Ticker

6/recent/ticker-posts

میر تقی میرکی غزل گوئی|فکروفن|Mir Taqi Mir ki ghazal goi

میر تقی میر کی شاعری کی خصوصیات|انداز میر کی خصوصیات
میر تقی میر کی غزل گوئی|MirTaqi Mir Shayari  Khasoosyat|Mir Taqi Mir ki ghazal goi
 

میر تقی میر کی شاعری کی اہم خصوصیات

میر تقی میرکا شمار اردو کے ان گنے چنے اور خوش نصیب شاعروں میں ہوتا ہے جن کو لازوال شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ ان کو یہ مقام ان کے خاص اسلوب کی وجہ سے ملا۔ان کی شاعری کے انداز کی ان کے بعد آنے والے ہر بڑے شاعر نے تعریف کی اور میر کے انداز میں لکھنے کو باعث فخر بتایا۔یہاں تک کہ مرزا غالب نے بھی ان کی شاعرانہ برتری تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک وہی اس فن کا استاد نہیں بلکہ پرانے زمانے میں میر بھی ہو گزرا ہے۔میر تقی میر نے اپنے خاص انداز کے باعث شاعری پر گہرے اثرات مرتب کئے۔انہوں نے شاعری کو جو رنگ ڈھنگ عطا کیا آنے والے شعرا نے نہ صرف اس کی پیروی کی بلکہ اسےنکھارا اور آنے والی نسلوں کو منتقل کیا۔اگر میر کی شاعری پر نظر ڈالی جائے تو ان میں مندرجہ ذیل خوبیاں نظر آتی ہیں جو ان کی عوام اور خواص میں شہرت کا باعث ہوئیں۔

میر کی غزل کا سادہ انداز

کلام میر کی ایک بڑی خوبی اس کی سادگی ہے۔وہ شعر تخلیق کرتے ہوئے مشکل الفاظ کے چناو پر وقت ضائع کرنے کی بجائے تخیل اور جذبہ کو فوقیت دیتے ہیں ۔ان کا یہی انداز دہلی کے شاعروں کی نمایاں خوبی اور پہچان قرار پایا۔میر تقی میرکے اشعار اس قدر سادہ ہیں کہ  اردو کا ایک عام قاری بھی ان کے شعر سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اور اسے اپنے حافظے میں رکھ سکتا ہے۔اسی خوبی نے میر کے کلام کو گلی کوچوں میں زباں زد عام کر دیا جس کا ذکر انہوں نے خود اپنے اشعار میں بھی کیا ہے کہ ان کی غزلوں کو لوگ گلیوں میں پڑھتے پھریں گے اور ان کو مدتوں یاد رکھیں گے۔

میر کی غزل کا مکالماتی انداز

میر کے کلام کی ایک خاص خوبی ان کی اشعار میں مکالماتی انداز ہے۔ان کی غزلیات میں ایسے اشعار بکثرت پائے جاتے ہیں جو مکالمے کی صورت ہیں۔کبھی وہ باد صبا سے بات کرتے ہیں اور اس سے افسوس کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پھول اگر کچھ دیر اور رہتے تو موسم بہار کا عرصہ بڑھ سکتا تھا۔ کبھی اپنے  محبوب سے بات کرتے ہیں۔ ،کبھی خود کلامی کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔وہ خود سے مخاطب ہو کر پوچھنے لگتے ہیں کہ محبوب  کا نام لیتے ہی نیند سے بیدار ہو گئے ہو اے میر صاحب کیا آپ نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ان  کے اس انداز نے ان کی شاعری کو نہ صرف حقیقت کا رنگ دیا ہے بلکہ قاری کے لیے دل چسپی اور کشش کا ساماں بھی پیدا کیا ہے۔

عام بول چال کا انداز

میں کی شاعری پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے گلی کوچے میں بولی جانے والی زبان پڑھ رہے ہیں۔میر تقی میر ایک زیرک شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے لیے جو موضوعات انتخاب کیے وہ عام انسان کی روز مرہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی شاعری ایک تو مکالماتی رنگ لیے ہوئے ہے اس پہ اس کا انداز عام بول چال جیسا بے تکف ہے۔ان کا لہجہ ایسا لہجہ ہے جو ہم اپنے ارد گرد سنتے ہیں یوں ان کا کلام پڑھنے والے  وہ  اپنے روزوشب کا حصہ لگتا ہے۔

میر تقی میر کی شاعری میں تشبیہات و استعارات

میر نے اپنی شاعری کو خوب صورت تشبیہات اور استعارات سے مزین کی کیا ہے۔ان کے زباں زد عام اشعار میں سے بیشتر ان کی خوب صورت اور سادہ تشبیہات کے باعث مشہور ہیں۔وہ محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ کبھی اپنے معشوق کے لیے گل استعارہ کرتےہیں۔وہ دل کو ٹوٹے پیالے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ کبھی دنیا کو چمن کہتے ہیں۔اور وہ کبھی زندگی کو طوفان کہتے ہیں۔ان کے بعد ان کی تشبیہ اور استعارہ کے خزانے کو آنے والے شاعروں نے خوب استعمال کیا۔

میر کی شاعری میں موسیقیت

میر تقی میر کی شاعری میں الفاظ کا چناو اور ان کو شعر میں ان کو پرونے کا انداز ایسا ہے کہ اس میں موسیقیت کا عنصر ان کے ہم عصر شعرا سے بڑھ جاتا ہے۔یوں ان کے کلام میں نغمگی اور ترنم   خاص خوبی بن کر ابھرتی ہے۔ ہے۔انہوں نے اظہار کے لیے عام طور پر جو بحور استعمال کی ہیں وہ بہت مترنم ہیں اور پڑھنے والا اس موسیقی کے بہاو میں بہتا چلاجاتا ہے۔اس شے نے کلام کی اثر آفرینی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

میر کی غزل میں غم واندوہ

میر تقی میرکی زندگی دکھ درد کی تصویر تھی۔بچپن ہی سے وہ مصائب کا شکار رہے۔والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا،بچپن میں عشق ناکام ہوا اور ان کی گھریلو زندگی بھی کچھ خوش گوار نہ تھی۔اس پر ملک میں شورش اور آمدن کا وسیلہ کا نہ ہونا۔ ان تمام باتوں نے انہیں حد سے زیادہ حساس بنادیاتھا۔جس سے ان کے کلام میں درد اور غم کی لہر پیدا ہوگئی۔جو ان کے کلام کی اہم خوبی ثابت ہوئی۔آج میر تقی میرکے کلام کی پہلی خوبی اور پہچان ان کا غم ہی بتائی جاتی ہے۔ ۔ان کی زندگی جن مسائل میں گزری اور جن حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑا انہوں نے انہیں اشعار کی صورت دی۔وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی کے رجن و غم جمع کر کے دیوان بنایاہے۔یوں دکھ درد کی ایک مستقل لہر ان کی شاعری میں شامل ہوگئی۔ان کے غم کا بڑا پہلو غم عشق ہے اس کے ساتھ دنیا کی بے ثباتی اور حالات کا جبر بھی ان کے کلام میں ساتھ ساتھ چلتا ۔

میر کے کلام میں تکرار لفظی

اردو کے استاد شاعرذوق نے کہا تھا کہ کسی کو میر کا انداز نصیب نہیں ہوا۔ اگر چہ شاعروں نے ان جیسا لکھنے کی بہت بہت کوشش کی۔میر کے اسی انداز کا ایک پہلو ان کے کلام میں پائی جانے والی تکرار لفظی ہے ۔ یہ خوبی اردو کے بہت کم شعرا کے کلام میں ملتی ہے۔میر کے اشعار میں تکرارلفظی کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں ،مثال کے طور پردرج ذیل  الفاظ:

روتے روتے،پتہ پتہ،بوٹا بوٹا،رکتے رکتے


میر کی شاعری میں قنوطیت،ناامیدی

میر تقی میر چونکہ غم زدہ دل کے مالک تھے اور قدرت کی طرف سے ان کی زندگی میں دکھ درد ہی لکھ دیا گیا تھا۔ان حالات میں ان کے ہاں نامیدی کا پیغام ملتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی ایک مصیبت ہے ایک وبال ہے دنیا میں زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کاش وہ زندگی سے دوچار نہ ہوتے۔اگر چہ شاعری کی ایک خوبی یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس میں امیس کا درس دیا جائے اور اس میں رجائیت کا پہلو پایا جائے۔مگر چوں کہ میر تقی میر نے زندگی میں دکھ ہی دیکھے تھے چنانچہ ان کے ہاں یاسیت دکھائی دیتی ہے۔ان کی شاعری کا یہ پہلو بھی دکھی دلوں کو تسکین دیتا ہے اور غم زدہ لوگوں کو ان کی شاعری اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے۔