نہیں عطا فرمایا۔مگر میر تقی میر میں کسی بادشاہ کا قصیدہ نہیں لکھا انہوں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں اور ہمیشہ شاعرون کے خوشامدی ٹولے سے الگ اپنی دنیا میں سب میں محو رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں داخلیت کا گہرا اثر پایا جاتا ہے ہے وہ وہ اپنے دل کی بات کرتے ہیں اندرونی جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ محسوس ہوتا ہے کہ کہ وہ اپنے داخلی مسائل میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں باہر کی دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں وہ جب کسی سے بات بھی کرتے ہیں تب بہت سوچ کر کرتے ہیں ۔ذرا سوچئیے گا کہ جو شخص کسی سے بات کرتے ہزار بار سو چے گا اس کی حساس طبیعت یہ کیسے گوارا کرے گی کہ وہ کسی سے اپنے لیے نوالا مانگے۔ ان کے دور کے دیگر شہر جہاں قصیدہ لکھ رہے تھے،جہاں ابتذال شاعری میں پایا جاتا تھا سطحیت پرمبنی مضامین کے اشعار میں میں لکھے جاتے تھے ۔ایسے میں میں میر نے شاعری میں غم کو رواج دیا انہوں نے محبت میں غم کا فلسفہ اپنایا یا اور اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میر بنیادی طور پر شاعرانہ مزاج تو تھے لیکن انہیں بچپن میں بڑا غمناک ماحول ملا جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کے والدین بچپن میں وفات پاگئے اور اور میر تقی میر بے آسرا حاصل ہوگئے خاندان والوں نے ان سے کچھ اچھا سلوک نہ کیا کیا اور اس کے ساتھ میر تقی میر کو جوانی میں عشق ہوا وہ بھی ناکام ہو گیا میر تقی میر کی خانگی زندگی بھی کچھ اچھی نہیں تھی۔ اس محرومی میں کچھ حصہ  اس وقت کے حالات نے بھی ڈال دیا۔ کیونکہ روزگار کے مواقع میسر نہیں تھے ۔ میر تقی میر ساری زندگی محبت کو ترستے رہے ہے یہی دکھ ان کی زندگی کا بڑا دکھ بن گیا اور ن کو مزید حساس کر گیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بار بار کہا کہ دل کا کوئی مول نہیں میرا دل ایک ٹوٹا پیالہ ہے اور میں یہ دل لے کے دنیا کے پاس گیا اور کسی نے دنیا میں اس دل کی قیمت نہیں پوچھی۔میر کی جس حساسیت کو نقاد بدمزاجی کہتے ہیں اور ان پر الزام دھرتے ہیں یہی وہ خوبی تھی جس نے اردو ادب کو احساس سے مزین کئی اشعار ان کے وسیلے سے عطا کیے