Faiz ahmam Faiz Ki Shairy Aur Traqi Pasand Tehreek |
اردو کے مشہور شاعر فیض احمد فیضPoet Faiz Ahmad Faiz اردو کے ان ہر دل عزیز اور عظیم شعرائ میں شمار ہوتے ہیں جن کے کلام کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ان کی شاعری ان کی جوانی کے دور سے لے کے ان کی وفات سے اب تک عوام کے دلوں کو گرما رہی ہے۔اور جبر کے خلاف ایک آواز اور محبت کےپیام کی عمدہ مثال ہے۔ سیالکوٹSialkot وہ زرخیز علاقہ ہے جس نے مخلتف ادوار میں کے نواحی علاقہ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہوئے بعض لوگ ان نابغہ روزگار شخصیات پیدا کیں۔یہی سر زمیں ان کی جائے پیدائش ہےتاہم بعض محقق ان کی پیدائش کا مقام ضلع نارووال کا گاؤں کالا قادر بتاتے ہیں۔کچھ روایات اس سے بھی جڑی ہوئی ہیں کہ ان کا نام سالیکوٹ بلدیہ کے ریکارڈ میں پایا گیاہے۔ فیض احمد فیٖ کا گھرانہ کا گھرانہ ایک علمی اور ادبی گھرانہ تھا ان کے محلے میں بھی علم و ادب کی محفلیں ہوتی تھیں۔ آپ کے والد سلطان محمد خان بھی ایک بڑی علمی شخصیت تھے وہ وکیل تھے اور بڑے بڑے لوگوں کا ان کے گھر میں آنا جانا تھا اسی رکھ رکھاؤ نے اور ادبی ماحول نے فیض احمد فیض کو شعر و ادب کی طرف طرف متوجہ کیا کا ۔کہا جاتا ہے کہ فیض احمد فیض کے گھر سے کچھ دور ایک حویلی تھی جہاں پنڈت نارائن نامی شخص کے گھر میں مشاعروں کا انعقاد ہوتا تھا ۔جہاں مختلف علاقوں سے شعرا کثیر تعداد میں شرکت کرتے تھے۔یہ محافل رات گئے جاری رہتیں۔ وہیں سے سے فیض احمد فیض کی شاعری کا آغاز ہوا ۔ ان کی شاعری مٰن جو رنگ ان کی پہچان بنا وہ ترقی پسند تحریک کی دین ہے۔ جب ترقی پسند تحریک ہندوستان میں وارد ہوئی تو جن شعرا اور ادبا نے کھلے دل سے اس کا خیر مقدم کیا ان میں فیض احمد فیض کا نام بھی شامل ہے۔اس تحریک کا حصہ بننا کوئی کار آساں نہیں تھا بلکہ یہ کؤحکو مت وقت کے عتاب کو دعوت دینے والی بات تھی۔ فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک Taraqi Pasand Tehreekکو صرف صرف زبانی طور پر اپنایا نہیں بلکہ انہوں نے اپنی عملی زندگی بھی۔وہ ساری عمر اپنے نکتہ نظر اور ٹھریک کے منشور سے جڑے رہے۔وہ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں میں جا بجا مزاحمتی رنگ پایا جاتا ہے وہ مزدوروں کو اٹھ کھڑے ہونے اور نظام کے خلاف ڈٹ جانے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی شاعری سامراج کے خلاف کھڑے ہاجانے کا نام ہے۔ ان کی شاعری برے سے برے حالات میں میں نہ گھبرانے کا درس دیتی ہے اور یہی ایک بڑے ادب کی پہچان بھی ہے ۔آج بھی جب کہیں ظلم و ستم کی بات ہوتی ہے تو فیض احمد فیض کا کلام فیض بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے ۔ انہوں نے فوج میں ملازمت کی یا اخبار پاکستان ٹائم سے منسلک ہوئے یا پھر ان پر پر مقدمہ بنا لیکن ان کا نظریہ ان کے ہم راہ رہا۔ان کے پائے استقلال میں جنبش نہ آئی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی تخلیقات میں فکر کا کینوس وسیع ہوتا چلا گیا ۔اپنی جلاوطنی کی زندگی میں انہوں عالمی سطح پر ظلم ستم کو دیکھا اور عالمی منظر کی شاعری کی۔ یوں ان کی شاعری بیم الاقوامی معیار کی شاعری کہلائی۔ ان کی کتابوں کے تراجم انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں ہوئے ان کی نظموں کو مختلف زبانوں اور مختلف ممالک میں سراہا گیا ۔فیض احمد فیض مزاحمتی شاعر تو تھے لیکن عملی زندگی بھی نامساعد حلات کے خلاف سینی سپر ہاجانے کی ای مثال ہے۔ وہ جدید شاعری میں مزاحمت کی علامت سمجھے جاتے ہیں