Ticker

6/recent/ticker-posts

Ghalib Ki Ibtdai Zindgi aur Shairy|غالب کا بچپن اور شاعری

Ghalib Ka Bachpan Aur Shair Ka Aghaz


 

 

مرزا غالب کا شمار اردو کے عظیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔اپنی نکتہ آفرینی اور خاص اسلوب کی وجہ سے آج بھی ان کی برتری تسلیم کی جاتی ہے۔ اردو کا یہ بڑا شاعر یار سترہ سو ستانوے کو برطانوی ہندوستان کے مشہور شہر آگرہ میں پیدا ہوا۔ وہ اگرچہ غالب کے نام سے مشہور ہوئے لیکن ان کا پورا نام اسد اللہ بیگ خان تھا ۔ان کے والد کا نام مرزا عبداللہ بیگ خان تھا انہیں مرزادلھا کہا جاتا تھا تھا ۔مرزا غالب کے والد کا انتقال ان کے بچپن میں ہوگیا۔ اس کے بعد ان کی سرپرستی ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ کے ذمہ آئی۔ لیکن وہ بھی ابھی زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکے اور کم و بیش پانچ سال بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔اس کے بعد غالب کی پرورش  ان کے ننھیال میں ہوئی۔ مرزا غالب کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کی طرف بے توجہی نہیں برتی گئی ۔ان کے ننھیال کی طرف سے ان کی تعلیم و تربیت کا  خاص انتظام کیا گیا ۔ اس زمانہ میں مولوی محمد معظم  آگرہ کے کے مشہور عالم تھے مرزا غالب نے فارسی تعلیم ان سے حاصل کی۔ اس حوالے سے مولانا حالی نے ایک دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ

مرزا غالب نے ایک فارسی غزل لکھی اور اس میں یعنہ چہ کی جگہ کہ چہ ردیف رکھی اور اپنے استاد کو دکھائی استاد نے ردیف کو محمل کہہ دیا مگر جب تھوڑے دنوں بعد مرزا غالب نے فارسی شاعر ظہوری کا کلام کلام انہیں دکھایا اور سند پیش کی تو وہ اپنے ذہین معترف ہوگئے گئے

مرزا غالب نے ایسی بے شمار فارسی غزلیں لکھی ہں جو ان کی کی شعری دسترس کی بڑی دلیل ہیں۔کہا جاتا ہے اسی دور میں ایک عبدالصمد ایرانی شخص جب ایران سے آیا تو مرزا غالب کے ہاں قیام کیا۔ اس وقت مرزا غالب کی عمر 14 سال تھی اور مرزا غالب نے اس سے فارسی زبان پر عبور حاصل کیا۔مرزا غالب کا ننھال ال ایک امیر خاندان تھا۔ چچا کے بعد مرزا غالب کی روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی ۔ایسے میں ابتدائی زندگی امیرزادوں کی طرح گزاری۔ مالک رام اپنی کتاب ذکر غالب میں لکھتے ہیں ۔۔

 

غالب بھی اپنے زمانہ کے رئیسوں کی روش کے مطابق راہ سے بھٹک گئے اور لہو و لعب میں پڑ گئے تو کچھ تعجب کا مقام نہیں تعجب تو جب ہوتا اگر وہ ایسے ماحول میں رہتے ہوئے بھی دامن بچا کر نکل جاتے

 

مرزا غالب کی کی کی تحریروں میں بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے، ان کی شاعری میں بھی شراب ،سرمستی گھٹائیں اور یہ تمام چیزیں گواہی دیتی ہیں کہ وہ اسی قسم کے مزاج کے ۔۔کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب نے گیارہ سال کی عمر میں شاعری کی ی مالک رام کے مطابق ابھی وہ مولوی محمد مکتب معظم کے مکتب میں پڑھتے تھے اور ان کی عمر دس برس سے متجاوز نہ تھی کہ انہوں نے شعر کہنا شروع کیا۔غالب اوائل میں بے دل کی پیروی کی اور اسی کے انداز میں اشعار کہتے رہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا ڈیڑھ ہزار سے زائد کا دیوان ان  کا بیدل کے رنگ میں تیار ہو چکا تھا۔ لیکن بعد میں انہوں نے یہ رنگ چھوڑ دیا ۔ان کی کلام میں مختلف مقامات پر بیدل کی تعریف کی گئی ہے اور اس کی پیروی پر غرور کیا گیا ہے لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنا خاص رنگ اختیار کیا جو آخرکار ان کی پہچان بن گیا۔نواب الہی بخش کے خاندان کے ساتھ مرزا غالب کے گھرانے کے پرانے تعلقات تھے انہوں نے مرزا غالب کے چچا کی ملازمت اور پینشن کے حوالے سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ جب غالب کی عمر تیرہ برس کی ہوئی تو ان کی شادی نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی نواب الہی بخش کی 11 سالہ بیٹی امراء بیگم سے ہوگئی۔ اگرچہ غالب اس سے پہلے بھی دلی یہ آتے جاتے رہتے تھے لیکن اس کے بعد انہوں نے دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرلی ۔دہلی میں قیام کے دوران ان کا نواب احمد بخش خاں کے گھر میں آنا جانا رہا اور وہاں کی محفلوں میں ان کی ملاقات اس وقت کی اہم شخصیات سے ہوئی کوئی اسی دوران غالب کی کی کے تعلقات قاضی فضل الحق خیرآبادی سے سے پیدا ہوئے۔ ان دونوں میں گہرے دوستانہ مراسم ہوئے قاضی فضل حق خیر آبادی شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے مرزا غالب کو ان کی بے راہ روی پر ٹوکا ۔ غالب ان کے دل میں ان کی اتنی قدر تھی کہ انہوں نے اس بات پر غور کیا اور انہیں کے کہنے پر اپنے دیوان کا انتخاب کیا۔مرزا غالب نے ان کی کی دوستی کے دوران نہ صرف اپنی شاعری میں تبدیلی پیدا کی بلکہ اپنے روز و شب میں بھی نمایاں تبدیلیاں کیں یوں وہ اس اخلاقی گراوٹ کے ماحول میں سنبھلنے لگے۔انہوں نے اپنی اپنی آوارہ گردی ترک کر دی۔ غالب کے ننھیال دولت کی ریل پیل تھی جس نے کبھی انہیں پریشاں حال نہ ہونے دیا ۔ دلی میں بھی کچھ وقت ایسا ہی گزرا لیکن اس کے بعد جب نواب احمد خان بخش نے اپنی جائیداد تقسیم کر دی جب کے لئے مشکل گھڑی کا آغاز ہوگیا ۔جو آکر عمر تک جاری رہا۔